"میرا پہلا دوست"۔۔میرے والد

جمعہ 26 نومبر 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

دوست جتنا پرانا ھو اتنا شاندار ھوتا ھے، یہ 1977ء کی بات ہے میرے بچپن کے دن، بلکہ یوں کہیں کہ" انتہائی بچپن" کے دن تھے، زیادہ تر لوگوں کو اس زمانے کی باتیں یاد نہیں رہتیں،اللہ تعالیٰ نے  مجھےخصوصی نعمت سے نوازا ھے کہ، یاد ھے سب ذرا ذرا، ھمارا گھر چند گھروں میں سے ایک تھا جس کی دیواریں پکے اور خوبصورت ڈیزائن کے پتھروں سے بنی ہوئی تھیں، گھر کے  تقریباً آٹھ بڑے، بڑے کمرے تھے، بیچ میں حسب روایت ایک بڑا ھال تھا، جہاں شادی بیاہ، مہمان نوازی، اور جنازے کی بیٹھکیں ہوتیں تھیں، گویا یہ ھال،گھر کی رونق اور جان ھوتا تھا جو اجکل کے "تنگ دل" گھروں میں کم کم ہی ھوتا ھے، شادی بیاہ کے  لئے شادی ہال، کھلے میدان اور مختصر نوعیتی کھانے کی تقریبات گھر سے باہر ہی منعقد ہوتی ہیں، جس میں محبت، خلوص اور خدمت مدارات کم، دکھلاوا، اسراف اور تکلفات زیادہ ھوتے ہیں، کچھ لوگ حثیت نہ رکھنے کے باوجود یہ تقریب کرنے پر مجبور ہیں، دکھلاوا بڑھ گیا، محبت کم ھو گئی،
گھر کے اس بڑے ھال میں کئی چارپائیاں یا کرسیاں لگائی جا سکتی تھیں، دریاں بچھا کر بھی تقریبات منعقد ھو جاتیں، اب بس یادیں ھی باقی ہیں، ھمارے اس گھر کے ھال کی دیواروں میں چار خوبصورت الماریاں، مختلف النوع کی آرٹسٹک قسم کی فطری منظر کشی ھوئی تھی،  ایک تصویر درمیان میں آویزاں تھی جس میں تین ،ٹو پیس پہنے افراد نمایاں تھے  ، میں نے اپنے والد صاحب سے انہی دنوں( بچپن )اس  تصویر پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی ،پاپا ایک آپ ہیں، باقی دو کون ہیں؟ کہنے لگے "ایک سردار اشرف صاحب ہیں ، جو انتہائی قابل افسر ، ھمدرد اور منفرد شخصیت کے مالک تھے، دوران ملازمت حادثے کا شکار ہوئے اور آج تک خبر نہیں، دوسری تصویر سردار ایوب صاحب ناڑ والے کی ھے، جو رشتے میں میرے بھانجے لگتے ہیں لیکن اچھے دوستانہ تعلقات ہیں، اور تیسرا میں ھوں، عملی زندگی میں قدم رکھنے کی تصویر ہے،" والد صاحب کی زبانی ان لوگوں سے یہ میرا پہلا تعارف تھا، اسی بنیاد پر میرے کلاس اور سکول فیلو سردار ندیم اشرف سے اچھے دوستانہ مراسم ہیں، جبکہ سردار ایوب صاحب آج تک جہاں ملتے ہیں والد صاحب کو یاد بھی کرتے ہیں، رو بھی پڑتے ہیں اور حوصلہ افزائی بھی فرماتے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں صحت و سلامتی دے، تصویر آج بھی کسی نہاں خانے میں محفوظ ھوگی ،مگر طویل عرصہ آویزاں رہنے کی وجہ سے دل و دماغ پر نقش ھے، سردار اشرف صاحب مرحوم پہلے دنیا فانی سے رخصت ہوئے، میرے والد مرحوم بعد میں،
   یہ 1979ء کا زمانہ تھا، میرے والد جب بھی چھٹی پر گھر آتے میری ان سے طویل بلکہ کئی دفعہ آدھی آدھی رات باتیں ھوتیں، اب بحث مقامی سے یک دم "عالمی سطح" پر پہنچ گئی تھی کیونکہ سویت یونین نے افغانستان پر حملہ کر دیا تھا، روز جنرل ضیا الحق کی گفتگو ریڈیو پر سنتے، بابا سوویت یونین کیوں آیا، سوشلزم کیا ھوتا ھے اس نے کیوں حملہ کیا، نجیب کون ھے، اس کے سوویت یونین سے کیا تعلقات ہیں ؟ ظاہر شاہ، داؤد خان کون تھے،جنگ کہاں تک پہنچی ، ضیاء الحق کیسے اقتدار میں آنے، کشمیری بھٹو سے محبت کیوں کرتے ہیں ، اور ریگن، ضیاء ملاقات میں کیا طے ھوا؟ ضیاء نے امریکی امداد کو مونگ پھلی کیوں کہا، سوویت فوج کے آنے  سے لے کر جنیوا معاہدے اور افغانستان سے سوویت یونین کی واپسی تک کی تاریخ میں نے براہ راست اپنے والد سے سنی،  اس کے علاؤہ ایران عراق جنگ، عرب اسرائیل تعلقات ، فلسطین، کشمیر ، گویا عالمی سطح کے بے شمار ایشوز پر ان سے مہینے میں کم از کم آٹھ دن بحث ہوتی رہتی تھی، میرے لیے ھر مرتبہ وہ خوبصورت قلم  اخبارات،  اور معروف عالمی رسالہ" ٹائم میگزین"، لاتے اور میں الفاظ تو نہیں تصویروں سے تاریخ میں رنگ بھرتا تھا، دنیا کے ہر سیاسی، سماجی، تعلیمی اور اصلاحی موضوعات پر رات بھر گفتگو ھوتی ، سوال بہت کرتا تھا،" اب تک سوال ھاتھ، زبان اور قلم سے جاری ھے"
  میرے والد نے انتہائی تنگ دستی میں زندگی کا آغاز کیا تھا ان کی والدہ کا بچپن میں انتقال اور والد کی جفاکشی ان کی محنت کا" سورس" تھا.کراچی سے ملازمت کا آغاز کیا، پشاور ، تربیلا اور اسلام آباد میں زندگی کے 45 سال ملازمت کی، گھر جاتے تو بھی زمین، لوگوں کی خدمت، اپنے قرب و جوار کے رشتہ داروں اور دوست احباب کا خیال رکھنا ان کا مشن تھا، کتابیں پڑھنے اور حالات حاضرہ سے واقف رہنے کا ذوق اور شوق تھا، کسی کی غیبت، برائی بیان کرنے، اور ناراضگی کے سخت مخالف تھے، میتھ اور تاریخ پسندیدہ مضامین تھے،
ایک سادہ سی شخصیت مگر بلا کی یاداشت اور ذھانت تھی آخری دم تک کتابوں اور اخبارات و رسائل کا مطالعہ جاری رکھا، میں نے بچپن، جوانی اور آخری عمر تک آن سے بہت سیکھا، آن کا آخری دم تک ساتھ رہا ہے، کہتے تھے ایک یاداشتیں جمع کر کے کتاب لکھنے کا شوق ، لیکن لگتا ہے ممکن نہیں ھو گا، میں نے کہا میں لکھ دوں گا آپ بولتے رہیں، بس صحت میں اونچ نیچ کی وجہ سے کام ادھورا رہ گیا، تاہم لکھنے کا سلسلہ جاری ہے، جہاں آن کی تربیت کا حصہ زیادہ شامل ہے، میری زندگی میں ایک بھی ایسا واقعہ  نہیں آیا جہاں کبھی انہوں نے ڈانٹا ھو، ھمیشہ مسکرا کے بات کرتے، حس مزاح بھی بہت تھی، اس کا استعمال بہت کرتے، محنت، دیانتداری اور جستجو ہی ان کا راستہ تھا،۔

(جاری ہے)


میں اسلام آباد  1989ء میں آیا، قدم قدم پر والد صاحب ساتھ رہے، دل کھول کر، دکھ درد روک کر ،بہت خوشگوار باتیں ہوتی رہیں،اج یہی یادیں لیے جیتے ہیں،  ، دیکھتا ہوں، دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی،  والد صاحب دنیا کو نئی نئی ایجادات  کےساتھ بھی سٹڈی کرتے تھے، اور جینے کا بھی شوق تھا صرف اس لئے کہ کچھ پڑھ لیں، اور دیکھ لیں، جو جستجو کا پتہ دیتا تھا، مشکل سے مشکل وقت میں بھی صابر و شاکر رہتے تھے،  آج آن جیسے لمحاتِ سے گزرتے ہیں تو حیرت ھوتی ھے کیسے صبر کر لیتے تھے، انہی حیرتوں کے ساتھ زندہ ہیں
وقتاً فوقتاً لکھتا ریتا ھوں، میرے پہلے دوست بھی وہی تھے اور اس وفاداری کو "وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے" کے مطابق آخری وقت تک نبھایا،
والد صاحب  شریف خان 25 نومبر 2013ء کو عشاء کی نماز کے دوران سجدے  کی حالت میں خالق حقیقی سے جا ملے،  بے شک، اللہ بڑا ھے، ھم سر بسجود ہیں اور رہیں گے
یہ سر کبھی کسی کے آگے جھکا نہیں
تیرے سامنے جوجھکا تو پھر اٹھا نہیں
انہیں دل کا عارضہ تھا مگر کبھی محسوس نہیں کیا، ھنسی خوشی رہے، اپنے آخری سال کی عید کے دن علی الصبح ھم دونوں قبرستان گئے، واپسی پر سانس پھول گئی، پہلی مرتبہ والد صاحب نے اپنے جواں سالہ مرحوم بیٹے کے لیے آنسو بہائے، میں نے کم از کم پہلی مرتبہ ان کی آنکھوں میں آنسو دیکھے، غالبا اگست 2013ء میں عید تھی اور نومبر میں وہ اللہ کو پیارے ہو گئے، ۔

۔اللہ تعالیٰ ان کی منزلیں آسان کرے۔ کہاں ملتے ہیں ایسے جواں حوصلہ انمول لوگ، جن کی وجہ سے زندگی جواں رہتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :