
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
اتوار 21 اپریل 2019

پروفیسر رفعت مظہر
ہمیں تو یہ بھی علم نہیں کہ اِس صبر کی حد کہاں تک ہے۔ کوئی دو سال صبر کی تلقین کر رہا ہے تو کوئی تین سال اور کچھ ”محتاط“ پورے پانچ سال بھی مانگ رہے ہیں۔
(جاری ہے)
بات دوسری طرف نکل گئی، ہم کہہ رہے تھے کہ دیکھتے ہیں کہ قطرے کو گہر میں ڈھالنے کے دعویدار ”قومی صبر“ کا اور کتنا امتحان لیتے ہیں۔ فی الحال تو ڈھلتی عمر کے گہرے ہوتے سایوں میں ہم سوچ رہے ہیں کہ کیا دَمِ واپسیں سے پہلے ہم اُس پاکستان کی ایک جھلک دیکھ پائیں گے جو علامہ اقبال کا خواب اور قائدِاعظمکی محنتوں کا ثمر تھا۔ چہارجانب مایوسیوں کی تَنی ہوئی دبیز چادر میں اختر شیرانی یاد آئے۔
نفرت گہہ عالم سے ، لعنت گہہ ہستی سے
اِن نفس پرستوں سے ، اس نفس پرستی سے
دور اور کہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
آکاش کے اُس پار اِس طرح کی بستی ہو
جو صدیوں سے انساں کی صورت کو ترستی ہو
اور جس کے نظاروں پہ تنہائی برستی ہو
یوں ہو تو وہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
صبر کی تلقین کرنے والوں نے ادویات کی قیمتوں میں 55 سے 200 فیصد اضافہ کر دیا۔ پنجاب کی وزیرِصحت فرماتی ہیں کہ صرف اُن ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا جو ایمرجنسی اور آپریشن تھیٹر میں استعمال کی جاتی ہیں۔ اُنہوں نے فرمایا ”ہم سارے پنجاب کا بجٹ ادویات کے لیے نہیں دے سکتے، نہ ہی آوٹ ڈور والے ہر مریض کو دوائی دے سکتے ہیں“۔ محترمہ کے بیان سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ اپنی ”گِرہ“ سے ادویات خرید کر قوم پر احسانِ عظیم کر رہی ہوں۔ اُنہیں علم ہونا چاہیے کہ یہ عوام کی نَس نَس سے نچوڑا ہوا لہو ہی تو ہے جس کے بَل پر وہ ایسے بیانات داغ رہی ہیں۔ اگر صرف آپریشن تھیٹر اور ایمرجنسی ادویات مہنگی کی گئی ہیں تو اُنہیں خریدے گا کون؟۔ کیا محترمہ نہیں جانتی کہ اشرافیہ تو ”متعفن“ سرکاری ہسپتالوں کا رُخ ہی نہیں کرتی۔ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے تو علاج کے لیے یورپ اور امریکہ کا رُخ کرتے ہیں یا پھر مہنگے ترین پاکستانی ہسپتالوں کا۔ سرکاری ہسپتالوں میں تو نجبور، مقہور اور راندہ درگاہ ہی آتے ہیں۔ اُنہیں اگر مفت ادویات نہیں مل سکتیں تو اُن کے لیے ادویات مہنگی کرنا کہاں کا ”انصاف“ ہے۔ محترمہ ساری زندگی شعبہٴ طِب سے وابستہ رہی ہیں، اُن سے سوال ہے کہ کیا ایمرجنسی اور آپریشن تھیٹر کا تعلق شعبہٴ طِب سے نہیں۔ کیا سرکاری ہسپتالوں کے سارے آوٴٹ ڈورز بند کر دینے چاہییں تاکہ ”نہ رہے بانس، نہ بجے بانسری“۔
سوال یہ بھی ہے کہ جب پنجاب حکومت وزیروں، مشیروں اور ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں 3 گُنا اضافہ کر رہی تھی، تَب محترمہ کہاں تھی۔ جب پنجاب کے وزیرِاعلیٰ کی تنخواہ میں یک لخت 6 گُنا اضافہ کیا گیا، تَب محترمہ نے کیوں نہیں کہا کہ یہ بھوکوں مرتی قوم پر ظلمِ عظیم ہے۔ ارکانِ اسمبلی تو اپنی ”توندیں“ بڑھانے کے لیے تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کروا رہے تھے حالانکہ کروڑوں روپے صرف کرکے اسمبلیوں میں پہنچنے والوں کو تنخواہوں کی ضرورت ہے نہ مراعات کی لیکن جن مجبوروں کی زندگیاں داوٴ پر لگی ہیں، اُن کے لیے مفت ادویات پر حکمران چیں بہ چیں کیوں؟۔ محترمہ کے ”بڑے صاحب“ تو ریاستِ مدینہ کا ماڈل تھامے گلی گلی پرچار کر رہے ہیں لیکن ریاستِ مدینہ میں تو دریائے فرات کے کنارے مر جانے والے کتّے کی روزِ قیامت پُرسش پر بھی امیرالمومنین حضرت عمر لرزہ بَراندام تھے۔ بڑے صاحب کو یاد رکھنا ہو گا کہ ریاستِ مدینہ میں انصاف تھا، ”تحریکِ انصاف“ نہیں۔ تحریکِ انصاف کی حکومت میں مفلسوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے اُسے دیکھ کر تو بے اختیار یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.