مفید مشورے

پیر 20 جنوری 2020

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

ہمیں یقین ہو چلا کہ یہ حکومت اپنی ”مدت ملازمت“ پوری کرے گی۔ جب ”اصلی تے وَڈے“ حاکموں کی سرپرستی پہلے سے بھی زیادہ ہو اور اپوزیشن کے غبارے سے ”پھوک“ نکلنے کے بعد وہ مرے ہوئے چوہوں کی مانند ہو تو پھر حکومت کے لیے ”سَتے خیراں“۔ مولانا فضل الرحمٰن لاکھ تاریخ پہ تاریخ دیں، ہونا وہی جو ”سرپرستوں“ کی مرضی۔ اِس لیے ہم بھی یوٹرن کی افادیت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے یوٹرن پارٹی میں گھُسنے کی تگ ودَو میں ہیں۔

ہم منافق ہیں نہ لوٹے لیکن عقلمندی کا تقاضہ یہی اور ملک وقوم کا بہترین مفاد بھی یہی کہ ہم یوٹرن مار لیں۔ کوئی ہمیں لوٹا اور مفادپرست کہتا ہے تو کہتا پھرے، ہمیں ”کھُنے سکانے“ کا کوئی شوق نہیں۔
اب جب کہ ہم بزعمِ خود یوٹرن پارٹی کا حصّہ بن چکے تو حکمرانوں کو اپنے ارسطوانہ مشوروں سے نوازنہ بھی ہمارا فرضِ عین۔

(جاری ہے)

ویسے تو مخدومی ومحترمی عزت مآب جناب وزیرِاعظم عمران خاں صاحب خود ہی ارسطوِدَوراں ہیں اور اُنہیں مشورہ دینا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف، پھر بھی ہم ”قائدِاعظم ثانی“ کو کچھ مفید مشورے دینے کی جسارت کر رہے ہیں۔

عین ممکن ہے کہ اُنہیں ہمارا کوئی مشورہ پسند آجائے اور ہم بھی ”مشیر سشیر “ بن جائیں۔ ۔۔۔۔ پہلا مشورہ یہ کہ دَورِحاضر کے ”ٹیپوسلطان“ اپوزیشن پر ”ہَتھ ہَولا“ رکھنے جیسے نامعقول مشوروں پر ہرگز کان نہ دھریں۔ یاد رکھیں کہ اپوزیشن میں آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن جیسے ”کرونڈئیے“ بھی شامل ہیں جو ڈَسنے سے کبھی باز نہیں آئیں گے البتہ شہبازشریف پر دستِ شفقت رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔

وہ نوازلیگ کی نَیّا ڈبونے میں ممدومعاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ شریف النفس شاہدخاقان عباسی کو اُس کے حال پر چھوڑ دیں کہ وہ مرنجاں مرنج شخص ہے البتہ رانا ثناء اللہ اور خواجہ سعدرفیق جیسوں سے ہوشیار۔ اُنہیں اپنی اوّلین فرصت میں مذید ”رَگڑا“ دینے کی کوئی سبیل کریں لیکن یہ سبیل ایسی نہیں ہونی چاہیے جیسی اے این ایف نے انتہائی بھونڈے طریقے سے کی اور رانا ثناء اللہ ہاتھ آ کر بھی مچھلی کی طرح ”پھسل“ گیا۔

اب اِس پر پکا ہاتھ ڈالیں، ”اللہ کو جان دینی ہے“ وہ بہت خطرناک ہے، اِس لیے اُس کا ”مَکّو ٹھپنے“ کا بندوبست کریں۔ خواجہ سعدرفیق کو ابھی مذید ”رَگڑے“ کی ضرورت ہے تاکہ وہ آئندہ کبھی آپ جیسی عظیم ہستی کے مقابلے میں الیکشن لڑنے کی جرأت نہ کرے۔
حمزہ شہباز کی رہائی انتہائی مفید ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ وہ شہبازشریف کا ”جانشین ہے۔

اُس کی رہائی شہبازشریف پر خوشگوار اثر ڈالے گی اور وہ نون لیگ کا بیڑاغرق کرنے کے لیے زیادہ سرعت دکھائے گا۔ ویسے تو آپ کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں، سیانے کہتے ہیں کہ آپ اور اسٹیبلشمنٹ اِس وقت ایسے ہی ہیں جیسے ”ٹِچ بَٹناں دی جوڑی“۔ پھر بھی چودھری نثارعلی خاں سے تعلقات کی بحالی مفید ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے مزاج کو خوب سمجھتے ہیں۔

اگر میاں نوازشریف نے پرویزرشید جیسے لوگوں کی بات ماننے کی بجائے چودھری نثار کے مشورے مانے ہوتے تو میاں صاحب کو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ میاں صاحب ایک ضدی انسان ہیں۔ اُنہوں نے ”پنگا“ بھی ایسے لوگوں سے لیا جن کے آگے سبھی بے بس۔ مشتری ہوشیار باش، چودھری برادران سے ذرا بچ کے۔ مولانا فضل الرحمٰن اور چودھری برادران کے درمیان جو ”اندرواندری“ کھچڑی پَک رہی ہے، کل کلاں خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

کامل علی آغا کہتا ہے کہ پنجاب کے عوام چودھری پرویز الٰہی کو وزیرِاعلیٰ دیکھنا چاہتے ہیں۔ پنجاب کے عوام ایسا چاہتے ہوں یا نہ چودھری پرویز الٰہی پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ پر رالیں ضرور ٹپکا رہے ہیں اور اِس کے لیے وہ اپوزیشن کے ساتھ کوئی بھی ”ڈیل“ کر سکتے ہیں، اُنہیں ”ڈھیل“ مت دیں۔ اپوزیشن کو رَگڑا دینے کے سلسلے میں شیخ رشید، مراد سعید، فیصل واوڈا، فیاض چوہان اور فوادچودھری کے مشورے مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔

”ماسی مصیبتے“ بھی کسی سے کم نہیں کیونکہ ”طعنے مہنے“ دینے میں اُس کا کوئی ثانی نہیں۔ آپ نے اُسے اطلاعات ونشریات کا قلمدان سونپ کر بہت اچھا کیا۔
قانونی موشگافیوں کے لیے آپ کو کسی شریف الدین پیرزادہ کی ضرورت ہے۔ یوں تو فروغ نسیم بھی گوارا لیکن مسٴلہ یہ کہ وہ ایم کیوایم کا رکن ہے۔ یوں تو ایم کیو ایم توبہ تائب ہو چکی لیکن ”وارث شاہ نہ عادتاں جاندیاں نیں“ کے مصداق بلیک میل کرنا اور بوقتِ ضرورت پیٹھ میں چھُرا گھونپنا اُس کی عادتِ ثانیہ بن چکی۔

وہ کسی وقت بھی آپ سے ”بھتہ وصولی“ کا مطالبہ کر سکتی ہے اِس لیے فروغ نسیم سے بہتر ہے بابر اعوان۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والے بابر اعوان میں ہمیں شریف الدین پیرزادہ کی جھلک نظر آتی ہے۔ اگر لوگ اعتراض کریں کہ بابراعوان کی ڈاکٹریٹ کی ڈگری جعلی ہے تو آپ کہہ سکتے ہیں ”ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے، خواہ اصلی ہو یا جعلی“۔ جو لوگ طعنے دیتے ہیں کہ یوٹرن پارٹی میں 16 وزیرمشیر مشرفی حکومت کے ہیں، وہ دراصل حسد کی آگ میں جَل رہے ہیں۔

انہی ”اعلیٰ دماغوں“ کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے پرویزمشرف 10 سال تک بلاشرکتِ غیرے حکومت کر گیا۔ آپ نے تو ابھی دو، تین عشرے مذید حکومت کرنی ہے ، اِس لیے اِن ”ہیروں“ کو سینت سنبھال کے رکھیں۔ ویسے بھی نئی پیکنگ میں پُرانا چورن لوگ بہت شوق سے خریدتے ہیں اِس لیے دشمنوں کے طعنوں پر کان دھرنے کی بجائے ”لگے رہو“۔
آپ نے قوم کو کَٹّے، کٹیاں اور دیسی مرغیاں پالنے کا جو تصور دیا ہے، وہ انتہائی مفید ہے۔

اب اِس تصور کو عملی جامہ پہنانے کا وقت آگیا ہے۔ ہمارا مشورہ ہے کہ کَٹّے کٹیاں پالنے کا ٹاسک وزیروں مشیروں کے حوالے کیا جائے اور پھر اُن کی کارکردگی کو مدّ ِنظر رکھ کر فیصلہ کیا جائے کہ موصوف وزارت کے قابل ہے یا نہیں۔ اِس طرح آپ نہایت آسانی سے اِس ”فوج ظفرموج“ کی کارکردگی کا جائزہ لے سکیں گے۔ اِس سکیم کی کامیابی کی صورت میں کٹوں کا گوشت اِس گوشت خور قوم کے کام آئے گا اور کُتے، کھوتے جان بچ جانے پر آپ کو دعائیں دیں گے۔

کٹیاں چونکہ صنفِ نازک میں سے ہیں اِس لیے اِن کا خصوصی خیال رکھا جائے تاکہ وہ مذید کٹّے کٹیاں پیدا کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوں۔ ۔۔۔۔ قوم کو نوید ہو کہ خیبرپختونخوا حکومت نے دیسی مرغیاں پالنے کا کام شروع کر دیا ہے۔ حکومتی اعلامیے کے مطابق 10 لاکھ مرغیاں 4 سالوں میں تقسیم کی جائیں گی۔ ایک مرغے اور 5 مرغیوں کے یونٹ کی قیمت ایک ہزار پچاس روپے رکھی گئی ہے۔

ہمارا مشورہ ہے کہ ایک مرغے کے ساتھ 4 مرغیوں کا یونٹ ہونا چاہیے کیونکہ خطرہ ہے کہ کہیں عبدالقوی جیسا کوئی مفتی حکومت کے خلاف فتویٰ ہی صادر نہ کر دے۔ پہلے ہی مولوی آپ کے خلاف ”تَپے“ بیٹھے ہیں۔ آپ نے کہا کہ سکون صرف قبر میں ملتا ہے۔ اِس پر مولوی صاحبان کہتے ہیں کہ آپ نے ”عذابِ قبر“ کا سارا تصور ہی ختم کرنے کی سعی کی ہے۔ قبر میں تو نکیرین ”پھینٹی پروگرام“ پر عمل کرتے ہیں، وہاں سکون کہاں۔

۔۔۔۔ ہم اُس وقت حیرتوں کے بحرِبے کنار میں غرق ہو گئے جب حساب لگانے بیٹھے کہ اگر یوٹرن پارٹی کے ڈیڑھ کروڑ ووٹرز کو فی کَس ایک مرغے اور پانچ مرغیوں کا ”خاندان“ تقسیم کیا جائے تو ایک سال بعد کتنی آمدن ہو سکتی ہے۔ ہمارا کیلکولیٹر چونکہ ”دیسی ٹائپ“ کا ہے اِس لیے اُس نے تو حساب لگانے سے معذرت کر لی۔ یہ بہرحال طے کہ یہ سکیم اتنی مفید ہے کہ صرف اِسی پر عمل درآمد کرنے سے ہمارے نہ صرف اندرونی بلکہ بیرونی قرضے بھی اتر سکتے ہیں بلکہ ہم ٹیکس فری بجٹ دینے کے قابل بھی ہو سکتے ہیں۔

حیرت ہے کہ یورپ اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک کے ذہنوں میں ابھی تک یہ سکیم کیوں نہیں آئی۔ ہمارا مشورہ ہے کہ خاں صاحب اُمتِ مسلمہ کے اتحاد کی کوششوں کی بجائے اُنہیں ”مرغبانی“ کی طرف قائل مائل کریں، اِسی میں سب کا بھلا ہے۔
بات معیشت کی چل نکلی ہے تو یہ مفید مشورہ بھی دیتے چلیں کہ مہنگائی کے شور کو ایک کان سے سُنیں، دوسرے سے اُڑا دیں۔

یہ قوم گزشتہ7 عشروں سے ایسے ہی دِل خوش کُن وعدوں اور دعووں پر اعتبار کرتی چلی آرہی ہے۔ بھٹو کا روٹی، کپڑا اور مکان آج بھی قوم کے اذہان وقلوب میں موجزن ہے، اِسی لیے ابھی تک بھٹو کی قبر کو ووٹ مل رہے ہیں۔ دَست بستہ عرض ہے کہ ”قوم میں صبر نہیں ہے“ جیسی
 باتوں سے گریز ہی بہتر۔ اِنہیں وعدہٴ فردا پر ٹالتے رہیں، یہ ٹلتے جائیں گے۔ آپ کی دیکھادیکھی مشیرِتجارت عبد الرزاق داوٴد نے بھی کہہ دیا کہ پاکستانیوں میں عالمی وژن ہے نہ صبر۔

یہ بجا کہ عالمی ویژن تو عبد الرزاق داوٴد کی میراث ہے۔ بھوکی ننگی قوم کی معیشت تو پیٹ سے شروع ہو کر پیٹ پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔ عبد الرزاق داوٴد کی عالمی ویژن سے مراد یہ ہے کہ بھیک کہاں سے اور کیسے مل سکتی ہے۔ خالی خولی دوستی سے پیٹ نہیں بھرتااِس لیے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ ہم نے ترکی اور ملائیشیا کو ٹھینگا دکھا دیا۔ پرویزمشرف کا عالمی ویژن ”سب سے پہلے پاکستان“ تھا اور ہمارابھی یہی ہونا چاہیے۔
اتنے مفید مشوروں کے بعد ہمارے لیے ”مشیرِخصوصی“ کا عہدہ تو بنتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ہم ڈی چوک اسلام آباد میں دھرنا دے کر کہیں گے
گُل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بَر اندازِ چمن کچھ تو اِدھر بھی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :