
نیا اور پُرانا پاکستان
منگل 4 مئی 2021

پروفیسر رفعت مظہر
قبرِ اقبال سے آرہی تھی صدا ، یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں
(جاری ہے)
حضورِاکرم ﷺ کا فرمان ہے ”میں تمہیں اُس آدمی کی پہچان بتاتا ہوں جس پر جہنم کی آگ حرام ہے اور وہ آگ پر حرام ہے۔ یہ وہ آدمی ہے جو نرم مزاج، نرم خُو اور نرم طبیعت ہو“۔ ہمارے عظیم قائد میں اِن میں سے کوئی ایک خوبی بھی نہیں۔ وہ تو پوری قوم کے سامنے مُنہ پر ہاتھ پھیر کر اپوزیشن کو چیلنج کرتے ہیں اور حالت یہ کہ ”کی جس سے بات، اُس نے شکایت ضرور کی“۔ اُن کی ضد، انا اور نرگسیت کے قصّے زباں زدِعام۔اب ایسا بھی نہیں کہ وہ اپنی ذات کی حد تک بھی مصلحت اندیش نہ ہوں۔ جب سپریم کورٹ کا مسلمہ نااہل جہانگیرترین لگ بھگ 40 ارکانِ اسمبلی کی جھلک دکھاتا ہے تو عظیم قائد اُس کے گروپ سے ملاقات کے لیے بھی تیار ہو جاتے ہیں اور بقول ناراض گروپ کے ترجمان اور وفد کے سربراہ راجہ ریاض 75 فیصد مطالبات مان بھی لیے جاتے ہیں۔ راجہ ریاض نے کہا ”شہزاد اکبر کو ہٹانے پر اتفاق ہوا ہے۔ جہانگیر ترین کے خلاف تحقیقات کا معاملہ وزیرِاعظم خود دیکھیں گے اور ٹرائل پر اثرانداز ہونے کے لیے اسلام آباد سے جو فون جا رہے تھے وہ بند ہو جائیں گے“۔ جہانگیر ترین اور اُس کے بیٹے کے خلاف تحقیقات کرنے والی ایف آئی اے کی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر رضوان کو پہلے ہی ہٹایا جاچکا کیونکہ شنید ہے کہ اُس نے جہانگیر ترین کی گرفتاری کی اجازت مانگی تھی۔ اب سارا معاملہ سینیٹرعلی ظفر دیکھے گا۔ سوال یہ ہے کہ جس شخص کے خلاف ایف آئی آرز تک کَٹ چکیں، اُس کی انکوائری حکومتی سینیٹر کِس حیثیت میں کر سکتاہے؟۔
جہانگیر ترین کا معاملہ تو رکھیں ایک طرف یہاں تو ایف آئی اے کے سابق ڈی جی بشیر میمن نے نیا پنڈورا بُکس کھول دیاہے۔ اُس نے شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ انٹرویو میں نوازلیگ، پیپلزپارٹی اور اے این پی کے چوٹی کے رَہنماوٴں کی ایک طویل فہرست پیش کی جنہیں گرفتار کرنے کے لیے بار بار حکومتی دباوٴ ڈالا جاتا رہا۔ بشیر میمن کے مطابق اُسے یہ کہا جاتا رہا کہ پہلے گرفتار کرو، بعد میں انکوائری بھی ہوتی رہے گی۔ بشیرمیمن نے یہ بھی کہا کہ وزیرِقانون فروغ نسیم اور وزیرِاعظم کے مشیر شہزاد اکبر نے اُس پر دباوٴ ڈالا کہ سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف بھی انکوائری کی جائے لیکن اُس نے کہا کہ سپریم کورٹ کے کسی معزز جج کے خلاف ایف آئی اے انکوائری کا اختیارہی نہیں رکھتا۔ بشیرمیمن نے اور بھی کئی الزامات لگائے۔اب یہ پتہ نہیں کہ وہ سچ بول رہا ہے یا جھوٹ لیکن وہ سینہ تان کر کہتا ہے کہ اُس کے خلاف جوڈیشل انکوائری کی جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ وزیرِاعظم نے سینئر صحافیوں اور اینکر پرسنز کے ساتھ اِس معاملے پر بہت سی باتیں کیں لیکن جوڈیشل انکوائری کا اُنہوں نے بھی عندیہ نہیں دیا۔
عظیم قائد نے تحریکِ انصاف کی تشکیل پیپلزپارٹی اور نوازلیگ کی مخالفت میں کی لیکن اُنہوں نے جب سے یہ سیاسی جماعت تشکیل دی ہے متواتر یوٹرن لیتے آرہے ہیں۔ اُنہوں نے پرویزمشرف کے ریفرنڈم کا محض اِس لیے ساتھ دیا کہ وہ ”شارٹ کَٹ“ کے ذریعے وزیرِاعظم بننا چاہتے تھے۔ 2002ء کے انتخابات میں پرویز مشرف اُنہیں دو سے تین سیٹیں دینے کو تیار تھے لیکن اُن کی نظر وزارتِ عظمیٰ پر تھی اِس لیے وہ ناراض ہو گئے۔ جس نوازلیگ اور پیپلزپارٹی کے خلاف تحریکِ انصاف کی تشکیل ہوئی، اُنہی کے ساتھ 2007ء کے اتحاد میں شامل ہو گئے۔ وزارتِ عظمیٰ کے حصول کے بعد اُن کے یوٹرن اپنی انتہا کو پہنچ گئے۔ چودھری برادران کو چور ڈاکو کہتے اور اُن کے بنک لوٹنے کی دستاویزات خود پارلیمنٹ میں تقسیم کرتے رہے، آج وہ اُن کے اتحادی۔ ماضی کا چپراسی آج کا وزیرِداخلہ ، جس ایم کیو ایم کے خلاف ثبوتوں کے بیگ بھر کر عازمِ لندن ہوئے وہ آج اتحادی اور وزارتوں کے مزے لوٹتی ہوئی۔ اعلان کیا کہ آزاد ارکانِ اسمبلی کو تحریکِ انصاف میں شامل نہیں کریں گے لیکن آج اُنہی کے بَل پر حکمرانی کے مزے لوٹتے ہوئے۔ اور بھی بے شمار یوٹرن جن پر کالم نگار ہزاروں صفحات سیاہ کر چکے اِس لیے آگے بڑھتے ہوئے عظیم قائد کے اُن اعلانات پر نظر ڈالتے ہیں جو ”شیروانی“ پہننے سے پہلے کر چکے۔ اِن اعلانات پر بھی صفحات سیاہ ہو چکے مگر لگ بھگ 3 سال گزرنے کے باوجود کوئی ایک اعلان، کوئی ایک وعدہ بھی پایہٴ تکمیل تک نہیں پہنچا۔ نعرے اور دعوے تو کرپشن کو جَڑ سے اُکھاڑ دینے کے تھے لیکن بین الاقوامی سروے کے مطابق کرپشن پہلے سے بڑھ چکی اور قوم قرضوں کے بوجھ تلے دَب چکی۔
اب ایسا بھی نہیں کہ قوم بے خبر ہو۔ وقت کی اُڑتی دھول اُسے اتنا شعور دے چکی کہ بُرے بھلے کی پہچان سے بہرہ مند۔ عموماََ یہی ہوتا ہے کہ حکمران جماعت ہی ضمنی انتخاب جیتتی ہے لیکن گزشتہ 3 سالوں کے دَوران جتنے بھی ضمنی انتخابات ہوئے، تحریکِ انصاف کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ تازہ ترین مثال کراچی کے قومی اسمبلی کے حلقہ 249 کا ضمنی انتخاب۔ وہ جماعت جس نے 2018ء کے انتخابات میں کراچی سے قومی اسمبلی کی 14 سیٹیں حاصل کرکے حیران کر دیا، آج اُسی کراچی میں ہزیمتوں کا شکار۔ تحریکِ انصاف کے فیصل واوڈا نے سینیٹر بننے کے بعد قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دیا تو اِس نشست پر معرکہ بپا ہوا جس میں یہ سیٹ بھی تحریکِ انصاف سے چھِن گئی۔ فتح وشکست تو ہوتی رہتی ہے لیکن ایسی ذلت آمیز شکست کبھی دیکھی نہ سُنی کہ تحریکِ انصاف پہلے ، دوسرے نہیں، پانچویں نمبر پر آئی۔ پیپلزپارٹی نے 16156، نوازلیگ نے 15473، کالعدم تحریکِ لبّیک نے 11125، پی ایس پی نے 9227 اور تحریکِ انصاف نے صرف8922 ووٹ حاصل کیے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہی صورتِ حال رہی تو 2023ء کے انتخابات میں تحریکِ انصاف کیا مُنہ لے کر عوام کے پاس جائے گی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.