مہنگائی کہاں سے آتی ہے؟

جمعہ 7 اگست 2020

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

ہم میں سے ہر کوئی ،ہر چیز، ہر واقعے، ہر حادثے حتہ کہ اپنے گردونواح میں موجود ہر چیز کے بارے میں کوئی نا کوئی رائے ضرور رکھتا ہے۔یہ رائے کیسے تشکیل پاتی ہے؟معاشی ،سیاسی اور معاشرتی عوامل،تبدیلیوں اور اثرات کے بارے میں ”عام تصور“کیسے پنپتا اور تشکیل پاتا ہے ؟ یہ ایک بہت ہی خاص اور دلچسپ معاملہ ہے۔مگر ہمارے ہاں معاملات کی گہرائی میں جانے کا تکلف نہیں کیا جاتا۔

عمومی تاثر،عومی ردعمل اور عمومی تجزیہ عمومی بصیرت کیلئے کافی سمجھا جاتا ہے۔یہ طرز مطالعہ بھی خود بخود نہیں پیدا ہوتا بلکہ سوچ پر اثرانداز ہونے والے تمام عوامل کو خصوصی مہارت سے ”عمومی سوچ“ پیدا کرنے کیلئے بروئے کارلایا جاتا ہے۔ خصوصی فارمولوں کے تحت عوام کو زیادہ سوچنے کی زحمت سے بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

سوچ بچار اور طرز فکر پر حاوی عوامل کی تشکیل اس طرح کی جاتی ہے کہ واقعات،حادثات اورتبدیلیوں پرگہرائی میں جانے کی بجائے اوپر اوپر سے ہی دیکھ کر ہی ”فیصلہ نماتجزیہ“ دے دیا جائے۔

ایسا سب کچھ خود بخود نہیں ہوجاتا بلکہ ہر معاملے پر ایک نانظرآنے والی ”راہنما سوچ“ عام سوچ پر اثرانداز ہوکر اسکی ”مخصوص راہنمائی“ فرماتی نظرآتی ہے۔        ہمارے ہاں دیگر بہت سے امور کی طرح مہنگائی کو بھی بہت ہی عامیانہ انداز میں دیکھااور اس پر تبصرہ کیا جاتا ہے۔ مثلاََ عام طور پر مہنگائی کا سبب حکومت کی بدانتظامی ،بے تدبیری یا سزاوجزا کے غیر موثر ہونے کو سمجھا جاتا ہے،جوگراں فروشی پر قابو پانے میں ناکام ہوگئی ہو۔

اسکی مثال ہم اس پچھلے سال کے اس ریل گاڑیوں کے خوفناک حادثے کی لے سکتے ہیں جس میں دیگر تمام عوامل کو دانستا نظرانداز کرکے ساری ذمہ داری حادثے میں ہلاک ہوجانے والے ڈرائیور پر عائد کردی گئی تھی۔ یہ ایک آسان حل تھا،جس کے ذریعے ایک ناقص نظام کو بری الذمہ قراردے دیا گیا اور ایک مرجانے والے شخص کو مورد الزام ٹھہرا دیا گیا، اب مرا ہوا شخص کیسے خود پر لگنے والے الزام کی وضاحت کرسکتا تھا؟ اسی طرح ہر دور میں موجود حکومت کو مہنگائی کا کلی طور پر ذمہ دار ٹھہرا کر سارے نظام کا ملبہ اس پر گرادیا جاتا ہے اور پھر اچھے حالات کی خواہش میں اس حکومت کے جانے کا انتظار کیا جاتا ہے ۔

حکومت چلی جاتی ہے مگر آنے والی حکومت (جو اسی نظام کے تحت ہی استوار ہوتی ہے جو جانے والی حکومت میں تباہی کا ذمہ دار تھا)پہلے سے بھی زیادہ مہنگائی کا طوفان پیدا کردیتی ہے۔ یہ ایک گھن چکر ہے جس میں پاکستان کے عوام پچھلے ستر سالوں میں پستے آرہے ہیں۔        اگرچہ انتظامی اہلیت یا نااہلیت بھی ایک اہم عنصر ہے مگر مہنگائی کے معاملے میں اہلیت کا درجہ ہمیشہ کچھ ناگزیر عوامل کے بعد میں آتا ہے۔

اگر ہم مہنگائی کو ایک لمحہ کیلئے کسی حکومت کی نااہلی یا بدتدبیری سے منسوب کرنے کی غلطی کررہے ہوں تو ہمیں ایک لمحے کیلئے دیکھنا ہوگا کہ اگست 1988ء سے اگست 2020ء تک پچھلے 32سالوں میں 13باقاعدہ حکومتیں اور درمیان میں7 ”نگران حکومتیں“یعنی کل20حکومتیں گزرچکی ہیں ،مگر ان 32سالوں میں مہنگائی کا گراف کبھی نیچے نہیں آیا بلکہ ہرحکومت کے بعد اگلی حکومت میں مہنگائی اورزیادہ شدت سے بڑھتی دکھائی دیتی ہے۔

دیگر مسائل بھی اسی طرح بڑھتے ہی چلے گئے۔ (چونکہ اس مضمون میں ہمارے پیش نظر مہنگائی کا معاملہ ہے تو اسی کی وجوہات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
ایک طرف اشیاء خوردنوش کی قیمتوں میں اضافے کا معاملہ درپیش ہے تو دوسری طرف بجلی،گیس،تیل کی قیمتوں میں ہرماہ اضافے جیسا حملہ‘ تمام پیداواری عاملین کے نرخوں میں اضافے کاباعث بنتے ہیں۔ عالمی سطح پرتیل کی قیمتیں تاریخ کی سب سے کم ترین سطحوں پرآنے کے باوجودپاکستان میں انکی قیمتوں میں اضافے کے بعد اب یہ پاکستان کی تاریخ کی بلندسطحوں پر واپس پہنچ گئی ہے اورشدید خدشہ ہے کہ ابھی اور اضافے ہونگے۔

اسی طرح پانی سے کمترین لاگت سے بجلی پیدا ہوتی ہے مگر اس کم ترین لاگت کا صارفین کو کوئی فائیدہ نہیں ہوتا۔ سستے تیل سے پیدا ہونے والی بجلی کے نرخ سستے ناہوسکے۔تھراوربلوچستان میں کوئلے کے بڑے ذخائیر ہونے کے باجود پاکستان کے کول پاورسیکٹر کا کوئلہ امپورٹ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح سمندرکی گودی کے قریب پاورپلانٹ لگانے کی بجائے انکو دوردراز علاقوں میں لگاکر برآمدی کوئلہ کی ’ترسیل‘ کوہمیشہ کیلئے ضرورت بنادیاگیاہے۔

واپڈا کے طرف سے شائع کردہ اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں ایک لاکھ میگاواٹ بجلی پانی سے بنانے کے قابل عمل منصوبوں کا جائیزہ لیا جاچکا ہے مگر بدقسمتی سے چھوٹے چھوٹے ہائیڈل پاورپلانٹس لگاکر سستی بجلی بنانے کی بجائے مہنگی ترین بجلی بنانے کے منصوبوں کو سامنے لایاجاتا ہے، سوال یہ ہے کہ آخر ایسے کیوں کیا جاتا ہے۔ایسے ہی سوالات سستے تیل ملنے کے باوجودمہنگاترین بیچنے سے ہے اور اسی طرح ملک میں ہی پیدا ہونے والی گیس کی قیمتوں کو بڑھانے سے ہے۔

اسی طرح کے ہی سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ آخر پبلک سیکٹر بربادی اور نقصان میں کیوں آتے ہیں جب کہ یہ شروع میں منافع بخش بھی ہوتے ہیں اور یہاں کی پیداوار یا خدمات اعلی درجے کی اور سستی مہیا کی گئی ہوتی ہیں۔ ان میں سے کچھ معاملات کا ہم جائیزہ لیتے ہیں۔بجلی کے نرخ مسلسل بڑھنے کی وجہ وہ پالیسیز ہیں جو سامراجی مالیاتی اداروں کے دباؤ پر اب ایک طرح سے قانون کا درجہ بن گئی ہیں۔

مہنگی بجلی کی وجہ آئی پی پیز کمپنیاں اور سامراجی پالیسیاں ہیں۔ایک تو انکے بجلی کے نرخ بہت زیادہ ہیں دوسراان کمپنیوں سے جتنی بجلی حاصل کی جاتی ہے ،بجلی کی قیمت اس سے کہیں زیادہ دی جاتی ہے،یعنی پیداوار کی بجائے 'صلاحیت پیداوار' پر ادائیگیاں ''گردشی قرضوں'' کی بڑی وجہ بنتی ہیں۔عالمی مالیاتی اداروں کے ہر حکم میں بجلی،گیس،پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں،بلواسطہ ٹیکسوں میں اضافوں کیلئے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔

اسکی بنیادی وجہ کمپنیوں کے منافعوں میں اضافے کی ذمہ داری نبھانے کی وہ ڈیوٹی ہے' جس کیلئے عالمی سامراجی اداروں کو ''برٹن ووڈ ٹریٹی'' کے تحت قائم کیا گیا تھا۔ ہدف پر موجود ممالک میں پہلے پبلک سیکٹر کو ختم کرایا جاتا ہے،''ڈائریکٹ فارن انوسٹ منٹ'' (جس پر ہمارے ممالک کا حکمران طبقہ خواہ مخواہ جشن مناتا ہے )کے ذریعے فراہم کردہ ایک ڈالر کے بدلے میں 18ڈالر واپس لئے جاتے ہیں۔

اس لوٹ مار(ڈائریکٹ فارن انوسٹ منٹ)کو میڈیا پر مقدس اور ملک کی ترقی کیلئے ''ناگزیر'' قرار دینے کیلئے کارپوریٹ میڈیا پر پراپگنڈا کیا جاتا ہے۔ ملکی صنعتوں،اداروں کو منصوبہ بندی کے ساتھ بربادکرتے ہوئے غیر منافع بخش بنا کر انکے خلاف میڈیا مہم چلائی جاتی ہے۔ اس مہم میں میڈیا،عدلیہ،حکومتی ہرکارے،نام نہادتجزیہ نگار' غرض سارے ریاستی وغیر ریاستی'ٹولز' بروئے کار لائے جاتے ہیں۔

یوں غیر ملکی کمپنیوں کی مدد(لوٹ مار) سے وہ قرض کے پہاڑ جمع ہوتے ہیں، پھر قرض کی ادائیگی کیلئے مزید قرضوں کی ضرورت پیش آتی ہے اور یہ جنجال بچی کچھی معیشت کو بھی نچوڑکر بے جان کر دیتا ہے۔اس معیشت کی بحالی کیلئے پھر عوام پر پے درپے حملوں کیلئے تجاویز کا نا تھمنے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ یوں ''مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی'' کے مصداق عوام پر بوجھ ڈالا جاتا ہے۔

اب موجودہ حکومت نے اپنی دورمیں جتنا قرض ادا کیا اس سے ڈبل مزید قرض جمع ہوچکا ہے۔مالیاتی پالیسیوں کو اپنی مرضی سے مسلط کرنے کیلئے اب مقروض اور سامراجی اطاعت گزار ممالک کے حکومتی عہدیداروں کی بجائے استعماری مالیاتی ادارے اپنے کارندوں کو حکومتی عہدوں میں لے آتے ہیں جیسے اب حفیظ شیخ، اسٹیٹ بنک کے گورنر اور دوسرے آفیشلز ہیں۔ ماضی میں معین قریشی، شوکت عزیز تک تو ملک کا وزیر اعظم تک بنواکراپنی معاشی پالیسیاں نافذ کرائی گئیں تھیں۔

دوسری طرف ایسے ممالک کا نااہل سرمایہ دار طبقہ بھی اپنی لوٹ کھسوٹ کو تیز کردیتا ہے۔یہ طبقہ ہر قسم کی حکمرانی میں بطور حصہ دار شامل ہوکر''قلت'' کے بحران کا کھیل کھیلتا ہے۔ملکی پیدوار پہلے ایکسپورٹ کی جاتی ہے اور پھر ''ڈیمانڈ اور سپلائی'' کا عدم توازن دکھا کر وہی اشیاء واپس امپورٹ کی جاتی ہیں۔ یوں یہ مافیاز درجنوں زاویوں سے ملک اور عوام کو لوٹتے اور عام لوگوں کو مفلوک و بدحال کرتے جاتے ہیں۔

حکومتوں میں سانجھے داری اور خود حکومتی بداعمالیوں کے سبب انکا عروج گہنانے کی بجائے روپ بدل بدل کر اپنا لوٹ مار کا کھیل جاری رکھتا ہے۔ موجودہ عوام دشمن نیٹ ورک میں غذائی اور زرعی ضروریات کے بڑے حصے پر مقامی سرمائے داروں کی اجارہ داری کے تحت عوام پر معاشی حملے کئے جاتے ہیں جبکہ خدمات کے شعبوں میں بتدریج پبلک سیکٹر کی بجائے عالمی سامراجی کمپنیوں کیلیے جبری طور پر ''فری مارکیٹ'' بنائی جاتی ہے،حسب ضرورت یا مثال دینے کیلئے مقامی گماشتہ سرمایہ کار بھی شامل کرلئے جاتے ہیں۔

عالمی ساہو کار قرضوں کے سود کی مدد میں خوب کماتا ہے۔ملکی ضروریات کے برعکس استعماری مالیاتی اداروں کی شرائط کے مطابق بہت سی صنعتیں لگانے کی ممانعت ہوتی ہے اور بہت سے چلتے اداروں کو بند کرنے کا دباؤ ہوتا ہے۔ایک طرف کہا جاتا ہے کہ کاروبار کرنا یا کارخانے لگانا حکومت کا کام نہیں ہے دوسری طرف بہت سے کارخانے،خدمات کے شعبے قرضے(جنکواور انکے سود کو عوام کے ٹیکسوں سے ادا کیا جاتا ہے) لیکربنایا جاتا ہے اور پھر نجکاری کرکے اونے پونے سرمایہ داروں کو دے دیا جاتا ہے۔

ایوب خان کے دور میں ساری صنعت کاری ریاستی انوسٹ منٹ سے کی گئی اور پھر رسوائے زمانہ 22خاندانوں کو مفت دے دی گئیں۔ستم یہ ہے کہ بدیانت تجزیہ کار اس صنعت کاری کو سرمایہ داروں کا کارنامہ بنا کرپیش کرتے ہیں۔ عام طورپر بجلی،گیس،تیل یا دوسری اشیاء سرف کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی روک تھام اس پورے شیطانی نیٹ ورک یعنی سامراجی نظام معیشت کے خاتمے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

دیکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ پاکستان درجنوں بار آئی ایم ایف پروگرام میں جاچکا ہے مگر کبھی بھی اس پروگرام کی وجہ سے اسکی معیشت میں بہتری نہیں آئی بلکہ دنیا بھر میں IMFجہاں بحی گیا ہے معیشتوں کو برباد کرنے کا موجب بنا ہے۔ سامراجی اور سرمایہ دارانہ جھکڑبندی کا خاتمہ صرف حقیقی عوامی طاقت کے ذریعے ممکن ہے،ایسی طاقت' عوامی ایجنڈے،انقلابی پروگرام،انقلابی لائحہ عمل کے ذریعے اس عوام دشمن سرمایہ داری نظام کا خاتمہ کرے۔

سامراجی حملوں کی زد میں ممالک کے محنت کش طبقے کو درست انقلابی قیادت تراش کر عوام کی نجات کیلئے آگے بڑھنا ہوگا۔بنیادی بات یہ ہے کہ رائے اور تجزیے کی بنیادوں کو تبدیل کرنا ہوگا تاکہ منظر کے وہ زاویے بھی نظرآسکیں جن کو پوری منصوبہ بندی سے چھپایا جاتا ہے۔حکومتوں کی بجائے نظاموں اور انکے نظریات کی چھان بین کیا جائے تاکہ انکے مقاصد کو سمجھا جاسکے۔جو نظام دنیا کی اکثریت کو صرف غربت،مہنگائی اور پسماندگی دے سکا ہے یا پھر جنگیں اور خانہ جنگیاں،اس نظام کودھتکارنے کی ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :