استاد یا زرخرید غلام

اتوار 4 اکتوبر 2020

Raja Furqan Ahmed

راجہ فرقان احمد

وہ روم یونیورسٹی میں پروفیسرتھے. ایک دن دوپہر دھوپ میں جب وہ یونیورسٹی سے اپنی گاڑی میں گھرواپس جا رہے تھے۔ سڑک خالی ہونے کی وجہ سے انہوں نے ایک شارٹ کٹ لیا جو ٹریفک قانون کی خلاف ورزی تھی۔ راستے میں ایک پولیس آفیسر آگیا جس نے اسے خلاف ورزی پر جرمانہ کردیا۔ اب جرمانہ کسی بھی پوسٹ آفس میں جمع کرانا تھا لیکن مقررہ تاریخ تک ادائیگی نہ ہو سکی۔ جرمانہ جمع نہ کروانے کے باعث انہیں عدالت کی طرف سے نوٹس ملا۔ چونکہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا لہذا وہ عدالت گئے.

جج صاحب نے انہیں کٹہرے میں طلب کیا. جج نے آغاز کیا، آپ پر جرمانہ عائد کیا گیا اور قریبی پوسٹ آفس  میں ادا کرنے کا حکم دیا گیا، آپ نے ادائیگی کیوں نہیں کی؟ کیا آپ کو احساس ہے کہ آپ پولیس اور قانون کا وقت ضائع کررہے ہیں؟ انہوں نے اپنے دفاع میں غیر ملکی کارڈ استعمال کیا. جج نے کہا آپ بات اچھی کرتے ہیں، آپ کیا کرتے ہیں؟ تب انہوں نے شرمندہ ہو کر بتایا کہ وہ ایک استاد ہے، روم یونیورسٹی میں پروفیسر ہے.

جج نے فوری کھڑے ہوکر کہا کہ عدالت میں ایک استاد ہے. یہ بات سن کر عدالت میں تمام لوک کھڑے ہوگئے جن میں پولیس افسران بھی شامل تھے۔

(جاری ہے)

پھر جج کا انداز بدل گیا۔ جج نے بیٹھنے کے لئے کرسی لانے کا حکم دیا اور معافی مانگ کر چلان کینسل کردیا. یہ کوئی اور شخص نہیں بلکہ اشفاق احمد ہیں. انہوں نے اپنی کتاب زاویہ میں اس واقعے کو بیان کیا ہے. وہ کہتے ہیں کہ اس دن مجھے معلوم ہوا کہ قوموں کی عزت کا راز اساتذہ کی عزت سے ہے.
کچھ دوسرے ممالک کا ذکر کر لیتا ہوں جس میں شمالی یورپ کا ملک فن لینڈ سرفہرست ہے جورقبہ کے لحاظ سے 65 جبکہ آبادی کے لحاظ سے دنیا میں 114 نمبر پر ہے.

ملک کی کل آبادی 55 لاکھ ہے لیکن تعلیمی درجہ بندی کے اعتبار سے فن لینڈ پہلے نمبر پر ہے جب کہ سپرپاور امریکہ بیسویں نمبر پر ہے. 2020 تک فن لینڈ دنیا کا واحد ملک ہوگا جہاں مضمون نام کی کوئی چیز نہیں پائی جائے گی  فن لینڈ  کا کوئی بھی سکول زیادہ سے زیادہ 195 بچوں پر مشتمل جبکہ 19 بچوں پر ایک ٹیچر ہوتا ہے. دنیا کی سب سے لمبی بریک بھی فن لینڈ  کے سکولوں میں ہوتی ہے.

پورے ہفتے میں صرف 20 گھنٹے پڑھائی ہوتی ہے جبکہ استادزہ روز دو گھنٹے اپنی سکیل پڑھانے پر توجہ دیتے ہیں. فن لینڈ میں ٹیچر بننا ڈاکٹر اور انجینئر بننے سے زیادہ مشکل اور اعزاز کی بات ہے. سات سال سے پہلے بچوں کے لیے پورے ملک میں کوئی سکول نہیں ہے اور 15 سال سے پہلے کسی بھی قسم کا کوئی امتحان بھی نہیں ہے جس میں ماں باپ بچے کی نیندیں حرام کردیں.

پورے ملک میں طلبہ و طالبات کے لیے ایک ہی امتحان ہوتا ہے. جاپان کی مثال لے لیتے ہیں جہاں تیسری جماعت تک بچوں کو اخلاقیات اور آداب سکھایا جاتا ہے. جاپان میں اگر دوسرے ملک کا استاد چلا جائے تو اس کو اتنا پروٹوکول ملتا ہے کہ استاد کو لگتا ہے کہ شاید وہ جاپان کا وزیراعظم ہے. یہ ہے قوموں کی ترقی اور عروج و زوال کا راز.
آگے چلنے سے پہلے میں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں جس خاندان سے تعلق رکھتا ہوں وہ پچھلے 7 دہائیوں سے تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں سو میں نے اس موضوع پر جو بھی لکھا وہ میری اپنی رائے ہے اور اس سے اختلاف کر سکتا ہے.
پاکستان میں استاتذہ کا خیر اللہ ہی حافظ ہے.

دوسرے ترقیاتی ممالک کی طرح پاکستان اس میں بھی بہت پیچھے ہے. حکمران استاتذہ اکرام  کو اپنا زرخرید غلام سمجھتے ہیں. الیکشن کی ڈیوٹی ہویا پولیو کی, ڈینگی کی ہو یا مردم شماری کی اساتذہ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں. مجھے معلوم ہے کہ یہ ان کی آئینی ذمہ داری ہے مگر کیا یہ صرف ٹیچرس کی ذمہ داری ہے کہ وہ تدریس کے عمل کو چھوڑ کر گلیوں, محلہ,  چوراہوں میں ذلیل و رسوا ہو.

بلکہ اب تو ناقص حکومت پالیسیوں کے باعث استاتذہ طالبعلم کو گھروں سے لاتے ہیں. کیا ٹیچرس صرف اس کام کے لیے رہ گئے ہیں.
چلو کچھ دیر کے لئے مان لیتے ہیں کہ استاذہ کا یہ فرض ہے لیکن کیا ان ٹیچرس کو اپنے فرض کے مطابق سہولیات اور مراعات بھی ملتی ہیں. کیا اساتذہ کا علاج فری ہے, کیا اساتذہ کو رہائش میسر ہے, کیا اساتذہ کے بچوں کی تعلیم فری ہے, کیا اساتذہ کے لئے ٹرانسپورٹ فری ہے.

زندگی کی چار دہائیوں تک اپنے فرائض سرانجام دینے کے بعد آخری عمر میں فری علاج کی سہولت بھی میسر نہیں اور پھر ہم یہ بات کرتے ہیں کہ یہ قوم عظیم قوم بنے گی بلکہ پچھلی حکومت نے یہ پولیسی بھی بنائی تھی کہ استاذہ کرام سکول میں مرغیاں پالیں گے اور مرغیوں کے انڈے طالب علم کو دیں گے. یہ سب باتیں سن کر میرا کلیجہ پھٹتا ہے کیا یہ ہے استاد کی عزت.

یہی اساتذہ جو کبھی اپنے کام کے لیے دفتر چلے جائیں تو کلرک  ذلیل و خوار کرتے ہیں اور پنشن وصول کرنے والوں سے اپنا حصہ مانگتے ہیں. اساتذہ کے مفاد کیلئے کوئی آواز نہیں اٹھاتا حتی کہ استاذہ کی اپنی یونین بھی جو آئے روز اساتذہ کو اپنے مفاد کی خاطر سڑکوں پر لاتی ہے اور اپنے مفاد کی ہی غرض سے اساتذہ کے خلاف فیصلے بھی کرواتی ہے.
وہ استاتذہ جو آنے والی نسلوں کو تیار کرتے ہیں ان کے ساتھ یہ سلوک انتہائی افسوسناک ہے.

تمام ممالک استاذہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ان کا رتبہ سب سے بڑا ہوتا ہے لیکن پاکستان میں رتبہ تو دور کی بات استاذہ کو سلام بھی نہیں کیا جاتا. میں اس کا ذمہ دار صرف اور صرف حکومت کو سمجھتا ہوں کیونکہ جب کوئی نئی حکومت آتی ہے وہ نیا نظام چلانے کا اعلان کرتی ہے. کبھی اردو سے انگلش میڈیم اور کبھی انگلش سے اردو میڈیم جس کے باعث اساتذہ پریشان رہتے ہیں.

ہر کلاس میں سائنس پڑھائی جاتی ہے لیکن کوئی آپ کو سائنسدان نظر نہیں آئے گا اس کی وجہ استاذہ نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جو نظام کو بدلنا نہیں چاہتے. جس ملک میں قاتل کو پروٹوکول اور اساتذہ کو ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیش کیا جائے اس قوم میں دہشت گرد ہی پیدا ہوں گے.
میری اعلی حکام کو یہ تجویز ہے کہ استاذہ کے مسائل سنے جائیں اور ان سے سوائے تدریس کے اور کوئی کام نہ لیا جائے. استاذہ کی مراعات وزیر کے برابر ہونی چاہیے. ٹیچرس آنے والی نسل کو تیار کرتے ہیں جو قلم کے ساتھ جہاد ہے. میری حکومت پاکستان سے یہ بھی درخواست ہے کہ ٹیچرس کے مسائل سننے کے لیے ایک سپیشل سیل بنایا جائے جو بغیر معاوضہ لینے کے اپنی خدمات پیش کرے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :