ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے

جمعرات 31 اکتوبر 2019

Rehan Muhammad

ریحان محمد

وطن عزیز میں سوا سال سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے۔پنجاب جو پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے ۔وزیراعظم عمران خان نے عثمان بزدار کو وزیر اعلی پنجاب تعینات کیا ہے۔خان صاحب کے اس فیصلے سے میرے اور ممکن ہے میری جیسی صلاحیتوں کے مالک کروڑوں لوگوں  کی امیدوں کے چراغ روشن ہوے ہیں وہ بھی حکومتی عمل کا حصہ بن سکتے ہیں ۔اس سوا سال میں کوی ایسا دن نہیں گزرا جس دن میں نے اپنا موازنہ عثمان بزدار سے نہ کیا ہوا ہمیشہ اس کا نتیجہ میرے حق میں نکلا۔

عثمان بزدار اور مجھ میں بہت سی باتیں مشترک ہیں۔
وہ بھی کم گو ہیں کسی سے بات چیت کرنے کے لیے سپوکس مین رکھا ہے اور میرا حال بھی اس سے مختلف نہیں۔
عثمان بزدار بھی انتہای شرمیلے اور میں ان سے بھی دو ھاتھ آگے۔

(جاری ہے)

شرمیلا فاروقی کے علاوہ کسی کو جانتا ہی نہیں جیسے وزیر اعلی بننے سے پہلے اور بننے کے بعد بھی ان کو کوی نہیں جانتا اسی طرح اپنی ساری عمر ایک جگہ گزارانے کے بعد مجھے بھی کوی نہیں جانتا۔


جیسے وزیر اعلی بننے کے بعد ان کی کابینہ ان کو سیریس نہیں لیتی اسی طرح میرے جاننے والے بھی مجھے سیریس نہیں لیتے ۔
جو سلوک انگریزی کے ساتھ بزدار کا ہے۔ میں بھی انگریز اور انگریزی کے ساتھ اسی رویے کا قائل ہوں۔
جس طرح عثمان بزدار وزیر اعلی ہوتے ہوے بھی صوبے کے فیصلے دوسرے کرتے ہیں اسی طرح میرے بارے میں بھی فیصلے دوسرے کرتے ہیں۔


جس طرح پورے سوا سال گزرنے کے بعد بھی صوبے اور عوام کے لیے کوی قابل ذکر کام نہیں کر سکے۔اسی طرح میرے کریڈٹ پر  بھی کوی قابل ذکر کام نہیں۔
جس طرح اپنی تعریف کے لیے میڈیا سیل بنایا ہوا ہے میں نے بھی اس کام کے لیے ایک کاریگر رکھا ہوا ہے۔وہ الگ بات ہے تعریف کے بعد اس کی ہنسی نکل جاتی ہے
جس طرح عثمان بزدار ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر ہزاروں فٹ کی بلندی سے نیچے آبادی کو دیکھ کر ھاتھ ہلاتے ہیں اسی طرح میں بھی گھر کی چھت پر چڑھ کر اردگرد چھتوں پر جنس مخالف کو دیکھ کر ھاتھ ہلانا اشارے کرنا میرے فرائض منصبی میں شامل ہے۔


پچھلے دنوں وزیراعلی نے پنجاب کی مختلف جیلوں کا دورہ کیا جیل کے دورے کے دوران وہ بہت جلد قیدیوں اور مجرموں میں گھل مل گے اور انھیں کا حصہ لگنے لگے۔اسی طرح میں نے بھی کچھ دن پہلے بکر منڈی کا وزٹ کیا اور میں بھی جلد ہی بکروں اور دوسرے جانوروں میں گھل مل گیا اور انھیں کا حصہ لگنے لگے۔
ان تمام باتوں کے موازنے کے بعد باخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے میرے اور بزدار میں بہت سی باتیں مشترک ہیں۔

میں اور عثمان ہم پلہ صلاحیتوں کے مالک ہیں۔لیکن دکھ اور رنج و الم کا احساس اس وقت ہوا جب عمران خان جیسے سمجھدار زیرک سیاستدان نے عثمان بزدار کو وسیم اکرم پلس کا خطاب دیا۔اس دن سے میں شدید مایوسی احساس کمتری  کا شکار ہوں اور وزیراعظم کے اس فیصلے سے میری خداداد صلاحیتیں شدید متاثر ہوی ہیں۔اپنی محرومی کے تدارک کے لیےایک چھوٹے  سے خفیہ الیکشن کا اہتمام کیا بطور امیدوار حصہ لیا۔

  اپنے ملازمین بچوں اور چند بزرگوں کو  حق راے دیا۔اس خفیہ الیکشن کا نتیجہ سو فیصد میرے حق میں آیا اور میں بلا مقابلہ الیکشن جیت گیا۔بلامقابلہ جیت تو عثمان بزدار کے حصے میں بھی نہیں آی۔لیکن اس کامیابی سے میری مایوسی کم ہونے کی بجاے مذید بڑھ گی۔اس دوران اپنی اور بزدار کی خوبصورتی کا ریفرینڈم کروایا۔ووٹر وہی پرانے ان میں سے کسی نے بھی بزدار کو نہیں دیکھاہوا تھا۔

نتیجہ میرے حق میں  آیا۔ '
ایک مختصر سا جائزہ  وزیراعلی وسیم اکرم پلس کی  کارکردگی کا لیں تو  انتہای مایوس کن ہے۔سوا سال کا ہونے کے باوجود چلنا تو دور کی بات بیٹھنا بھی شروع نہیں کیا۔اپنی کابینہ پر کنٹرول نہیں۔۔صوبہ پنجاب کے ہر شعبے کا معیار اس کی کارکردگی نیچے آی ہے.صفای صحت تعلیم کی حالت روبہ زوال ہے۔آے دن پولیس افسران کی تبدیلیاں ان کے تبادلوں سے صوبے میں لاقانونیت بڑھتی جا رہی ہے۔

پولیس گردی میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومت کی رٹ کہیں نظر نہیں آتی۔سانحہ ساہیوال ہو ملزم صلاح الدین کا دوران تفتیش قتل۔سانحہ چونیاں کا مجرم اور اس طرح کے بےشمار چھوٹے بڑے واقعات وزیراعلی اور ان کی ٹیم کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔انصاف ہوتا اور ملتا نظر نہیں آرہا ۔ پورے صوبے میں ڈینگی وایرس بے قابو ہوا ہوا ہے۔اس کے آگے انتظامیہ بے بس نظر آتی ہے۔

اس کے بے قابو ہونے کی وجہ بروقت روک تھام نہ کرنا ہے۔اب بزدار اینڈ کمپنی نے عوام کو سردی آنے پر ڈینگی کے خاتمے کی نوید سنای ہے۔اور اپنی ساری امیدیں موسم کی تبدیلی سے لگا لی ہیں۔ڈینگی مچھر کو خاتمے کے لیے جو درجہ حرارت چاہے اس سطح تک آتے نا جانے  کتنی قیمتی جانوں کا ضیائع ہو جاے ۔پاکستان کی کل آبادی کا نصف صوبہ پنجاب کی آبادی پر مشتمل ہے۔

ملک کی نصف آبادی  والا صوبہ ایک غیر زمہ دار ناتجربہ کار شخص وسیم اکرم پلس کے حوالے کر دیا۔جس سے صوبے کے مسائل میں ان گنت اضافہ ہوا ہے۔سوچنے سمجھنے کی یہ بات ہے۔عثمان بزدار کپتان کی وہ تبدیلی ہے جس کے لیے خان صاحب نے بائیس سال جدوجہد کی۔بطور کھلاڑی جب ٹیم میں کسی نیے کھلاڑی کو شامل کرتے وہ اپنے پہلے میچ سے ہی اپنے انتخاب کو درست ثابت کرتا۔

لیکن بزدار کا اتنی اہم پوزیشن کے لیے انتخاب کپتان کے تجربے اور معیار کی نفی کرتا ہے۔اوپر سے بزدار کو بغیر کسی پرفارمنس پر وسیم اکرم پلس کا ٹائیٹل دینا ایسا ہی ہے جیسے باروھیں کھلاڑی کو بغیر کوی میچ کھیلے مین آف دی سیریز دینا ہے۔
اس ساری گفتگو  کا مقصد اپنی اور وسیم اکرم پلس کی صلاحیتوں کا تجزیہ کرنا ہے۔جیسے شروع میں عرض کیا ہے کہ عثمان بزدار جیسے کو وزیر اعلی بنا کر مجھے اور میرے جیسے  جن کی صلاحیت اہلیت کارکردگی کسی بھی طرح وسیم اکرم پلس سے  کم نہیں زیادہ ہی ہوں گی۔

ان میں بھی امید کی کرن روشن کر دی ہے ۔میں بھی اور دوسرے بھی وزیراعلی بننے کی دوڑ میں شامل ہو گے ہیں۔اگر بزدار وزیراعلی ہو سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں ہو سکتے۔لہذا ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان سے گزارش ہے کہ کچھ عرصہ کے لیے مجھے بھی وزارت اعلی دی جاے۔میرا سچا اور دل سے وعدہ ہے وسیم اکرم پلس سے اچھی پرفارمنس دے کر صوبے کو سرپلس کر دوں گا۔اگر ممکن نہیں تو اس سے ملتی جلتی کوی دوسری وزارت ہی دی جاے جو میرے جیسے نااہل ناکام  بندے کو اہل اور کامیاب ثابت کر دے۔
 بقول شاعر شوق بہرائچی
 برباد گستان کرنے کو بس ایک ہی الو کافی تھا
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گستان کیا ہو گا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :