12اکتوبر سیاہ دن

منگل 13 اکتوبر 2020

Saif Awan

سیف اعوان

کچھ لوگ اپنے ضمیر کا سودا کرنے میں ایک سیکنڈ کی بھی تاخیر نہیں کرتے جبکہ کچھ لوگ اپنے ضمیر کوکبھی مردہ نہیں ہونے دیتے ۔باضمیر لوگ کبھی اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرتے اور اپنے ضمیر کا سودا کرنے والے وقتی سکون اور آسائش کیلئے اپنی زندگی بھر کی محنت اور جدوجہد کو ایک سیکنڈ میں ضائع کردیتے ہیں ۔ایسے لوگوں کی بھی اکثریت ہے جو کسی خوف سے یا سنہرے خوابوں کی تعبیر کے پیچھے پیچھے چلتے اپنی اپنے خاندان اور ادارے کی عزت داؤ پر لگادیتے ہیں اور یہ دبے اور داغ زندگی بھران کا پیچھا کرتے رہتے ہیں۔

وہ اپنی باقی زندگی ان دبوں سے چھٹکارا پانے کی کوششیں میں مصروف رہتے ہیں لیکن یہ دبے پھر ان کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ایسا ہی ایک دبہ 12اکتوبر 1999کی شام تقریبا چھ بجے کے قریب لگا جو آج تک کچھ لوگوں کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے اور ان کاپیچھا نہیں چھوڑ رہا۔

(جاری ہے)


سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے کارگل کے ناکام آپریشن کے بعد اس وقت کے آرمی چیف جنرل مشرف،جنرل محمود اور جنرل شاہد عزیز کو معاف کردیا تھا۔

اب ان تین افراد کو خدشہ تھا کہ وزیراعظم کارگل آپریشن پر کمیشن بناسکتے ہیں اور ہمارے خلاف انکوائری ہو سکتی ہے۔لیکن الٹا نوازشریف نے مشرف کو مطمئین کرنے کیلئے مزید جوائنٹ چیف آف سٹاک کے عہدے پر ترقی دے دی۔نوازشریف اپنی کتاب”غدار کون“ میں بتاتے ہیں ۔میں نے مشرف کو ریٹائرمنٹ سے دوماہ پہلے ترقی بھی دے دی لیکن مشرف اپنے یونٹس میں جاکر فوجیوں کو غلط پیغام دے رہے تھے ۔

پھر مشرف نے پرائیویٹ میٹنگ میں میرے خلاف غلیظ زبان استعال کرنا شروع کردی۔میرے پاس وہ خفیہ رپورٹیں بھی موجود ہیں جس میں انہوں نے وزیراعظم کو گولیاں تک دی ۔لیکن پھر میں نے اپنی ذات کو بیچ میں نہیں آنے دیا لیکن کچھ دنوں بعد مشرف میرے پاس آئے اور کہا کہ جنرل طارق پرویز کو فارغ کریں اس کا میٹنگ میں مجھ سے گفتگو کرنے کا انداز ٹھیک نہیں تھا ۔

”جنرل طارق پرویز نے کہا تھا کہ کارگل آپریشن سے پہلے ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔جنرل طارق پرویز اسوقت کوئٹہ کے کور کمانڈر تھے۔جنرل طارق نے مشرف سے کہا تھا آپ کو تو نوازشریف کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے آپ کو اور آپ کی فوج کو بچالیا اور ہم سب کو بیل آؤٹ کردیا ہے ورنہ پتہ نہیں فوج اور کارگل آپریشن کا کیا ہوتا۔نوازشریف بتاتے ہیں پھر میں نے مشرف کے کہنے پر جنرل طارق پرویز کو فارغ بھی کردیا ۔

اگلے روز اخباروں میں سرخیاں چھپی کی جنرل طارق پرویز کو وزیراعظم سے ملنے کی وجہ سے فارغ کردیا گیا ہے۔یہ خبر مشرف اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے اخباروں میں لگوائی گئی تھی ۔اب بات برداشت سے باہر ہو گئی تھی ۔لہذا جس وجہ سے میں نے مشرف کو ریٹائرڈ کرنے کا فیصلہ کیا۔
وزیراعظم کے ملٹری سیکرٹری برگیڈیئر جاوید ملک بتاتے ہیں ۔وزیراعظم نے مجھے کہا کہ جنرل ضیاء الدین بٹ کو چار بجے وزیراعظم ہاؤس بلایا جائے ۔

جنرل ضیاء الدین بٹ چار بجے وزیراعظم ہاؤس پہنچ گئے ۔اس وقت وزیراعظم ہاؤس میں شہبازشریف،چوہدری نثار علی خان بھی پہنچ چکے تھے۔لہذا وزیراعظم نے جنرل ضیاء الدین بٹ کو نئے آرمی چیف کے بیجز لگادیے ۔پانچ بجے پی ٹی وی پر پرویز مشرف کی ریٹائرڈ منٹ اور جنرل ضیاء الدین بٹ کو نئے آرمی چیف بنانے کی خبر چلی تو دو سری مرتبہ خبر چلنے سے پہلے وہاں فوج پہنچ گئی۔

پھر برگیڈیئر جاوید ملک بتاتے ہیں کہ میں نے پی ٹی وی پہنچ کر معاملہ کنٹرول کیا میں واپس وزیراعظم ہاؤس آگیا۔میں جب وزیراعظم ہاؤس پہنچاتو مغرب کی آذان کا وقت ہوگیا تھا میں نے وزیراعظم کو صورتحال بتائی۔کچھ دیر بعد مجھے پیغام ملا کہ فوج نے وزیراعظم ہاؤس پر قبضہ کرلیا ہے اور فوجی وزیراعظم ہاؤس کی دیواریں پھیلانگ کر اندر آرہے ہیں اور پی ٹی وی کی نشریات رک گئیں ہیں۔

جاوید ملک بتاتے ہیں میں وزیراعظم کے پاس جاتا ہوں جہاں ان کے پاس نئے آرمی چیف جنرل ضیاء الدین بٹ،سیف الرحمن اور شہبازشریف بیٹھے تھے میں نے ان کو ساری صورتحال بتائی۔لیکن وہاں سے چوہدری نثار اچانک غائب ہو گئے تھے۔کچھ ہی دیر بعد جنرل محمود اور جنرل اورکزئی اپنے 25،30جوانوں کے ساتھ وزیراعظم کے کمرے میں آئے ۔شہبازشریف نے غصے سے کہا یہ وزیراعظم کا پرائیویٹ روم ہے یہاں یہ لوگ نہیں آسکتے۔

جنرل محمود نے جوانوں کو باہر جانے کا کہا ۔جنرل محمود نے نوازشریف سے کہا ”سر یہ آپ نے کیا کردیا“وزیراعظم نے کہا ”میں نے وہی کیا جو آئین و قانون کے مطابق میرا اختیار تھا“۔رات کے تقریبا آٹھ بج چکے تھے اور فوجی بغاوت کامیاب ہو چکی تھی۔اس کے بعد جنرل محمود اور جنرل اورکزئی نوازشریف اور شہباز کو ٹین کور لے گئے ۔جہاں وزیراعظم نوازشریف کو ایک الگ چھوٹے سے کمرے میں قید کردیا گیا ہے۔


میاں نوازشریف بتاتے ہیں کہ جرنیل اقتدار پر قبضہ کرنے کیلئے پہلے سے تیار بیٹھے تھے وگرنہ چند گھنٹوں میں بغاوت ممکن نہیں ہوتی ٹیک اوور کے بعد 12اکتوبر کی رات میرے پاس جنرل محمود اور جنرل علی جان اورکزئی آئے اور کہا”اس کاغذ پر دستخط کردیں”اس کاغذ پر وزیراعظم کے طرف سے اسمبلیاں توڑنے کا مشورہ تحریر تھا ۔میں نے انکار کردیا اور کہا”Over my dead body“اور کاغذ اٹھاکر پھینک دیا۔

اس پر ان جرنیلوں نے کہا ”اب آپ سے بدلہ لیا جائے گا“بعدازراں مجھے وہاں سے چند فٹ کے کمرے میں منتقل کردیا اور اس کے شیشوں کو رنگ کردیا کہ میں باہر بھی نہ دیکھ سکوں۔بعدمیں ایک ایسے جنرل پاکستان کے سیاہ سفید کے مالک بن گئے جن کے بارے میں نوازشریف کو ایجنسیوں نے رائے دی تھی کہ وہ جلد بازاور غصے والے انسان ہیں ۔صبح جو حکمران تھے وہ شام کو قیدتھے اور صبح جو برطرف تھے اور شام کو حکمران تھے۔

کارگل جنگ کا ملبہ ایک ملٹری کوپر ختم ہوا تھا۔بھارت میں کارگل پر ایک کمیشن بنا جس کو ایک سیکیورٹی ایکسپرٹ کیس برمانن نے کنڈکٹ کیا ۔اس کمیشن کی رپورٹ کے زیادہ تر حصے پبلک کردیے گئے جس میں کئی اعلیٰ بھارتی فوجی افسروں کو نوکری سے نکال دیا گیا۔لیکن پاکستان میں اس پر کبھی کوئی انکوائری نہیں ہوئی جبکہ اس کا ریکارڈ غائب یا سیل کردیا گیا۔کسی کو اس آپریشن کی ناکامی نہ ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور نہ کوئی تحقیقاتی رپورٹ آج تک سامنے آئی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :