کیوبا کا انقلاب ۔ قسط نمبر 2

جمعہ 13 نومبر 2020

Saif Awan

سیف اعوان

25نومبر 1956 کوایک یارڈ”کشتی“ میکسیکو سے کیوبا کی جانب روانہ ہوئی۔اس چھوٹی یارڈمیں صرف دس سے بار افراد کے بیٹھنے کی جگہ تھی لیکن اس رات اس یارڈ میں 82افراد سوار ہوئے جن میں فیدل کاسترو،راؤل کاسترو فیدل کا چھوٹا بھائی اور چے گویرا بھی شامل تھے۔یہ کشتی آج بھی کیوبا کے میوزیم میں موجود ہے ۔کشتی 2دسمبر کو اپنی منزل یعنی کیوبا میں پہنچی گئی۔

کشتی جیسے ہی کنارے پر پہنچی صدربتیستا کے فورسز نے انقلابیوں پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں 70انقلابی وہی ہلاک ہو گئے ۔فیدل کاسترو ،اس کا چھوٹا بھائی اور چے گویرا نو ساتھیوں سمیت بامشکل جان بچانے میں کامیاب ہو گئے اور جنگل کی طرف نکل گئے۔کاسترو نے جنگل میں ہی اپنی فورسز تیار کرنا شروع کردی۔مقامی آبادی کی مدد سے اس نے جلد ہی ایک بڑی اور تربیت یافتہ فورس تیار کرلی پھر جب صدر بتیستا کی فورسز ان پر حملہ کرنے آتی کاسترو کی جانثار ان کو پیچھلے دھکیل دیتے۔

(جاری ہے)

یہ آنکھ مچولی تقریبا ڈیڑھ سال جاری رہی ۔اس لڑائی سے صدر بتیستا بہت پریشان تھا۔جون 1958میں صدر بتیستا کی فوج نے آخری حملہ کرنے کا پلان بنایا جس کو ”آپریشن ویرانو“کا نام دیا گیا۔لیکن اگست تک کاسترو نے کیوبا کی فوج کو بری طرح شکست دے دی۔اب کاسترو کی فورسز نے کیوبا پر براہ راست حملے شروع کردیے۔پھر 27دسمبر کو کاسترو کو اس وقت بڑی کامیابی ملی جب چے گویرا کی قیادت میں ان کی فورسز نے سانتاکلارا شہر پر مکمل قبضہ کرلیا۔

اس واقعہ کے چند روز بعد صدر بتیستا یکم جنوری 1959کو کیوبا سے فرار ہو گیااور دارالحکومت ہوانا پر فیدل کاسترو کے حامیوں کا قبضہ ہو گیا۔9جنوری کو جب فیدل کاستروہوانا میں داخل ہوا تو ہوانا کی سڑکیں عوام کے سمندر سے بھری ہوئی تھیں۔لوگ ”کاستروزندہ باد“کے نعرے لگارہے تھے۔کیوبا ایک ڈکٹیٹر سے آزاد تو ہو گیا تھا لیکن اب دو عالمی طاقتوں کی جنگ کا مرکز بننے جارہا تھا یہ طاقتیں امریکہ اور سویت روس تھے۔

کاسترو کا جکاؤ سویت روس کی جانب تھا لہذا اس نے کیوبا میں قائم امریکی کمپنیوں کو قومی ملکیت میں لے لیا اور سویت روس سے تجارتی معاہدہ بھی کرلیا۔اب امریکہ فیدل کاسترو کو اپنے لئے خطرہ سمجھنے لگا لہذا امریکی سی آئی اے نے کاسترو کو راستے سے ہٹانے کا منصوبہ بنالیا۔ امریکہ میں رہنے والے 1500کیوبن شہریوں کو سی آئی اے نے تربیت فراہم کی اور انہی شہریوں نے کیوبا پر حملہ کردیا۔

جیسے ہی یہ لوگ کیوبا پہنچے اس کی خفیہ اطلاع فیدل کاسترو کو بھی مل گئی لہذا کاسترو خود میدان میں پہنچ گیا اور لڑائی کی نگرانی کرنے لگا۔فیدل کی فوج نے ان کو گھیر لیا اور ان کو ہتھیا ڈالنے پر مجبور کردیا ان حملہ آوروں کی مدد کیلئے آنے والی امریکی طیارے بھی مار گرائے۔کیوبا میں امریکہ کی شکست دنیا بھر میں امریکہ کیلئے شرمندگی کا باعث بنی اور امریکی صدر جان ایف کینڈی کئی روز تک عوام کے سامنے نہ آسکے۔

اس امریکی حملے کے بعد کاسترو مزید امریکہ کیخلاف ہو گیا ۔اس نے روس سے ایک اور معاہد ہ کرلیا جس سے امریکہ کو شدید دھچکا لگا۔کاسترو نے روس کو کیوبا میں میزائل اڈے بنانے کی اجازت دے دی۔اس معاہدے کے بعد امریکی نیوی نے کیوبا کو گھیرے میں لے لیا اور دھمکی دی اگر کوئی روسی جہاز کیوبا کے قریب آیا تو اس کو تباہ کردیں گے۔جس کے بعد روس نے کیوبا سے میزائل اڈے ختم کردیے۔

اب امریکہ نے کاسترو کو قتل کرانے کے منصوبے بنانے شروع کردسیے ۔کاسترو کوکئی مرتبہ قتل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ بچ نکلا۔ان واقعات کے بعد امریکہ نے کئی کیوبن شہریوں کو امریکہ میں پناہ بھی دی جس کو آج بھی لیٹل ہوانا کہا جاتا ہے۔فیدل کاسترو کیوبا کا فوجی سربراہ ،وزیراعظم پھر صدر بھی رہا ۔فیدل کاسترو بھی صدر بتیستا کی طرح ڈکٹیٹر بن کر حکومت کرتا رہا لیکن اس نے دولت مند لوگوں سے زمینیں لے کر غریبوں میں تقسیم کردی۔

اس نے کیوبا میں ہزاروں کی تعداد میں سکول،کالجز اور نئے ہسپتال بنانے جن سے عام لوگوں کو بہت فائدہ ہوا۔کیوبا کی معیشت کا زیادہ انحصار روس پر ہی رہا جب 1991میں سویت روس کے ٹکرے ہوئے تو کیوبا کو چھ ارب ڈالرکی ملنے والی امداد بند ہو گئی۔ خراب معاشی حالات کی وجہ سے تیل کی درآمد بھی بند ہو گئی جس کی وجہ سے لوگ گاڑیوں میں سفر کی بجائے گھوڑا گاڑیوں میں سفر کرنے لگے۔

اب فیدل کاسترو نے سیاحت کے شعبے کو فروغ دینا شروع کردیا۔سویت روس کے خاتمے کے بعد امریکہ نے بھی کیوبا پر پابندیاں کچھ نرم کردیں۔امریکی کانگرس نے 2000میں امریکی کمپنیوں کو کیوبا سے خوراک اور ادویات کی تجارت کی اجازت دے دی۔امریکی پابندیوں میں نرمی کی وجہ سے کیوبا کی معیشت سنبھلنے لگی لیکن اب فیدل کاسترو کی صحت خراب رہنے لگی ۔پھر جون 2000میں فیدل کاسترو ہوانا میں ہزاروں لوگوں سے خطاب کررہا تھا کہ وہ اچانک بیہوش ہو گیا ۔

اس واقعے کے تین برس بعد کاسترو سٹیج سے نیچے اوتر رہا تھا کہ سیڑھی سے اس کا پاؤں پھسل گیا اور زور سے نیچے گرا جس سے اس کا ایک بازو اور گوٹنا ٹوٹ گیا۔صحت کی مسلسل خرابی کے باعث 2006میں کاسترو نے عارضی طور پر صدر کے اختیارات اپنے بھائی راؤل کاسترو کے حوالے کردیے۔پھر 2008میں فیدل کاسترو نے صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔آخری بار 2016میں فیدل کاستروپارٹی کے اجلاس میں شریک ہوا۔

اس واقعہ کے پانچ ماہ بعد 25نومبر 2016کو 90سال کی عمر میں فیدل کاسترو کی موت ہوگئی۔جو شخص 25نومبر 1956کو میکسیکو سے ایک کشتی میں کیوبا پہنچا وہ 25نومبر 2016کو انتقال کردیا۔فیدل کاسترو کی موت پر کیوبا میں نو روز تک سوگ منایا گیا۔ایک طرف پورا کیوبا اپنے عظیم لیڈر کے انتقال پر سوگ منارہا تھا دوسری طرف امریکہ کے لیٹل ہوانا میں کیوبن امریکی شہریوں نے جشن منایا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :