کلیبری فانٹ کیا ہے؟

بدھ 10 فروری 2021

Saif Awan

سیف اعوان

گزشتہ ساڑھے تین چار سالوں سے بار تین الفاظ سن سن کے میں ذاتی طور پر تنگ آچکا ہوں ۔کچھ ذمہ داراور کچھ غیر ذمہ دار لوگ بار بار ان تین الفاظ کو بڑی ڈھٹائی اور ڈھنکے کی چوٹ پر بولتے ہیں جیسے ان کے یہ الفاظ پتھر پر لکیر ہیں ۔ان افراد میں اکثر تو ان تینوں الفاظ کی حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں اور کچھ سنی سنائی باتوں پر ہی بلند بانگ دعوے کرتے ہیں۔

پہلے ”والیم ٹین“کا بہت چرچہ کیا گیا ۔پھر ”کیلبری فاؤنٹ“کابہت چرچہ ہونے لگا۔اکثر لوگ آج بھی اس کو کوئی ادارہ یا کمپنی سمجھتے ہیں یا کرپشن کرنے کا کوئی طریقہ تصور کرتے ہیں۔اس کے بعد تیسرا لفظ جس کا آج وزیراعظم عمران خان اور ان کے وزراء بہت چرچہ کرتے ہیں ”این آر او“نہیں دوں گا ۔سابق صدر و آرمی چیف پرویز مشرف کے این آر او سے کس نے فائدہ اٹھایا اور یہ این آر او کیوں معارف کرایا گیا۔

(جاری ہے)

اس کی حقیقت میں اپنے اگلے آرٹیکل میں بتاؤ گا۔فی الحال میں ”کیلبری فاؤنٹ “کے متعلق آپ کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کیا چیز۔
 ”والیم ٹین“کی حقیقت میں اپنے 25ستمبر2020کے آرٹیکل میں لکھ چکا ہوں ۔”پاناما لیکس کی تحقیقات کیلئے بنائی جے آئی ٹی نے ” والیومز ٹین“ کے حوالے سے بھی شک ہی پیدا کیا گیا یوں ظاہر کیا گیا کہ اس والیوم میں سب سے زیادہ اہم ترین ثبوت ہیں۔

حالانکہ اس میں محض وہ خطوط تھے جو برطانیہ اور دیگر ممالک کی حکومتوں کو لکھے گئے تھے جن کے جواب ابھی آنا باقی تھے اور جو نہ آئے اور نہ ہی آئیں گے۔جے آئی ٹی نے نو ممالک کی حکومتوں کو خط لکھے جن میں سے سات ممالک نے جواب ہی نہ دیے جبکہ دو ممالک نے جوابا سوال کیا ”پہلے ہمیں یہ بتایا جائے کہ جرم کیا ہوا ہے؟“۔جے آئی ٹی جرم کیا بتاتی کیونکہ جرم کی تو ابھی تلاش کی جارہی تھی۔

والیوم ٹین میں برطانیہ اور دیگر ممالک کی حکومتوں کولکھے خطوط جن کے ابھی جواب آنا باقی تھے لیکن اس کے بارے میں آج بھی یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ اس میں نوازشریف فیملی کیخلاف بہت اہم ثبوت موجود ہیں جو ان کے مجرم ہونا ثابت کرتے ہیں “۔
کلبیری فانٹ کو ڈچ ڈیزائنر ”لیوکس ڈی گروٹ نے 2004میں ایجاد کیا۔جبکہ کلیبری فانٹ کمرشل استعمال کیلئے 2007میں لاؤنچ کیا گیا۔

کلیبری فانٹ 2007میں بھی دستیاب تھا اور انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا تھا۔اسے پہلی مرتبہ 2004میں ونڈو ز وسٹا کے بٹا میں لانگ ہارن کے کوڈ نیم کے ساتھ پیش کیا گیا۔2005میں اسے ٹایپ ڈائریکٹر ز کلب کی طرف سے ٹایپ سسٹم کیٹگری میں ٹی ڈی سی 2ایوارڈ مل چکا تھا ۔کلیبری فانٹ کو کمرشل استعمال میں لاؤنچ کرنے سے پہلے ڈیڑھ کروڑ لوگ اسے ڈاؤن لوڈ کرچکے تھے۔

2006میں جب مریم نواز اور حسین نواز کے درمیان معاہدہ تحریر پایا تب کلیبری فانٹ کو ایجا دہوئے دو سال ہو چکے تھے اور یہ انٹرنیٹ پر بھی دستیاب تھا جہاں اس کو انٹرنیٹ سے بھی ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا تھا۔ پاناما لیکس کی جے آئی ٹی نے موجودہ ایف آئی اے کے سربراہ اور جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کے کزن راجہ ریاض اختر سے جو سوال کیا گیا وہ بہت ہنر مندی سے تیار کیا گیا تھا۔

یعنی اس کا جو بھی جواب آئے وہ ہر صورت میں غلط ہی ثابت ہو۔جے آئی ٹی نے راجہ ریاض اختر سے سوال کیا کہ ”کلیبری فانٹ عام لوگوں کیلئے کب ریلیز کیا گیا؟اس کا جواب راجہ ریاض اختر نے دیا کہ اس کو 2007میں ریلیز کیا گیا تھا۔یوں اس پلانٹڈ سوالوں جواب کے ذریعے عوام کے ذہنوں میں یہ تاثر دیا گیا کہ مریم نواز اور حسین نواز کے درمیان ہوا معاہدہ جعلی ہے۔

2006میں جب مریم نواز اور حسین نواز کے درمیان معاہدہ تحریر ہوا اس وقت کلیبری فانٹ کو ایجاد ہوئے دو سال ہو چکے تھے اور کلیبری فانٹ کو انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا تھا۔
برطانیوی فرائنزک ایکسپرٹ رابرٹ ولیم زیڈلے نے احتساب عدالت کے روبرو گواہی کے دوران تسلیم کیا کہ کلیبری فانٹ اگرچہ جنوری 2007سے پہلے کمرشل استعمال کیلئے دستیاب نہیں تھا لیکن 2005سے انٹرنیٹ پر دستیاب تھا اور اس کو ڈاؤن لوڈ کرنے کی سہولت بھی میسر تھی۔

اس کو ڈاؤن لوڈ کرنے کیلئے آئی ٹی ایکسپرٹ ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔زیڈلے نے یہ بھی اقرار کیا کہ اس نے خود 2005میں اسے ڈاؤن لوڈ کیا حالانکہ وہ آئی ٹی ایکسپرٹ بھی نہیں ہے۔جبکہ برطانیوی وکیل جیری فری مین نے مریم نواز اور حسین نواز کی ٹرسٹ ڈیڈ درست ہونے کی تصدیق کی تھی اور کہا تھا کہ یہ اس کی موجودگی میں لکھی گئی تھی لیکن جے آئی ٹی نے نہ ہی جیری فری مین کو گواہی کیلئے بلایا اور نہ اس سے ٹرسٹ ڈیڈ کی نقل حاصل کرنے کی کوشش کی ۔

جے آئی ٹی کی جانب سے کہا گیا کہ ایسا کرنا زائد از ضرورت ہے۔
جے آئی ٹی کے تمام طریقہ کار سے واضع نظر آرہا تھا کہ وہ مریم نواز کو کس بھی طریقے سے جرم وار ٹھہرانا چاہتی ہے ۔بعد میں اسی طریقے سے مریم نواز کو 2018کے الیکشن سے قبل نااہل بھی قراردے دیا گیا جبکہ مریم نواز کبھی کسی عوام عہدے پر بھی نہیں رہی ہیں ۔اگر آنے والے وقت میں کبھی کسی عدالت میں یہ معاملہ دوبارہ اٹھایا گیا تو اس کے متعلق واجد ضیاء اور جے آئی ٹی کے دیگر ارکان سے بھی سوال لازمی ہو گا اور پھر ان کوعدالت میں حقیقت بتانا پڑے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :