چڑیاں چگ گئی کھیت

پیر 5 اپریل 2021

Saif Awan

سیف اعوان

رگ وید کے باب میں لکھا ہے کہ قدیم بھارت کی ایک ریاست کے بادشاہ اسیوا جی نے اپنے ہمسایے کی ایک بادشاہ کو خوش کرنے اور اس سے اچھے تعلقات قائم کرنے کیلئے اس کو ایک نایاب ہاتھی تحفے کے طور پر دے دیا۔جب اس کی رعایا کو معلوم ہوا کہ بادشاہ نے ریاست کا ملکیتی ہاتھی دوسری ریاست کے بادشاہ کو تحفے میں دے دیا ہے تو رعایا نے بادشاہ کو ہی عہدے سے بے دخل کردیا اور اس کو جلاوطن بھی کردیا۔

یہ واقعہ حضرت عیسی علیہ سلام کی پیدائش سے تقریبا پانچ ہزار قبل کا ہے۔رگ وید ہندوں کی مقدس ترین کتابوں میں سے ایک کتاب ہے ۔جس میں بھارت کی قدیم تاریخ مختلف نظموں کی شکل میں درج ہے۔وکی پیڈیا کی مطابق ”رگ“ نظم کے بندھ کو کہتے ہیں جو کسی کی تعریف میں لکھا گیا ہو اور وید کے معنی علم کے ہیں، رگ وید اگنی دیوتا کی تعریف سے شروع ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

یہ ہندووٴں کے اہم ترین اور قدیم ترین تہذیبی افکار کا مجموعہ ہے اس میں مختلف مظاہر فطرت کی تعلیم بھی شامل ہے۔

بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ ہندوستانی تہذیب کی پوری عمارت ویدوں کی تعلیم پر قائم ہے اور ویدوں میں سب سے زیادہ اہمیت رگ وید کو حاصل ہے۔ اس لیے ہندومت کے بنیادی اصولوں کو معلوم کرنے کے لیے اس کا مطالعہ ضروری ہے، اندر، اگنی، ورن جیسے دیوتاوٴں کی تعریف سے یہ وید بھرا ہوا ہے، رگ وید بہت سے مبہم سوالوں کے حل میں مدد دیتا ہے ۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کا مسئلہ سات دہائیوں سے چل رہا ہے ۔

مضبوضہ کشمیر کے معاملے پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تین جنگیں لڑی جاچکی ہیں۔سات دہائیوں میں پاکستان میں مختلف ادوار میں کبھی ڈکٹیٹر حکمران بنے اور کبھی سویلین وزراء اعظم آئے لیکن بھارت نے کبھی مقبوضہ کشمیر کی الگ ریاست کا آئینی درجہ ختم کرنے کی جرات نہیں کی ۔لیکن یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے ۔پاکستان کے وزیراعظم عمران خان جو بھارت کے عام انتخابات سے قبل دعوی کررہے تھے کہ اگر دوبارہ مودی کامیاب ہوتا ہے تو مسئلہ کشمیر حل ہونے کی امید ہے۔

مودی جیسے ہی دوبارہ وزیر اعظم بنے تو انہوں نے پہلا کام ہی مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کا کیا۔اب وقت بدل چکا ہے اور رعایا بھی بدل چکی ہے۔کسی نے عمران خان کو وزارت سے بے دخل کرنے یا جلا وطن کرنے کا نہ مطالبہ کیا اور نہ کسی عدالت نے اس ایشو کو سنجیدہ لیا۔مغربی پاکستان الگ ہوگیا لیکن ہماری رعایا نے اس کا باعث بننے والے افراد کو نہ بے دخل کرنے کا مطالبہ کیا اور ان کو سزائیں دی گئی۔

جبکہ حمود الرحمان کمیشن میں ان لوگوں کو کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا گیا لیکن کسی عدالت نے ان کا احتساب نہیں کیا۔
میری کل ایک اہم شخصیت سے ملاقات ہوئی ہے ۔انہوں نے مجھے جو معلومات عمران خان کے متعلق دی وہ انتہائی خوفناک اور باعث تشویش ہیں۔عمران خان کے اقتدار میں آنے بعد عالمی طاقتوں کے متعلق ان کا رویہ بہت سخت اور واضع تھا لیکن جیسے جیسے وہ اپنے پاؤں جماتے گئے ان کے عالمی طاقتوں کے رویے کے متعلق لہجے میں نرمی آتی گئی۔

عمران خان نے واضع کہا تھا وہ کسی غیر ملکی طاقت یا کسی دوسرے ملک سے ڈکٹیشن نہیں لیں گے۔لیکن پھر سب نے دیکھا کہ کس طرح عمران خان ملائیشیا کا دورہ ایک فون کال پر ادھورا چھوڑ کر واپس پاکستان آئے۔پھر اسرائیل مخالف ریاست کے وزراء اور ان کی حمایتی افراد نے کس طرح اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے مہم چلائی۔اس شخصیت کے بقول آج عمران خان اور پاکستان مکمل طور پر انہی کے طاقتوں کے کنٹرول میں ہے جن کی عمران خان مخالفت کرتے رہے ہیں ۔

سعودی عرب سے دوبارہ تعلقات کی بحالی بھی انہی کی مرہون منت ہے۔ان طاقتوں کا سب سے بڑا ہتھیار اس وقت آئی ایم ایف ہے جس کے ذریعے وہ پاکستان کو کنٹرول کررہے ہیں۔کنٹرول کرنے کا واضع مطلب پاکستان کے منصوبے اب ان کی مرضی سے مکمل ہونے گے یا ادھورے رہیں گے۔اسی وجہ سے چین کا آج ایران کی طرف جکاؤ ہو گیا ہے۔آئی ایم ایف کے کہنے پر پہلے بجلی اور گیس مہنگی ہوتی تھی اب گھی،دالیں ،سبزیاں بھی اس ایجنڈے میں شامل ہوگئی ہیں۔

ان کے مطابق پاکستان میں مزید مشکل دور شروع ہونے والا ہے جو لوگ اچھے کی امید لگائے بیٹھے ہیں وہ عوام کو بیوقوف بنارہے ہیں۔اپوزیشن جماعتیں بے بس ہو چکی ہیں انہوں نے ہر طریقہ استعمال کرلیا اب وہ بھی تھک گئے ہیں ۔لہذا اب ان طاقتوں کیلئے میدان صاف ہے ۔موجودہ حالات میں اب صرف عدلیہ ہی واحد امید ہے ۔کیونکہ پارلیمنٹ اب ربڑ سٹیمپ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔

اپوزیشن جماعتیں چیخ چیخ کرکہتی رہیں تھیں کہ آئی ایم ایف کا پلان پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے لیکن حکومت نے بات سنی ان سنی کردی۔اب عدلیہ کو چاہیے کہ وہ آئی ایم ایف کے پلان اور سی پیک کی خود نگرانی کرے ۔اگر عدلیہ پاکستانیوں کو مزید نئے بحرانوں سے بچانا چاہتی ہے تو اس کو” پاکستان بچاؤ“ مشن شروع کرنا ہوگا۔ورنہ جو حالات پیدا ہونے جا رہے ہیں وہ سب کے کنٹرول سے باہر ہونگے پھر ہم بھی کہیں گے”جب چڑیاں چگ گئی کھیت تو اب کیا ہوت“۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :