52اسلامی ملک اور اسرائیل

منگل 11 مئی 2021

Saif Awan

سیف اعوان

پاکستان کو پتھر کے زمانے میں بھیجنے کی امریکی دھمکیاں آج بھی زبان زدعام ہیں۔ان دھمکیوں کانہ کبھی پاکستان نے اور نہ کبھی امریکہ نے باقاعدہ اعتراف کیا۔لیکن سعودی عرب کے شاہ فیصل بن عبدالعزیز کو امریکہ نے باقاعدہ پتھر کے زمانے میں واپس بھیجنے کی دھمکی لازمی دی تھی ۔اس کے جواب میں شاہ فیصل نے کہا تھا کہ ہم پتھر کے زمانے میں واپس جانے کیلئے تیار ہیں ۔

ہم صدیوں سے کھجور اور اونٹنی کے دودھ پر گزارا کرنے کے عادی ہیں لیکن اب امریکہ تیل کے بغیر چلنے کا عادی نہیں۔6اکتوبر 1973کو شام اور مصر نے اچانک اسرائیل پر دونوں اطراف سے حملہ کردیا۔یہ پہلا تاریخی موقعہ تھا جب اسرائیل کیخلاف باقاعدہ اتنی بڑی تعداد میں کئی مسلم ممالک جنگ کیلئے تیار ہو گئے تھے۔

(جاری ہے)

ان میں پاکستان،سعودی عرب،مراکش،الجزائر،کویت،لیبیا اور کئی مسلم ممالک اس جنگ میں شامل تھے۔

”سلطان صلاح الدین ایوبی نے جب بیت المقدس فتح کوکیا تو سلطان نے مسجد اقصیٰ میں صلاح الدین ممبر نصب کرایا۔1967میں اسرائیل نے آٹھ صدیوں بعد مسلمانوں سے دوبارہ بیت المقدس چھین لیا تو اس کے دو سال بعد ایک جنونی اور پاگل آسٹریلیوں نے صلاح الدین ممبر کو آگ لگادی۔مسجد اقصیٰ کے ممبر کے ساتھ ساتھ مسجد کا کافی زیادہ حصہ جل چکا تھا اور مسجد کی چھت کا ایک حصہ بھی گرگیا ۔

اسرائیلی پولیس نے ممبر جلانے والے مائیکل روہن کو گرفتار کرلیا۔اسرائیلی عدالت میں کیس چلا مسلمانوں نے امید لگائی کہ اس کو پھانسی کی سزا دی جائے گی لیکن اسرائیلی عدالت نے مائیکل روہن کو سزا دینے کی بجائے اس کو ذہنی معذور قراردے دیا اور اس کا باقاعدہ علاج کرانے کی ہدایت کی۔اسرائیل نے مائیکل روہن کو آسٹریلیا منتقل کردیا جہاں اس کا پانچ سال علاج ہوتا رہا ایک دن اچانک اس کی موت واقع ہوگئی۔

مسجد اقصیٰ کے واقع کے تقریبا ایک ماہ بعد مراکش کے دارالحکومت رباط میں 52اسلامی ممالک کی نمائندوں کا ایک اہم اجلاس ہوا جس میں اسلامی ممالک کی تنظیم ”او آئی سی “کی بنیاد رکھی گئی۔اس تنظیم کاہیڈ کواٹر سعودی شہر جدہ کو بنایا گیا۔اس اجلاس کے بعد مسلمانوں نے اسرائیل کی خلاف جنگ کی خاموشی سے تیاریاں شروع کردیں“۔یہ اسرائیل عرب جنگ کا کچھ تاریخی پس منظر تھا۔

مصر اور شام کے علاوہ دیگر اسلامی ممالک کی تقریبا ایک لاکھ فوج نے اس جنگ میں حصہ لیا ۔ان فوجوں کا کام باقاعدہ اسرائیل پر حملہ کرنانہیں تھا بلکہ مقامات مقدس کی حفاظت کرنا تھا۔اسرائیکل پر حملے کیلئے 6اکتوبر کا دن اس لیے مختص کیا گیا کیونکہ اس دن پورے اسرائیل میں چھٹی تھی ۔یہودیوں کا مقدس دن ”یوم کپور“منایا جا رہا تھا سب لوگ گھروں میں تھے یا عبادات کرنے میں مصروف تھے۔

یہودیوں کا یوم کپور رمضان المبارک میں ہی آتا ہے ۔اس لیے اس جنگ کو یہودی یوم کپور وار اور مسلمان رمضان وار بھی کہتے ہیں۔مصر اور شام کی افواج نے دوپہر دو بجے اسرائیل پر دونوں اطراف سے حملہ کردیا۔جنگ کے پہلے چھ دن تک مصر اور شام کو کافی کامیابیاں ملی لیکن ساتویں دن اس جنگ میں امریکہ بھی اسرائیل کی مدد کیلئے آگیا۔امریکہ نے اسرائیل کو ”آپریشن نکل گراس“کے نام سے اسرائیل کو جدید ہتھیاروں کی سپلائی شروع کردی۔

اس کے جواب میں شاہ فیصل نے فوری عرب ممالک سے رابطہ کیا اور تمام عرب ممالک نے متفقہ طور پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو تیل کی سپلائی دینا بند کردی۔عرب تیل کی سپلائی کی بندش سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو بڑا دھجکا لگا۔امریکہ اور یورب سمیت کئی ملکوں میں تیل کے حصول کیلئے گاڑیوں کی لمبی لمبی لائنز لگ گئی۔امریکی اور یورپی شہریوں کو تیل کے حصول کیلئے کئی کئی دن لائنز میں کھڑے رہنے پڑتا۔

بعض لوگوں نے تو پیٹرول پمپس پر ہی چرچوں کو شفٹ کردیا۔امریکہ اور یورب میں کئی ماہ تک پیٹرول پمپوں پر ہی لوگ عبادت کرنے لگے۔عرب پیٹرول کی سپلائی دو سال تک بند رہی جس کی وجہ سے امریکہ معیشت اڑھائی فیصد تک سکڑ گئی۔ایک دن اچانک امریکی وزیر خارجہ نے شاہ فیصل سے ملاقات کی اور شاہ فیصل کو پیغام دیا اگر سعودی عرب نے تیل کی سپلائی شروع نہ کی تو امریکہ آپ کے تیل کے کھووں پر قبضہ بھی کرلے گا اور آپ کو پتھر کے زمانے میں واپس بھیج دے گا۔

دوسری طرف امریکہ کی مدد سے اسرائیل نے جنگ کا نقشہ بدل دیا اور اپنے چھینے علاقے مصر اور شام سے دوبارہ واپس لینے شروع کردیے۔اسرائیلی فوج اب شام کے شہر دمشق میں داخل ہو گئی۔اسی دوران سویت روس نے بھی شام کی مدد کرنے کا فیصلہ کرلیا اور اپنی ایک لاکھ فوج کو تیار رہنے کا حکم دے دیا۔دوسری طرف امریکہ نے بھی اپنے فوج کو تیار رہنے کا حکم دے دیا۔

ان حالات سے ایسا لگ رہا تھا جیسے دنیا میں دوبارہ تیسری عالمی جنگ شروع ہونے جا رہی ہے۔پھر اچانک امریکہ کی مدد سے اسرائیل اور مصر کے درمیان 25اکتوبر 1973کو جنگ بندی کا اعلان ہو گیا۔یہ پچاس سال قبل کی صورتحال ہے لیکن آج اسرائیل خود ایک طاقتور ملک بن چکا ہے اور اسی طاقت کے بل بوتے وہ دوبارہ مسجد اقصیٰ پر حملہ آور ہوا ہے۔پہلے مسجد اقصیٰ کا ممبر جلانے پر 52اسلامی ملک جنگ کیلئے تیار ہو گئے تھے لیکن آج اسرائیل نے مسجد اقصیٰ کے اندر شیلنگ کی ،نمازیوں کو شہید کیا ۔

پوری مسجد پر باقاعدہ قبضہ جمالیا لیکن مسلمان حکمران صرف خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں۔ستر سال قبل بننے والی مسلمانوں کی تنظیم او آئی سی بھی اہمیت اور دباؤ اقوام متحدہ سے کچھ زیادہ نہیں رہا۔ایک وقت تھا جب امریکہ،یورب اور اسرائیل اور کئی ان کے اتحادی سلطان صلاح الدین جیسے اکیلے شخص سے ڈرتے تھے لیکن آج 52اسلامی ملکوں کے کئی نامور حکمران ہیں لیکن امریکہ تو سپر پاور ہے وہ تو دور کی بات اب اسرائیل جیسا چھوٹا سا ملک بھی ان 52ممالک کی حکمرانوں کو خاطر میں نہیں لاتا ۔میں تو اس کو سمجھنے سے قاصر ہوں شاید آپ لوگوں کو ہی معلوم ہو کہ آج مسلمان حکمران اتنے بے بس اور لاچار کیوں ہیں اور چند لاکھ یہودی اتنے پاور فل کیسے ہیں ؟؟؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :