رنگباز سجناں

بدھ 19 اگست 2020

Sajid Hussain

ساجد حسین

حکومت پاکستان کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کو پنسل کی چند لکیروں کے حملے کے ذریعے اپنے نقشے میں شامل کیے جانے اور خیالی قبضے کے بعد الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر مرکزی حکومت کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی امڈ آیا ہے جہاں پر مختلف مکاتب فکر کے لوگ طرح طرح کے سیاسی چٹغلے اور تبصرے کر کے  وفاقی حکومت اور اس کے حمایتیوں کے منہ چھڑا رہے ہیں اگر ھم حکومت پاکستان کے حالیہ فیصلے کا باریک بینی اور غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ عام شہریوں کی طرف سے عمراں خان کی حکومت پر شدید ردعمل اور اس کا تمسخر اڑانا بلکل جائز عمل لگتا ہے کیوں کہ کشمیری گزشتہ ایک سال سے نو لاکھ سکیورٹی فورسز کے حصار میں قید و بند کے ساتھ لاک ڈان کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں آئے روز نوجوان کشمیریوں کی شھادت اور خواتین کے ساتھ عصمت دری کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے گھر گھر تلاشی اور نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں سے کشمیریوں میں ہندوستان کی مرکزی حکومت کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے مودی سرکار کی طرف سے آرٹیکل 370 اور 35A کے خاتمے کے بعد کشمیری نہ صرف سخت مشکلات اور بے چینی کا شکار ہیں بلکہ  وہ ایک بدترین زندگی گزارنے پر بھی مجبور ہو گئے ہیں ایک سال قبل کشمیر کی خصوصی حیثیت جبرن ختم کیے جانے کے بعد تمام کشمیریوں کی نظریں حکومت پاکستان کی طرف لگ گئیں تھیں اور انہیں قوی یقین تھا کہ مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان وعدے کے مطابق ان کا بھرپور ساتھ دیگا مگر اسلام آباد کے مایوس کن ردعمل نے کشمیریوں کو مایوسی کے پیغام کے سوا کچھ نہیں دیا ہے اور گذشتہ ایک سال کا حکومت پاکستان کا ردعمل بزدلانہ عیاری مکاری  طفل تسلیوں کے سوا کچھ نہیں رہا ہے جس سے آرپار کشمیریوں میں حکومت پاکستان کے حوالے سے سخت مایوسی اور بے چینی پائی جاتی ہے سوچنے کا مقام ہے کہ ہندوستان کی نو لاکھ سکیورٹی فورسز کشمیریوں کے ساتھ ظلم و بربریت کا کھیل کھیل رہی ہیں اور آپ کشمیریوں کی عملی مدد کرنے کی بجائے مقبوضہ کشمیر پر پنسل کی چند لکیروں کے ذریعے خیالی قبضہ کیے جا رہے ہیں اگر 370 اور35A مودی سرکار ختم نہیں کر رہی ہے تو آپ کا کشمیر کیا ساری دنیا پر خیالی قبضے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہے اگر آپ کی اے سی روم میں بیٹھے کینچھی گئیں  چند لائنیں کشمیریوں کی قید و بند کی صعوبتیں دور نہیں کر سکتیں تو اس فضول ایکسرسائز کا کوئی فائدہ نہیں ہے آپ لوگ مذہب اور حب الوطنی کے نام پر بائیس کروڑ پاکستانیوں کو تو بیوقوف بنا سکتے ہو مگر کشمیریوں کو نہیں بیوقوف بنا سکتے ہیں کیوں کہ کشمیری جانتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے وزیراعظم ازاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان صاحب نے بھی وزیراعظم پاکستان کے سامنے بہتر انداز میں اپنے خدشات اور موقف پیش کیا ہے اور حکومت پاکستان کو یہ باور کرایا ہے کہ آپ کی مسلہ کشمیر کے حوالے سے  سمت موقف ردعمل  اور طریقہ کار  درست نہیں ہے مسلہ کشمیر کے اصل فریق کشمیری ہیں اس لیے عالمی برادری کے سامنے ہمیں بات کرنے کا موقع دیا جائے کیوں کہ کشمیر کوئی پاکستان اور ہندوستان کے درمیان سرحدی تنازع نہیں ہے بلکہ دو کروڑ کشمیریوں کی زندگی خودارادیت  اور آزادی کا سوال ہے جس کا وعدہ عالمی برادری ان سے بہت پہلے کر چکی ہے پاکستان نے خلیجی ممالک کو خوش رکھنے کے لیے آج تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے اور نہ ہی اس کے ساتھ کسی طرح کے سیاسی سماجی معاشی اخلاقی اورسفارتی تعلقات رکھے ہیں مگر کشمیر کے لیے نہ تو پاکستان نے ہندوستان کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کیے ہیں اور نہ ہی معاشی تعلقات سات سو کلو میٹر لائن اف کنٹرول پر روز فائرنگ ہوتی ہے اور دونوں طرف کشمیری مرتے ہیں مگر واہگہ پر تجارت ہوتی ہے اربوں ڈالرز کا روز کاروبار ہوتا ہے کنٹرول لائن پر آر پار راکٹ میزائل چلتے ہیں جبکہ پاکستان اور ہندوستان کے بارڈر پر مسافر جہاز اور آلو پیاز کے ٹرک چلتے ہیں انڈین آئر لائن کے ساڑھے تین سو فلائیٹ  ہر روز پاکستانی حدود سے گزرتی ہیں  کنٹرول لائن پر ہر وقت  موت رقص کرتی ہے جبکہ پاکستان ہندوستان کے باڈر پر ہر روز شام کو پریڈ ہوتی ہے کنٹرول لائن پر کشمیری مائیں اپنے پیاروں کی لاشوں پر بین کرتیں ہیں بہنیں اپنے بھائیوں کی لاشوں پر کرلاتی ہیں جبکہ  پاکستانی اور ہندوستانی فوجیوں کی پریڈ دیکھ کر دونوں ممالک کی عوام تالیاں بجاتی ہے خوشی سے نعرے مارتیں ہیں پاکستان نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد اب تک  جو ردعمل دکھایا ہے اسے دیکھ کر مجھے  وہ پیار میں رلا کھلا  عاشق نامراد یاد آ جاتا ہے جس کی معشوقہ کوئی اور بگا  لے جاتا ہے اور بے چارہ بے بس عاشق ردعمل میں جرآت کرنے کی بجائے  اپنی زلفیں بڑی اور گریبان چاک  کر کے ساتھ میں داڑھی بھی رکھ لیتا ہے اور کبھی کتابوں میں پھول رکھتا ہے اور کبھی درختوں پر محبوب کے نام کے ساتھ اپنے نام لکھتا ہے عطا اللہ اکرم راہی اور اکرم گجر کے دڑے بھی سنتا ہے اور کچی پکی شاعری بھی لکھنا شروع کر دیتا ہے عمران خان نے بھی کشمیر کے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد کچھ ایسا ہی بے بس اور بزدل عاشق کا کردار ادا کیا ہے کبھی تقریر کے ذریعے  قوم کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی ہے تو کبھی ہر جمعہ ہاتھوں کی زنجیر بنانے پر اکتفا کیا ہے تو کبھی  سڑکوں کا نام تبدیل کر کے اپنا الو سیدھا کرنے کی ناکام  کوشش کر رہا تو کبھی ایک منٹ کی خاموشی اور یوم احتصال کے نام پر عام عوام کو ورغلا رہا ہے اگر پاکستان کشمیر کی آزادی میں سنجیدہ ہے تو اسے سیاسی سفارتی اور فوجی معملات میں عملی اقدامات کرنے ہوں گئے ورنہ دوسری صورت میں ڈرامے بازیوں اور رنگ بازیوں سے کشمیر کی آزادی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا ہے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :