''10ہزار بیمار قیدی رہائی کے خواہشمند''

جمعرات 14 نومبر 2019

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

سابق وزیر اعظم نواز شریف کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت پر رہائی مل گئی۔ اگلے مرحلے میں ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نام نکلوا کر انہیں بیرون ملک جانا ہے۔ اس معاملہ پر ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا۔ اب نواز شریف کے وکلاء ہائی کورٹ سے رجوع کرتے ہیں یا حکومت قانونی رہنمائی کے بعد کوئی فیصلہ لیتی ہے یہ معاملہ بالآخر حل ہو جائے گا۔ نواز شریف کے بیرون ملک علاج کیلئے ائیر ایمبولینس کا انتظام بھی ہو چکا ہے جو کافی مہنگا بندوبست ہے۔

پاکستان میں صدر مملکت اور وزیر اعظم کو اس سہولت کے استعمال کا اختیار ہے عام آدمی کیلئے علاج کی غرض سے ائیر ایمبولینس کا استعمال ممکن نہیں۔ تاہم حکومت چاہے تو ممکن ہو سکتا ہے۔ ملالہ یوسفزئی کو علاج کیلئے لندن منتقل کرنے کیلئے یو اے ای کی ائیر ایمبو لینس استعمال ہوئی تھی۔

(جاری ہے)

نواز شریف بھی پاکستان کے 3بار وزیر اعظم رہ چکے ہیں مگر وہ ائیر ایمبولینس کے استعمال کا حق نہیں رکھتے کیونکہ سپریم کورٹ کی طرف سے نا اہلی پر وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوئے۔

صاحب ثروت ہونے اور صاحب اقتدار رہنے کے ناطے انکے لئے بھی ایک عرب ملک کی ائیر ایمبولینس تیار ہے۔ جیسے ہی فیصلہ ہوتا ہے وہ بیرون ملک علاج کیلئے چلے جائیں گے۔
نواز شریف کی بیرون ملک روانگی کا معاملہ قانونی ہونے کے ساتھ سیاسی بھی ہے۔ قانونی امور پر حکومت اور مسلم لیگ دونوں مشاورت کر چکے ہیں اور جاری بھی ہے۔ راقم الحروف قانون دان نہیں، سیاست کا ادنیٰ طالبعلم ہونے کے ناطے سیاسی معاملات پر رائے زنی کی گستاخی پر اکتفا کئے دیتا ہے۔

قانونی سوالات کا جواب وکلاء ہی سے پوچھا جائے۔ ماضی میں جب سابق صدر پرویز مشرف بیرون ملک گئے تو مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے انکے باہر جانے کی بھرپور مخالفت کی۔ وہ تند و تیز بیانات آج بھی سوشل میڈیا پر زیر گردش ہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف جب بیرون ملک گئے وہ سزا یافتہ نہیں تھے جبکہ نواز شریف سزا یافتہ ہیں۔سابق صدر پرویز مشرف بیرون ملک چلے گئے اور اب نواز شریف بھی بیرون ملک چلے جائیں گے۔

سیاسی بیان بازی اور سیاسی میدان کا ٹمپریچر یونہی اوپر نیچے ہوتا رہے گا۔حکومت اور اپوزیشن دونوں جانب سے یہ بات بھی تواتر سے کی جا رہی ہے کہ بیماری پر سیاست نہیں ہونی چاہئے۔مگر دونوں جانب سے سیاست ہی تو ہو رہی ہے۔ نواز شریف بیمار ہے اس میں کوئی شک نہیں انہیں علاج کا حق ہے، اس پر بھی کسی کو اعتراض نہیں کرنا چاہئے۔ پاکستان ہی نہیں نائجیریا، انگولہ، زمبابوے بہت سے ممالک کے صدور و وزرائے اعظم بیرون ممالک سے ہی علاج کو ترجیح دیتے ہیں۔


نواز شریف کی بیرون ملک روانگی سے بہت سے سیاسی معاملات جڑے ہیں۔ نواز شریف بیمار ہیں، رب الکریم انہیں صحت عطا فرمائے، لیکن دوران حراست یا علاج میں رکاوٹ کے نتیجہ میں انہیں کچھ ہو جاتا ہے حکومت کیلئے ایک بڑا سیاسی مسئلہ کھڑا ہو جائے گا حالات خراب ہوں گے اور ن لیگ کیلئے عوامی ہمدردیاں بڑھ جائیں گی۔ دوسری طرف انکی بیرون ملک روانگی حکومت کے بلند و بالا دعووں کی نفی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

قانونی امور تو طے پا جائیں گے مسئلہ سیاسی معاملات کا ہے۔ بزرگ سیاسی رہنما چوہدری شجاعت حسین نے واضح کہہ دیا نواز شریف کے ملک سے باہر جانے پر ملک میں شروع ہونے والے طوفان کو عمران خان کو ہی قابو کرنا پڑے گا۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے عمران خان کو اللہ نے موقع دیا ہے وہ ایسا داغ نہ لگنے دیں جسے دھونا مشکل ہو جائے۔


نواز شریف کے ساتھ سابق صدر آصف علی زرداری بھی زیر حراست ہیں، میڈیا میں انکی بیماری کے حوالہ سے اب خبریں آ رہی ہیں، لیکن انکی طرف سے طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست نہ دائر کرنے کا فیصلہ سامنے آیا۔ آصف علی زرداری کا موقف ہے کہ ان پر جرم ثابت کیا جائے یا با عزت بری کرکے معافی مانگی جائے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی سیاست میں ہمیشہ یہی فرق رہا ہے، حالیہ سیاسی صورتحال میں پی ٹی آئی کی لیڈر شپ اپنے بلند و بانگ دعووں کے بوجھ تلے فیصلے کرنے پر مجبور ہے۔

اس سیاسی صورتحال میں قانونی فیصلے جو بھی آ جائیں انکے سیاسی اثرات ملکی سیاست پر ضرور ہوں گے اور مستقبل کی سیاست انہی فیصلوں سے عبارت ہوگی۔ پاکستان کی سیاست کا اپنا مزاج ہے۔ عدالتی فیصلہ کے نتیجہ میں بھٹو کی پھانسی کو آج تک سیاسی طور پر تسلیم نہیں کروایا جا سکا اب نواز شریف کا خوف ہے۔ خدا نہ کرے انہیں کچھ ہو گیا تو پی ٹی آئی کیلئے سیاسی طور پر بہت خطر ناک ثابت ہو گا۔

سہولیات دیں تو اپنے ووٹر کو کیسے مطمئن کیا جائے۔۔۔۔؟
ابھی تو سابق وزیر اعظم نواز شریف کو اسلام آبادہا ئی کورٹ نے طبی بنیادوں پر رہائی کا فیصلہ دیا، ملک بھر سے دس ہزار بیمار قیدیوں کی رہائی کیلئے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست آگئی۔ عوام دوست پارٹی کے انجینئر محمد الیاس نے درخواست میں موقف اختیار کیا کہ ملک بھر میں مختلف بیماریوں میں مبتلا دس ہزار سے زائد قیدی سزا کاٹ رہے ہیں اور جیلوں میں قیدیوں کو علاج کی مناسب سہولیات بھی فراہم نہیں کی جا رہی، آئین کے مطابق سب شہری برابر ہیں ان سے امتیازی سلو ک نہیں کیا جا سکتا ایسا کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ نواز شریف کی طرح بیمار قیدیوں کو رہا کر دیا جائے۔درخواست چیف سیکرٹری پنجاب کو پہنچا دی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کا موقف سن کر قانون کے مطابق فیصلہ کریں۔قانونی معاملات پر قانون کے مطابق ہی فیصلہ آئے گا۔ لیکن نواز شریف کی رہائی سے ایک بحث ضرور شروع ہو گئی ہے۔
سیاست نام ہی عوامی بھلائی کا ہے امید کی جا سکتی ہے اور دعا ہے اللہ تعالیٰ ان عدالتی فیصلوں سے پاکستان کیلئے، پاکستانی عوام کیلئے خیر کا پہلو نکلے۔ نواز شریف کی ضمانت10ہزار بیمار قیدیوں کے لیے امید بن چکی ہے۔ سیاستدان تو سیاست ہی کریں گے۔ بیمار قیدیوں کو ابھی قانونی جنگ لڑنی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :