احساس کے منافی فیصلے

پیر 13 اپریل 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

پاکستان ہی نہیں کم و بیش پوری دنیا میں لاک ڈاون ہے۔تاریخ نے پہلی بار یہ وقت دیکھا ہے کہ جب انسان نے جینے کی خاطر پیسہ کمانا چھوڑ دیا۔کاروبار زندگی تو جیسے رک سا گیا ہے۔وطن عزیز میں سیاست، عیاری اور عبادت یہ مناظر پھر بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔لاک ڈاون پر پاکستان میں مکمل اتفاق نہیں۔دنیا میں اس آفت سے بچنے کے ایک ہی طریقہ پر اتفاق پایا جاتا ہے وہ ہے سماجی دوری۔

۔۔جن ممالک نے اس وائرس کو سنجیدگی سے نہیں لیا وہ آج مشکل حالات سے دوچار ہیں۔ چین نے ووہان کو مکمل لاک ڈاون کر کے پورے ملک کو بچالیا۔
شومئی قسمت کہ پاکستان میں لاک ڈاون پر سندھ حکومت نے سب سے پہلے فیصلہ لیا۔پنجاب، کے پی کے، بلوچستان، آزاد جموں وکشمیر، گلگت بلتستان کی حکومتوں نے بھی بتدریج وہی فیصلے کیے۔

(جاری ہے)

وفاقی حکومت جس کا کام تھا، منصب تھا کہ وہ ایک واضح پالیسی سامنے لاتی ایسا کرنے میں ناکام رہی یا ایسا کہہ لیں تاخیر کا شکار ہوئی۔

بین الاقوامی سطح پر سندھ حکومت کے اقدامات کی تعریف و توصیف کی گئی۔وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ اور انکی حکومت کے طرز عمل کو سراہا گیا۔ اس دوران صوبائی وزیر سعید غنی خود اس وائرس کا شکار ہوئے۔ پھر کیا تھا بقائے انسانیت اور انسان پر معیشت کو اہم قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ وزیر اعظم عمران خان بار بار یہ کہتے نظر آئے کہ مجھے غریب آدمی کا خیال ہے۔

کاروبار بند ہونے سے ایسا اقتصادی بحران آئے گا جو کرونا سے زیادہ خطرناک ہوگا۔پالیسی کے فقدان کے نتیجہ میں لاک ڈاون بھی ہوا۔سفید پوش طبقہ بھی پریشان مگر لاک ڈاون کے بہتر نتائج سامنے نہ آسکے۔ وزیر اعظم عمران خان لاک ڈاون کرنے کے فیصلہ سے خود مطمئن نہیں تھے۔لاک ڈاون بھی ہوا، کاروبار بھی بند، مگر سماجی رابطے برقراراور فاصلہ رکھنے، احتیاط اور احتیاطی تدابیر پر مکمل عمل درآمد بھی نہ ہو سکا۔


آج لاک ڈاون کا22واں روز ہے۔ اس جزوی لاک ڈاون کے معاشی اثرات مکمل طور پر پاکستان کے لیے چیلنج بن کر سامنے آنے لگے ہیں۔مریضوں کی تعداد، صحت کی صورتحال پر رائے زنی کی بجائے احساس کو موضوع بناتے ہیں۔عام شہریوں نے اپنی ذمہ داری کا کتنا احساس کیا۔۔حکومت۔۔انتظامیہ۔۔سیاسی قیادت سب کا کردار کیا رہا اس پر غور ضروری ہے۔عوام کا غیر سنجیدہ رویہ، حکومت متفقہ پالیسی اپنانے میں ناکام اور سیاست دان جن کا منصب ہی سیاست کرنا ہے اس مشکل کھڑی میں مثالی کردار ادا کرنے میں تاحال ناکام ہیں۔

بہت کچھ واضح ہوگیا کہ ہم اقتصادی طور پر ہی کمزور نہیں،ہمارے سماجی رویے بھی قابل ستائش نہیں۔صحت کی سہولیات ناکافی، ہر طرف سے چیلنج ہی کا سامنا یے۔اب کس کو اس صورتحال کاذمہ دار ٹھہرایا جائے۔۔۔۔؟
میٹرو بند، اورنج ٹرین بے فائدہ، موٹرویز ویران، کرکٹ ورلڈ کپ کا جنون ختم، جبکہ BISPاور 1122ہی عام آدمی کے لیے مرہم ثابت ہو رہے ہیں۔عام آدمی بھی بری الزمہ نہیں کیونکہ حقیقت کو ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں غلط روش کی حامل اقوام کے حساب سے ہی انکے سربراہ پیدا ہوتے ہیں۔

اقوام کا تاثر، کیفیت اوراخلاقی اقدار جن بلندیوں کی انتہا پر ہوں گے اسی حساب سے رہنما ہونگے۔
تبدیلی سرکار نے BISPکا نام تبدیل کر کے احساس پروگرام رکھا، اپوزیشن نے عام آدمی کی امداد شروع کی تو سب سے اولین ترجیح تشہیر ہی ٹھہری۔ایسے سیاسی ماحول میں ویڈیو کے بغیر امداد کا تصور بھی ممکن نہیں۔شہباز شریف کی تصویر امدادی پیکٹ پر لازم ہے کیا یہ پارٹی پالیسی ہے۔

۔۔؟ BISPسے شہید بی بی کی تصویر ہٹا دیں، پروگرام کا نام تبدیل کر لیں آپ با اختیار ہیں۔ لیکن اس
 پروگرام کا نام احساس رکھتے ہیں تو احساس بھی کیجیے۔سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے کے چکر میں عام آدمی کی زندگیوں کو تو مقدم جانیں۔احساس پروگرام کی امدادی رقم کی تقسیم کے لیے اتنے ناقص انتظامات، غیر ذمہ داری کی انتہا، سماجی فاصلہ رکھنے کی تمام اپیلوں کو ایک ہی لمحہ میں بے اثر کردیا۔

مطابقت رکھیں، مطابقت سے ہی بہتر فیصلے ہو سکتے ہیں۔لیکن جذبات اور مفادات کے تحت فیصلوں سے مسائل بڑھتے ہیں کم نہیں ہوتے۔انتقامی جذبے سے جو لہریں محسوس ہوتی ہیں یہ وقتی اور عارضی ہوتی ہیں۔دعوے اور نعرے کھوکھلے اور ناپائیدار ہی ہوتے ہیں۔وزیر اعظم عمران خان صاحب آپکے پریشان افکار اور گھبرانانہیں کی تسلی سے معاملات قابو میں نہیں آسکتے۔

غریب کی جتنی فکر آپکو ہے اپوزیشن کوبھی ہے۔غریب کی فکر کے ساتھ بیماری سے محفوظ رہنے کے لیے تدبیر بھی بتائیں۔آپکا منصب تقاضا کرتا ہے کہ سیاسی قیادت کو اکٹھا کریں۔متحد ہوکر متفقہ پالیسی پر عمل پیرا ہوں۔ وگرنہ سندھ سرکار کی پیروی کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے تو آپ اور آپکے ساتھی لاک ڈاون پر ہی سوال اٹھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔اب ایسے نہیں چلے گا۔


ہم لوگ تو مے نوش ہیں بدنام ہیں ساغر
پاکیزہ ہیں جولوگ وہ کیاکیا نہیں کرتے
غلطیاں انسان سے ہوتی ہیں یہ انسان کے ساتھ لازم وملزوم ہیں۔اچھا انسان وہی ہے جو غلطی تسلیم کرے، جودوسروں کو موردالزام ٹھہرائے وہ بزدل ہے۔آپ کے سیاسی افکار میں یوٹرن تو قابل فخر ہے۔غلطیوں کی بھی کئی وجوہات ہیں، اسباب اور پس منظر ہوتے ہیں۔

کئی غلطیاں کروائی جاتی
 ہیں۔ایک غلطی دوسری غلطی کو جنم دیتی ہے۔غلطیوں سے ہی انسان سیکھتا ہے۔
اس سے بھی دھوکہ اس سے بھی دھوکہ
اصل میں ہے یہ خود سے ہی دھوکہ
 لاک ڈاون کے فیصلے اور امدادی پیکج پر اپوزیشن سے مکمل مشاورت کریں۔سابق صدر آصف علی زرداری نے مفاہمت کو فروغ دیا تھا جسے گالی بنادیا گیاآج اسی سیاسی مفاہمت اور اتحاد کی ضرورت ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ سیاسی مصلحت سے بالاتر ہو کر متفقہ فیصلہ کیا جائے۔ ہم سب اپنی اصلاح کی کوشش کریں۔اللہ تعالی ہمیں انفرادی اور اجتماعی غلطیوں سے بچنے کی توفیق دے۔آمین!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :