اخلاقی، فکری اورعلمی زوال

منگل 2 جون 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

ہمارا معاشرہ مسلسل اخلاقی، فکری وعلمی زوال کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے معاشرے میں وجود انسانی کی کوئی حیثیت باقی ہی نہیں رہی۔اختلاف رائے پر دوسرے کو ذلیل و حقیر اور خود اعلی و ارفع، عقل کل سمجھنے کی روش، نہ جاننے کی مسلسل ضد دراصل فلسفہ انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔اپنی ذات کا تکبر اور محض اپنے آپکو صحیح سمجھنا انسان کو فرعون، شداد، نمرود میں تبدیل کردیتا ہے۔

تنقید کرنا، دوسروں پر ہنسنااور مذاق اڑانا ہمارا اجتماعی معاشرے کا جزو بن چکا ہے۔
سیاست جو سنجیدہ ترین کام ہے اس میں غیر مہذب اور بیہودہ فقریبازی، غیر سنجیدہ رویے ہماری اخلاقی پستی کا کھلا اظہار ہیں۔غیر سنجیدہ معاشرے میں سنجیدہ مسائل موجود ہی رہتے ہیں۔ہمارے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے جارہے ہیں۔

(جاری ہے)

ماضی کے تمام حکمران چور، ڈاکواورکرپٹ ترین تھے۔

لیکن اب نیا پاکستان ہے اور تبدیلی سرکار بر سر اقتدار ہے۔کرپشن ختم ایماندار قیادت موجود ہے۔دو سال مکمل ہونے کو ہیں، حالات پہلے سے بھی خراب ہیں۔ایماندار اہل قیادت نے کرپشن کی کہانیاں سنا کر سیاست میں نفرت کو تو بڑھا دیا لیکن کرپشن کیسوں کے فیصلے، سزائیں، کچھ بھی تو نہیں ہوا۔وہ خوشگوار توقعات، پچاس لاکھ گھر، نوکریاں، آئی ایم ایف سے بھیک نہ مانگنے کے بلند و بانگ دعوے کچھ بھی تو حقیقت نہیں بن سکا۔

خارجہ پالیسی میں بیسمتی، بدترین معاشی بحران یہ ہے نیا پاکستان۔
معاشی مسائل کا ملبہ گزشتہ حکومتوں کے سر تھوپنے کا وطیرہ آخر کب تک کامیاب رہے گا۔ماضی کی یادوں کو دفنا کر ہم کب آگے سفر شروع کریں گے۔۔؟شاید یہ نظام ہمارے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت
 ہی نہیں رکھتا۔ ہمارے ملک کے عوام بے بس ہیں۔سیاسی مباحث میں بنیادی مسائل اور زندہ حقیقتوں کی گنجائش نہیں۔

مباحث میں حقیقی مسائل کا تذکرہ ہی نہیں۔
ستم ظریفی اور اخلاقی زوال کی انتہا کہ کورونا وائرس کا چینلج، رمضان المبارک کی بابرکت ساعتیں اور سوشل میڈیا پر آصف علی زرداری کی صحت کے بارے خبریں زیر گردش تھیں۔انکے حیات ہونے کو موضوع بحث بنایا گیا۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ یہ محض اتفاق بھی نہیں۔پی پی پی کے سیاسی مخالف اس طرح کی خبروں میں اپنے لیے سکون اور خوشی تلاش کرتے ہیں۔

وہ بھول جاتے ہیں کہ
 دشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے سجناں وی مر جانا 
معاملہ سوشل میڈیا کا ہی نہیں آصف علی زرداری جب ایوان صدارت میں رونق افروز تھے تب بھی چند اینکر اپنے مذموم مقاصد کے لیے ایسی خبریں دیا کرتے تھے۔اس حد تک جارحانہ رویہ اختیار کیا جاتا جسکا تصور بھی ممکن نہیں۔ایسی سنسنی، ایسے دعوی کہ اخلاقیات بھی داغدار محسوس ہوتی۔

معاشرے میں اخلاقی زوال کا سفر محترمہ بے نظیر بھٹو کے کردارکشی سے شروع ہوا۔الزام تراشی کا طوفان بد تمیزی وہ بھی مذہبی سیاسی جماعتوں کے ساتھ قائم سیاسی اتحاد کے پلیٹ فارم سے شروع کیا گیا۔ 
اخلاقی زوال کا وہ سفر برق رفتاری سے جاری ہے۔ایک دوسرے سے بڑھ کر حقارت آمیز فقرے بازی ایسے میں نوجوان نسل تو اسکے اثرات قبول کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔

سیاسی رہنماوں کی کردار کشی کی خواہش اور شخصیت پرستی نے اخلاقیات کا جنازہ ہی نکال دیا۔نوجوان نسل تمام سیاسی مسائل اور نظریات کو چھوڑ کر شخصیات کے پیچھے لگ چکی ہے۔مسائل بڑ ھتے جارہے ہیں، معیشت کو خطرات درپیش ہیں، عالمی سطح پر تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور ہم آصف علی زرداری کے بارے جھوٹی خبریں پھیلانے میں ہی خوش ہیں۔یہ کیسی تبدیلی ہے کہ ہم اپنا اخلاقی توازن بھی برقرار نہیں رکھ پائے۔

مراد سعید جو سیاست میں ایم این اے سے اوپر لیڈر کی حیثیت نہیں رکھتے قومی اسمبلی میں مخالف سیاسی لیڈر شپ پر غیر مناسب تقاریر کر کے قوم کا وقت اور پیسہ برباد کرے تو انکے حمایتی اس پر بغلیں بجائیں۔ معذرت یہ سیاسی شعور نہیں بلکہ سیاسی دیوالیہ پن ہے۔عمران خان تنقید کریں اور اسکا جواب آئے تو مناسب ہے۔یہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار سیاست میں تلخیاں بڑھاتے ہیں۔

شیخ رشید کی گفتگو تو کبھی بھی شائستہ نہیں رہی۔ پی ٹی آئی کی حمایت کے بغیر وہ ایک سیٹ بھی اپنی جماعت کے پلیٹ فارم سے جیت نہیں سکتے اور ایٹمی دھماکہ کا کریڈٹ لینے چلے تو یہ بات بھی ایٹمی دھماکہ سے کم نہیں۔ایٹمی پروگرام کا کریڈٹ ذوالفقار علی بھٹو کے علاوہ کسی کو نہیں جاتا، سوائے اسکے محافظ افواج پاکستان کے سربراہان کو۔عمران خان کی نجی زندگی بھی ہمیشہ سیاست میں زیر بحث رہی۔

یہ کیسی سیاست ہے۔۔۔؟یہ کیسا سیاسی شعور ہے۔۔۔؟
پاکستان میں جتنے کھیل بھی کھیلے گئے اقتدار کے لیے کھیلے گئے۔کسی کھلاڑی نے کوئی ایسا کھیل نہیں کھیلا جس سے عوام اور اسکے ووٹروں کو فائدہ ہو۔فی المقدور یہی کوشش نظر آتی ہے سیاسی مخالفین پر جملہ بازی ہو۔سیاسی رواداری اور اخلاقیات کیبرخلاف ہر شخص اپنے دائرہ فکر اور فہم وفراست کی بناء پر اظہار رائے کو اپنا حق سمجھتا ہے۔

سوشل میڈیا نے تو تمام حدود ہی ختم کردی۔ قابل افسوس امر تو یہ ہے کہ مخالفت کرنے والے یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ اسلام ہر سطح پر ہماری راہنمائی کرتا ہے۔ ہمارا دین مثبت طرز فکر، حسن ظن کا تقاضا کرتا ہے۔کوئی بات کرنے اور پھیلانے سے قبل تحقیق پر زور دیتا ہے۔ حضرت محمد صلی والہ وسیلم کا ارشاد ہے۔'' آدمی کے لیے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے بغیر تحقیق کے اسے بیان کرے''۔

زندہ قومیں حسن ظن کا طریقہ اپناتی ہیں۔ بدگمانی سے بچنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ہمارے ہاں ستائیس رمضان المبارک کے دن آصف علی زرداری کے متعلق خبر کے جھوٹ ہونے پر اسکو پھیلانے پر کوئی شرمسار نہیں ہوتا۔ یہ اخلاقی دیوالیہ پن نہیں تو اور کیا ہے۔۔؟ طیارہ حادثہ ہوتا ہے تو اس حادثہ میں ہلاک ہونے والوں میں معروف اداکار جوڑے دانش تیمور اور عائزہ خان کے نام کس خواہش کے تحت
 شامل کردئیے جاتے ہیں خدا جانے۔

۔۔؟ یہ گناہ بے لذت معمول کا رویہ ہے۔ ایک لمحہ کے لیے بھی اس کو پھیلانے والے نہیں سوچتے یہ کہ کس قدر اذیت ناک ہے انکے پیاروں کے لیے۔معاشرے میں شرح خواندگی بڑھ رہی ہے اس کے ساتھ فکری زوال پذیری بھی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ 
قارئین! اچھا معاشرہ اچھے افکار و خیالات سے وجود میں آتا ہے۔ ہر فرد اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کرکے قابل قدر حصہ بنے۔ تب ہی ممکن ہے ہمارے مسائل حل ہو سکیں۔ ورنہ ہر الزام ایک دوسرے کے سر تھوپ دینے سے کچھ بہتر ہونے والا نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :