ڈھونڈ لیتے ہیں سبھی اپنے گناہوں کا جواز

بدھ 17 جون 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

پاکستان اس وقت دوہری مشکل کا شکار ہے۔ایک طرف معیشت اور دوسری طرف صحت، ہماری اولین ترجیح کیا ہونی چاہیے۔۔؟ حکومت یہ فیصلہ ہی نہیں کر پارہی، عام آدمی کو زیادہ خطرہ کس سے ہے کرونا وائرس سے یا اسکے معاشی اثرات سے۔ لاک ڈاوٴن کا مطلب ہے معیشت کے پہیہ کو روکنا یا عام آدمی کو کورونا سے بچاناہے۔دنیا میں کورونا وائرس سے بچاو کے لیے ایک ہی طریقہ اختیار کیا گیا جو کامیاب رہا وہ ہے مکمل لاک ڈاوٴن۔

پاکستان میں بھی صوبائی حکومتوں نے سندھ سرکار کی تقلید کی اور لاک ڈاوٴن ہوا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس دوران کچھ ایسا رویہ اختیار کیا کہ ملک میں لاک ڈاوٴن بمقابلہ غربت کا تاثر ابھرا۔دنیا بھر میں کورونا کیسز کم ہونے پر لاک ڈوان بتدریج ختم کیا گیا مگر پاکستان میں عید کی آمد سے قبل اسے اشرافیہ کی سازش قرار دے کر ختم کر دیا گیا۔

(جاری ہے)

ملک میں کورونا کیسز روز بروز بڑھ رہے ہیں مگر لاک ڈاوٴن کھل گیا۔

عام آدمی کی مشکلات کو بنیاد بنا کر لاک ڈاوٴن کھول دینا سمجھ آتا ہے لیکن اس سے قبل کورونا وائرس کو عام زکام اور فلو قرار دینا کہاں کی دانشمندی تھی۔موبائل فون پر میسج ہی یوں شروع ہوتا ہے کہ کورونا ایک جان لیوا مرض نہیں۔ صوبائی وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد یہ کہیں کہ سب کے لیے ماسک کا استعمال ضروری نہیں۔وزیر اعظم عمران خان وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نے حفاظتی طور پر نہ سہی علامتی طور پر بھی عید سے قبل ماسک استعمال نہیں کیا۔

ایسے رویوں کیساتھ عام آدمی سے احتیاط کی توقعات مناسب نہیں۔سب سے بڑھ کر کورونا وائرس کے پھیلاو کوروکنے کی کوششوں میں وفاق اور سندھ سرکار کی ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی اور الزامات کے تبادلہ کا
 سلسلہ دیکھنے میں آیا۔ایک متفقہ اور واضح قومی پالیسی تا حال وضع نہ کی جا سکی۔ اب کورونا وائرس سے بڑھتی اموات پر عوام کو جاہل کہنا قابل افسوس ہے۔

مجھے یہاں یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ کورونا وائرس کے حوالہ سے تعلیم اور وسائل کی کمی، نظم ونسق کا فقدان، صحت کی محدود سہولیات، ہر معاملہ میں سیاست، سنی سنائی باتوں کوپھیلانے کا وطیرہ، سازشی تھیوری، سب سے بڑھ کر وزیراعظم عمران خان کے بیانات نے کام خراب کیا۔ریاستی بے عملی نے عوام کو کورونا وائرس کے حوالہ سے غیر سنجیدہ رویہ اختیار کرنے کی ترغیب دی۔

لاک ڈاوٴن کے دوران ابہام پیدا کیے رکھا کہ وزیراعظم لاک ڈاوٴن نہیں چاہتے کیونکہ وہ غریب کا سوچتے ہیں۔جبکہ اس کے برعکس سندھ سرکار نے اس لاک ڈاوٴن کی پالیسی روز اول سے اختیار کی جو دنیا بھر میں کیا گیا۔ لاک ڈاوٴن کو مذاق بنا دیا گیا۔کبھی سندھ حکومت پر امداد کے حوالہ سے کرپشن کی باتیں،بے سروپا الزامات کی بوچھاڑ، شکوہ اور جواب شکوہ۔

وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کیمرہ کے سامنے آبدیدہ ہوئے تو اس کا تمسخر اڑیا گیا۔اب ڈبلیو ایچ او نے پھر سے مکمل لاک ڈاوٴن کا مطالبہ کر دیا۔حکومت کی کنفیوژن اور عوام کے غیر محتاط رویے کی وجہ سے کیسز میں اضافہ ہی نہیں ہوا اموات بھی تیزی سے بڑھ رہی ہیں اب تبدیلی سرکار سمارٹ لاک ڈاوٴن کی طرف جاری ہے۔آدھا لاہور 15دن کے لیے دوبارہ سیل کر دیا ہے۔

سمارٹ لاک ڈاوٴن کے فضائل بیان کیے جارہے ہیں۔بیان کیا جارہا ہے کہ ہمارا لاک ڈاوٴن اور طرح کا ہے سندھ حکومت نے جو لاک ڈاوٴن کیا تھا وہ دراصل معاشی قتل تھا ہم لاک ڈاوٴن میں علاقوں کو سیل کریں گے بند نہیں۔قارئین! ایک طرف گھروں میں رہنے کی اپیل دوسری طرف سیاحتی مقامات کو کھولنے اور ٹورازم انڈسڑی کے فروغ کی باتیں۔اگر ایک فقرے میں بیان کروں تو یہ کھلا تضاد نہیں بلکہ کھلا مذاق ہے۔

لاک ڈاوٴن نہیں، سمارٹ لاک ڈاوٴن اور ٹائیگر فورس سے آگے کی بات کریں اور فیصلہ کریں عوام کو بچانا ہے یا معشیت کو؟۔کورونا سے بچاو کے لیے مشاورت کے لیے شعبہ طب کے ماہرین کی رائے کو اہمیت دینے یا ڈبلیو ایچ او کی سننے کی بجائے
 کاروباری طبقہ سے مشاورت، علماء اکرام کی اپنی الگ رائے، کیا بہتری آنی تھی۔صورت حال خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے۔

فکری طور پر کنگال حکمرانوں نے ہمیں مشکل میں پھنسا دیا ہے۔ کیسی مضحکہ خیز بات ہے کہ اب عوام کو جاہل کہا جائے اور کہنے والے کون جو اسی عوام سے ووٹ لے کر انکی ترجمانی اور خدمت کے دعوے دار ہیں۔
 ڈھونڈ لیتے ہیں سبھی اپنے گناہوں کا جواز
جیسے مجرم ہی نہیں خلق خدا میں کوئی
مکمل لاک ڈاوٴن، پھر ہفتہ اتوار دو دن لاک ڈاوٴن اور اب سمارٹ لاک ڈاوٴن کے تحت مختلف شہروں کے خاص ایریاز کو سیل کرنے کی پالیسی، آخر حکومت وقت ڈبلیو ایچ او کی ہدایات کے مطابق فیصلہ کیوں نہیں کرتی۔۔؟ سیاسی قیادت کے ساتھ متفقہ فیصلہ ہی میں دانشمندی ہے اور معیشت پرصحت کو ترجیح دینا ہی ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :