''آگے بڑھنا وقت کا تقاضا''

جمعرات 9 جولائی 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

موجودہ حکومت کے حوالہ سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ تبدیلی سرکار مفاہمت، اتفاق رائے اور سیاسی تعاون کو اپنے سیاسی مفاد کے خلاف سمجھتی ہے۔عمران خان نے بیک وقت مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور اپوزیشن پارٹی پی پی پی کو نشانے پر رکھا۔ یہ بیانیہ یہی پی ٹی آئی کی طاقت ہے کہ ماضی کے حریف آج حلیف ہیں۔ پارٹی کی لیڈر شپ ہی نہیں عام کارکن بھی سیاست میں ہنگامہ خیزی کا متمنی ہے۔

ایک لائن میں کہوں تو پی ٹی آئی مفاہمت کو درخوراعتنا نہیں سمجھتی۔ بلکہ مفاہمت کو مک مکا کہہ کر گالی کے طور پر پیش کرتی آئی ہے۔
پاکستان کو عالمی وباء، معاشی بحران اور ٹڈی دل کے تاریخی خطرے کا سامنا ہے۔ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ہمیں مثالی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ جس کے لیے باہمی مشاورت اور متفقہ پالیسی کا ہونا بھی ضروری ہے۔

(جاری ہے)

اب سیاسی قیادت کیسے ایک پیج پر آئے۔

۔؟ تبدیلی سرکار کا رویہ تو ہمیشہ سے اپوزیشن کو رگیدنے والا رہا۔ سیاسی مخالفین کو چور، ڈاکو کہنے والی سیاسی قیادت کے لیے اس طرز سیاست کو ترک کرنا دشوار ہے۔ حالات مشکل سے مشکل تر ہوتے جارہے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے وزراء اپوزیشن سے بات جیت پر تیار نہیں۔ سیاسی انا کے بت توڑتے ہوئے ملک کے وسیع تر مفاد میں قدم آگے بڑھایا جانا چاہیئے۔ تبدیلی سرکار میں شامل دبنگ انداز میں اپنی رائے کا اظہار کرنے کے حوالہ سے مشہور وفاقی وزیر فواد چوہدری نے نجی چینل پر بات کرتے ہوئے کہا اپوزیشن اور حکومت ہر وقت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگی رہتی ہے۔

حکومت اور اپوزیشن کو کم سیکم ایجنڈے پر آنا ہوگا۔چاہتے ہیں کہ گورننس کے
 معاملات پر حکومت اوراپوزیشن میں اتفاق ہوجائے۔اس سے قبل قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی فواد چوہدری نے کہا تھا کہ ہمیں آپس کی لڑائیوں سے آگے نکلنا چاہیئے۔ نیب سمیت تمام متنازعہ قوانین میں ترامیم کرنی چاہیئے۔ عوام اب ہمیں آپس میں لڑتا نہیں ملکر کام کرنا دیکھنا چاہتے ہیں۔

حکومت کو کم سے کم ایجنڈے پر اتفاق کرنا چاہیئے۔
 متعدد بار ایسا ہوا کہ فواد چوہدری کے بیانات سے انکی پارٹی کے بہت سے اراکین نے اتفاق نہیں کیا۔ وفاقی وزراء علی زیدی، فیصل واڈا سمیت سندھ سے تعلق رکھنے والے اراکین صوبائی اسمبلی تو سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمہ کے خواہش مند ہیں۔ایک معاملہ دبتانہیں کوئی نہ کوئی نیا الزام سامنے لا یا جاتا ہے۔

گفتگو میں تلخ جملوں کا تبادلہ، ذاتیات پر حملے کر کے قوم کا وقت اور پیسہ برباد کیا جاتا ہے۔گزشتہ ہفتہ قومی اسمبلی میں علی زیدی نے عزیر بلوچ کے حوالہ سے جے آئی ٹی رپورٹ لہرا دی۔پی پی پی کی اعلی قیادت پر الزام تراشی کے جواب میں سندھ سرکار نے پیر کے روز جے آئی ٹی پبلک کردی۔ جواب میں رکن قومی اسمبلی قادر پٹیل نے کہا کہ ایک وزیر کا کام ہی الزام تراشیاں رہ گیا ہے، جلد انکی وزارت پورٹ اینڈ شپنگ میں مبینہ کرپشن پر وائٹ پیپر جاری کیا جائے گا۔

وزیر کوجھوٹی اور من گھڑت جے آئی ٹی رپورٹ لہرانے پر قوم سے معافی مانگنی چاہیئے۔
یہ معاملہ چل رہا تھا کہ فردوس شمیم نقوی نے دیگر پارٹی رہنماوں کے ہمراہ کے الیکڑک کے خلاف دھرنا دے دیا۔
قارئین کرام! اس سیاسی مقابلہ بازی میں یہ بھی بھول گئے کہ کے الیکڑک وفاقی حکومت کے ماتحت ہے۔ کراچی میں بارش سے پانی سڑکوں پر جمع ہوگیا۔ اب اسکی ذمہ داری کس پر عائد ہو ، وفاقی،صوبائی اور مقامی حکومت سب ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ شروع کر کے عوام کے مسائل سے توجہ ہٹانے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔

یہ الزام تراشی کا کھیل جاری رہا تو بہتری ہونے والی نہیں۔سیاسی ماحول میں
 سنجیدگی کیسے آئے جب67 سال کے وزیراعظم عمران خان، 31سال کے بلاول بھٹو کے انداز تکلم کی نقلیں اتاریں۔ مراد سعید جذباتی انداز میں صرف اپنی لیڈر شپ کی عزت کو عزت سمجھیں اور مخالفین پر بات کرتے جوشیلا پن کا مظاہرہ کریں گے تو سنجیدہ قادر پٹیل طنز اور تضحیک کا انداز اختیار ہی کریں گے۔


ان سیاسی رویوں کے ساتھ ملکی مسائل کا حل ممکن نہیں۔ اس تلخ سیاسی ماحول میں عالمی سطح پر کشمیر کا ایشو، اندرون ملک معاشی چیلنج، اور صحت کے مسائل کو مدنظر رکھا جائے تو اتفاق رائے کی ضرورت سے انکار ممکن ہی نہیں۔وفاقی وزیر فواد چوہدری کی باتیں قابل غور بھی ہیں اور قابل عمل بھی، کیونکہ اسی میں ہماری بہتری ہے۔ ہمیں مشکلات پر قابو پانا ہے تو اختلافات کو کم کرنا ہوگا۔ اب آپس کی لڑائیوں سے آگے نکلنا چاہیئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت نکل جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :