''حلوہ حکمران ہی کھائیں گے''

بدھ 16 ستمبر 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

پاکستان میں بے شک جمہوریت کے نام پر سیاسی حکومت قائم ہے، لیکن سیاسی قیادت کے رویے جمہوری نہیں۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو برداشت کرنے پر تیار نہیں۔
 اس لیے مستقبل قریب میں کسی بھی طرح سیاسی کشیدگی کے کم ہونے کے آثار نہیں۔برداشت اور سیاسی مینڈیٹ کا احترام،اہم قومی معاملات پر قانون سازی کے لیے اتفاق رائے سب کچھ ذاتی انا کی تسکین کی نظر ہوجاتا ہے۔

الزام تراشیاں, کردار کشی، روز ایک نئی لاحاصل بحث جاری ہے۔ جس سے کچھ بہتر ہونے والا نہیں۔
حقیقت میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کو کارکردگی کے حوالہ سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ حکومت صرف اپوزیشن پر الزام تراشی کے ذریعے معاملات چلانا چاہتی ہے۔ جبکہ اپوزیشن متحد نہیں،کوئی واضح حکمت عملی بھی متعین نہیں جس سے حکومت کے لیے بڑا چیلنج درپیش ہو۔

(جاری ہے)

تاحال عوامی مسائل حل طلب ہیں۔نئے پاکستان میں دو سال تو صرف شور شرابے میں ہی گزر گئے۔وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کرونا میں بھاگے بھاگے آئے۔ شاید باقی بچ جائیں مگر شہباز شریف نہیں بچ سکتے۔ان کیخلاف منی لانڈرنگ کے دستاویزی ثبوت ہیں۔کورونا میں اپوزیشن نے خوشیاں منائیں۔اب یہ فیٹف پر بلیک میل کر رہے ہیں۔یہ اپوزیشن نہیں کرمنلز ہیں۔

ہمارا مقابلہ مافیاز سے ہے جو اپنے آپکو بچانا چاہتے ہیں۔این آر آو کسی صورت نہیں ملے گا۔ یہ حکومت کا بیانیہ ہے جس پر پانچ سال پورے کرنے کی پالیسی پر تبدیلی سرکار کاربند ہے۔
دوسری طرف اپوزیشن کی قیادت شہباز شریف کے پاس ہے اور وہ میڈیا کے سامنے یہ ذمہ داری بلاول بھٹو پر ڈال کر اس تاثر کو تقویت دیتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) حکومت کو چیلنج کرنے میں زیادہ سنجیدہ نہیں۔

نواز شریف اور شہباز شریف کی پالیسیاں الگ ہیں۔ اے پی سی کی باز گشت کئی ماہ سے سنائی دے رہی ہے۔بلآخر پی پی پی کی میزبانی میں 20 ستمبر کو آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد ہورہا ہے۔11اپوزیشن جماعتیں اے پی سی میں شریک ہوں گی۔مریم نواز مسلم لیگ ن کے وفد میں شامل نہیں ہونگی۔پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے ایک دوسرے کے خلاف تحفظات ہیں۔اعتماد کی کمی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی سندھ میں برسر اقتدار ہے اور وفاق کے ساتھ معاملات میں پی ٹی آئی کے ساتھ اختلافات ہیں۔حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اپنی اپنی صفوں میں اختلاف رائے کا سامنا ہے۔ اب اے پی سی کے بعد سیاست میں توجہ قومی اتفاق رائے سے قانون سازی اور عوامی فلاحی منصوبوں کی بجائے غیر ضروری امور پر مبذول ہو کر رہ جائے گی۔ اے پی سی سے قبل جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے حکومتی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق)کے سربراہ سے ملاقات کی۔

یہ ملاقات غیر سیاسی تھی اس ملاقات کے بعد مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ 20تاریخ کو اپوزیشن بیٹھ رہی ہے۔اپوزیشن نے طے کرنا ہے کہ انکا کتنا حلوہ کھانے کا موڈ ہے۔اپوزیشن نے طے نہ کیا تو سارا حلوہ حکمران ہی کھائیں گے۔
مولانا فضل الرحمن نے ازراہ مذاق اپوزیشن کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اپوزیشن نے یکجہتی کا مظاہرہ نہ کیا تو حکومت بھرپور فائدہ اٹھائے گی۔

جمعیت علماء اسلام کے مرکزی ترجمان حافظ حسین احمد نے بھی سیاسی صورتحال پر تبصرہ کیا جو اپوزیشن کے لیے لائن آف ایکشن ہے۔اس پر اپوزیشن عمل نہیں کرتی تو حلوہ تبدیلی سرکار کے حصہ میں ہی آئے گا۔حافظ حسین احمد ایک زیرک سیاستدان ہیں۔منفرد انداز تکلم کی وجہ سے انکی گہری باتیں ہلکی پھلکی محسوس ہوتی ہیں۔وہ سیاست میں مخالفین کی تضحیک اور جارحانہ انداز اختیار نہیں کرتے، سب کچھ آسان الفاظ میں کہہ جاتے ہیں۔

جامعہ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے نواز شریف کی واپسی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اب وقت آگیا ہے جب حالات کے تناظر میں نواز شریف کو فوری طور پر وطن واپس آناچائیے۔انہوں نے مزیدکہا کہ شریف خاندان کے اتحاد، ن لیگ کے اندر
 ہم آہنگی، فیصلہ کن انداز اور متحدہ اپوزیشن کی بقا اور موثر مشترکہ فیصلوں کے لیے ضروری ہے کہ اے پی سی کے انعقاد سے پہلے نواز شریف ملک میں ہوں۔

نواز شریف کی بیماری اور دیگر مسائل کے بارے ادراک کے باوجود ہم ایماندارانہ طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ اب ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ ہو یا موجودہ حکومت کے خلاف عملی تحریک اس کا فیصلہ لندن سے کسی ٹیلیفونک رابطے یا خط کے ذریعے ممکن نہیں۔
قارئین کرام! حلوہ تو حکومت کے حصہ میں ہی آئے گا۔ مولانا فضل الرحمن موجودہ حکومت کو تسلیم ہی نہیں کرتے جبکہ مسلم لیگ(ن) کے لیے اصل مسئلہ کیسسز ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کیسسز کی موجودگی میں اپوزیشن بننے کے لیے الگ کھڑی ہے۔ بلاول بھٹو سندھ کے حوالہ سے بھرپور آواز اٹھاتے ہیں مگر پنجاب کا سیاسی میدان انکے لیے ابھی ساز گار نہیں۔ منتشر اور اپنے اپنے اہداف کے حصول میں سرگرم اپوزیشن فی الحال کامیاب نہیں ہوسکتی۔حلوہ حکومت کھائے یا اپوزیشن عوام کیوں اپنے حقوق سے محروم رہے۔
جمہوریت اور عوام کی بہتری کے لیے ضروری ہے ملکی سیاسی قیادت سنجیدہ فکر کو اپنائے۔قائدین تدبر کا مظاہرہ کریں۔ وزیراعظم قوم کی رہنمائی کریں۔کرپشن کے فیصلے عدالتوں کو کرنے دیجئے۔ اچھی انتظامی کارکردگی اور سیاسی پختگی ہی وطن عزیز کے لیے بہتر ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :