سیاست اور مثبت رویے

منگل 8 دسمبر 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

ناممکن کو ممکن بننا ہی سیاست ہے۔
جمہوریت کا پہلا اصول ہے کہ دوسروں کی رائے کا احترام کیا جائے۔
قومی پالیسی کے لیے متفقہ رائے جمہوریت کی معراج ہے۔ اس معراج کو پانے کے لیے اپنی رائے اور حزب مخالف کی اختلافی رائے کو سامنے رکھ کر باہمی احترام کا رشتہ قائم کرکے منزل تشکیل دی جاتی ہے۔ سیاسی جماعت صرف اپنے ہم خیال ہی کیلیے نہیں بلکہ عوام کی بہتری، مستقبل اور حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہوتا ہے جہاں سے اجتماعی مفاد کے لیے کوششیں کی جاسکتی ہیں۔

مقصد ایک ہی ہوتا ہے حقوق کا تحفظ اور بہتر مستقبل, اس مقصد کے حصول کے لیے طریقہ کار پر اختلاف ہوسکتا ہے۔
مگر وہی سوچ اور طریقہ بہتر قرار پاتا ہے جسے عام آدمی شرف قبولیت بخشیں۔

(جاری ہے)

لیڈر شپ کی اہلیت جانچنے اور افکار کی پذیرائی کو پرکھنے کے لیے الیکشن ہی واحد طریقہ ہے۔الیکشن شفاف اور غیر جانبدار ہوں تو جمہوریت مضبوط ہوتی ہے۔
ایسا تب ہی ممکن ہے جب سیاسی لیڈر شپ ہار جیت کو اناء کا مسئلہ نہ بنائے۔

لیکن جب سوچ خواہشات کے تابع اور شخصیت میں خودنمائی کا عنصر غالب آجائے اور رہبر کہلوانے والے خودساختہ لیڈری کے جنون میں مبتلا ہوجائیں تو اجتماعی مفادبھی الزامات کی دھول میں چھپ جاتا ہے۔ حمایت نہ ملنے پر افکار پر ہی نہیں ذاتیات پر بھی حملے شروع ہوجاتے ہیں۔ جن کے پاس کہنے اور دکھانے کو کچھ نہ ہو وہ محض دھول اڑانا شروع کردیتے ہیں تاکہ سب کے چہرے دھندلے ہوجائیں۔

یہ جمہوریت پر یقین رکھنے والوں کا شیوہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اجتماعی مفاد کو ذاتی خواہش کی بھینٹ چڑھانے والے اپنی کیمونٹی سے مخلص نہیں ہوسکتے۔ ایسے کرداروں کے خلاف ہر سطح سے ہی مزاحمت سامنے آنی چاہئیے۔ اختلاف رائے نظریات سے ہو تو مناسب ہے لیکن ذاتیات پر فقرہ بازی سے صرف ذہنی پستی کی نشاندہی ہوتی ہے۔ اپنی ذات کو کسی کے ساتھ نتھی کرکے تالیاں بجانے یا حصہ دار بن کر اجتماعی ماحول کو خراب کرنے سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے۔


ستائشی یا فرمائشی پروگرام اور ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لیے تفریق پیدا کرنا ہرگز مناسب نہیں خود پرستی کی خواہش بت پرستی سے بھی خطرناک سوچ ہے اس کی ہر سطح پر نفی ہونی چائیے۔ جسے اکثریت کی حمایت حاصل ہو صرف وہی قیادت کے لیے سامنے آئے۔ الیکشن میں تاخیر اور نتائج میں رودبدل کی کوششیں شرمناک فعل ہے۔ اجتماعی ماحول کو بہتر بنانا سب کی ذمہ داری ہے۔

اس ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ذاتیات پر بات کرنے والے کرداروں کا محاسبہ ضروری ہے۔اچھا سوچیں اچھا بولیں کیونکہ بدگمانی اور بدزبانی دو ایسے عیب ہیں جو انسان کے ہر کمال کو زوال میں بدل دیتے ہیں۔ اس خوبصورت بات پر عمل کرنے اور اسکو فروغ دینے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ محبت اور باہمی احترام کو فروغ دیں۔
قارئین کرام! شومئی قسمت آج پاکستان کی سیاست بند گلی میں داخل ہوچکی ہے۔

پی ٹی آئی کی قیادت ہی نہیں عام ووٹر بھی یہی سوچ رکھتا
 ہے کہ حکومت مخالف تمام جماعتیں کرپٹ ہیں۔روز اول سے ہی وزیراعظم عمران خان تواتر سے یہ بات کرتے آرہے ہیں کہ این آر او نہیں دونگا۔ اپوزیشن نے بہت سے مواقع پر تعاون کا عندیہ دیا ہر بار اسے اپوزیشن کی کمزوری سمجھا گیا۔ مذاکرات کو این آر او سے جوڑنے اور نہیں چھوڑوں گا جیسے بیانات نے تلخی کم ہونے ہی نہیں دی۔

اپوزیشن کرپٹ ہے یا ایماندار اس کا فیصلہ اگر عدالتیں کرتیں تو بہتر تھا۔ سیاسی اختلاف کو لڑائی میں بدل دیاگیا اب اپوزیشن بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے لیے تیار ہے۔ اپوزیشن عمران خان کو چھوڑنے پر تیار نہیں۔ اپوزیشن قیادت کا جیل جانا صرف عدالتی فیصلوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ دوسری اہم بات احتساب پر انتقام کا تاثر بہت ہی تکلیف دہ صورتحال ہے۔

اب خواہش ہی کی جاسکتی ہے کہ کوئی کرپٹ نہ بچے اورعدالتی فیصلوں کو عوامی حمایت بھی حاصل ہو۔ پی ٹی آئی کی قیادت اور ووٹرز کے مطمئن ہونے سے کچھ بہتر ہونے والا نہیں۔ اپوزیشن اگر احتجاج سے حکومت کو رخصت کرنے میں کامیاب ہوبھی جائے تو یہ کھیل ختم ہونے والا نہیں۔سیاسی عدم استحکام جمہوریت کے لیے بہتر نہیں۔
سیاسی بصیرت اور حکمت تو وہ تھی جسکا مظاہرہ کرتے ہوئے آصف علی زرداری نے پرویز مشرف کوچلتا کیا۔

مفاہمت اور برداشت سے ہی دو سابقہ حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ احتجاج، تشدد اور جلاوگھیراو جیسی صورتحال پیدا کرنا آسان ہے لیکن نتائج کے بارے حتمی رائے کوئی نہیں دے سکتا۔پاکستان جن مسائل کا سامنا کررہا ہے اسکی اصل وجہ اقتصادی نہیں اخلاقی ہے۔ یہ خود غرضی ہی ہے جو ایک دوسرے کو برداشت نہیں کیا جاتا۔
ملک میں اقتصادی بحران اورکورونا سے انسانی جانوں کوشدید خطرات لاحق ہیں۔

ایسی میں میدان سیاست میں گرماگرمی سے طبل جنگ بج چکا ہے۔ یہ صرف گمان ہی نہیں بلکہ اب یقین کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ صرف اور صرف اپنے مفادات ہی اہم ہیں۔ قومی مفادات یکسر نظر انداز ہیں۔ سیاسی قیادت دوراندیشی کا مظاہرہ کرنے پر تیار نہیں۔ اپوزیشن کو عمران خان این آراو نہ دیں عوام اور جمہوریت کو تو این آراو دے دیں۔ سیاست میں برداشت کے کلچر کو فروغ دیں اورکرپشن کا فیصلہ عدالتوں پر چھوڑ دیں۔ اپوزیشن عمران خان کو بھلے نہ چھوڑے پر عوام کو کورونا سے محفوظ رکھنے میں اپنا کردار تو ادا کرے۔ اقتدار تو آنی جانی شے ہے۔ جمہوریت ہے تو سیاست ہے۔نفرت، انتقام اور عدم برداشت یہ رویے سیاست میں نہیں چل سکتے۔صرف مثبت رویے کامیابی کی ضمانت ہوتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :