''فقط باتیں اندھیروں کی فقط قصے اجالوں کے''

ہفتہ 13 فروری 2021

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

وزیراعظم عمران خان نے سینٹ الیکشن 2018ء میں ووٹوں کی مبینہ خریدو فروخت سے متعلق ویڈیو کی پارٹی سطح پر تحقیقات کے لییکمیٹی قائم کردی ہے۔ عمران خان کی جانب سے بنائی گئی تین رکنی کمیٹی میں فواد چوہدری،شہزاد اکبر اور ڈاکٹر شیریں مزاری شامل ہیں۔کمیٹی ویڈیو سکینڈل کے تمام امور کی تحقیقات کریگی۔کمیٹی تحقیقات کرکے اپنی سفارشات وزیراعظم کو پیش کرے گی۔

معاون خصوصی برائے اطلاعات پنجاب ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کاکہنا ہے کہ خود احتسابی تحریک انصاف کاخاصہ ہے۔ سینٹ الیکشن میں خرید وفروخت کے حوالہ سے اپنے 20اراکین کے خلاف کاروائی کا ذکر بھی پی ٹی آئی کے رہنما بطور خاص کرتے ہیں۔ ''صاف چلی شفاف چلی دیکھو تحریک انصاف چلی'' کے نعرے پہلے تو بہت گونجتے تھے مگر حکومت میں آنے کے بعد یہ آواز مدہم ہوگی۔

(جاری ہے)

ادھر ادھر سے کثیر تعدادمیں سیاسی شخصیات کو پی ٹی آئی میں جمع کرکے موجودہ پارٹی مکمل ہوئی جو آج برسراقتدار ہے۔
چیرمین تحریک انصاف عمران خان نے بطور سیاست دان بیانات کی حد تک ہمیشہ بہت بلند اخلاقی معیار عوام کے سامنے پیش کیا۔ابن الوقت سیاستدانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انٹرا پارٹی الیکشن کی کوشش کی۔ مگر پارٹی الیکشن میں پیسے کے استعمال کو روکنے میں ناکام رہے۔

جسٹس وجیہہ الدین کی سفارشات پر عملی طور پر کچھ نہیں کرسکے۔پارٹی پر ابن الوقت شخصیات کا قبضہ ہوگیا۔انقلاب کی داعی پی ٹی آئی ایک روایتی پارٹی کے طور پر ہی برسر اقتدار آئی۔حکومت سازی کے وقت جہانگیر ترین کے جہاز اور پیسے کے استعمال پر خوب تنقید ہوئی مگر معاملات ایسے ہی آگے بڑھتے رہے۔
ایم این اے اور ایم پی ایز کو ترقیاتی فنڈز کیاجراء کو سیاسی رشوت قرار دینے والے عمران خان 2021ء میں سینٹ الیکشن سے قبل ترقیاتی فنڈز دینے پر مجبور دکھائی دیے۔

بہت سے معاملات میں اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے پر اپوزیشن نے یوٹرن کی اصطلاح ان کے لیے استعمال کرنا شروع کردی۔ عمران خان نے یوٹرن کو کامیابی کی کلید قرار دیامگر مفاہمت اور ڈائیلاگ کو کبھی اہمیت نہیں دی۔حکومت میں آنے کے بعد بھی اندازسیاست،مخالفین پر الزام تراشی اورسیاسی تقسیم کو اپنے لیے ضروری سمجھا۔پی ٹی آئی کی حکومت آج بھی اسی طرز سیاست پر عمل پیرا ہے۔

سینٹ الیکشن کے طریقہ کار میں تبدیلی کی خواہش ہو یا کسی بھی قومی مسئلہ پر اتفاق رائے اس کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش حکومت کی طرف سے دیکھنے میں نہیں آئی۔
قارئین کرام! پی ڈی ایم کی تشکیل، سیاسی منظر نامہ میں احتجاجی سیاست کاآغاز، تندو تیز بیانات اور سیاسی کشیدگی کیماحول کی تشکیل میں عمران خان کے سیاسی طرز عمل کا کلیدی کردار ہے۔اپوزیشن پرالزامات اور بھرپور جوابی حکمت عملی پی ٹی آئی کا خاصہ ہے۔

عمران خان صرف فرنٹ فٹ پر کھیلنے کے خواہش مند ہیں۔
موجودہ سیاست سینٹ الیکشن کے گرد گھوم رہی ہے۔اب عمران خان کو اس حقیقت کا ادراک ہو چکا ہے کہ عوامی حمایت میں نمایاں کمی کے ساتھ آصف علی زرداری کی مفاہمت کی سیاست سینٹ الیکشن میں کچھ بھی نتائج لاسکتی ہے۔جو حکومت کے لیے پریشانی کا سبب بن سکتے ہیں۔
 سینٹ میں کامیابی قانون سازی کے لیے ضروری ہے۔

عمران خان سیاست کو سیاسی انداز سے نہیں خود فریبی کا شکار ہوکر محض اپنی خواہش کے مطابق چلانا چاہتے ہیں۔ گزشتہ ڈھائی تین سال میں بہت کچھ عیاں ہوا۔ایک شعر میں تبدیلی سرکار کو بیان کیا جائے تو کچھ یوں ہے۔
فقط باتیں اندھیروں کی فقط قصے اجالوں کے
چراغ آرزو لے کر۔۔۔۔۔نہ تم نکلے نہ ہم نکلے
 پی ٹی آئی میں خود احتسابی باتوں کی حد تک ہے حقیقت میں خود فریبی کا شکار ہے۔

عام آدمی کے لیے ریلیف نہیں۔ پی ٹی آئی کے اراکین خود حلقوں میں عوام کو مطمئن کرنے میں ناکام ہیں۔مہنگائی، ترقیاتی کاموں کی بندش سب کچھ پی ٹی آئی کے خلاف ماحول سازی کررہا ہے۔ نوازشریف سزا کے باوجود بیرون ملک چلے گئے۔ آصف علی زرداری کی کنفرم ضمانت ہوگء۔ پی ٹی آئی کے الزامات ابھی تک صرف الزامات ہی ہیں۔
سینٹ الیکشن ایک پزل کی طرح کا کھیل ہے یہاں ترجیحات کی لسٹ نتائج بدل دیتی ہے۔

محض خرید وفروخت کی باتیں کرکے الیکشن نہیں جیتا جاسکتا۔ اعظم سواتی جیسے کردار سینٹ میں پی ٹی آئی کے نمائندہ ہوں تو سیاسی وابستگی پر دولت ہی کی فتح ہے۔ سب سے بڑھ کر سینٹ الیکشن کے طریقہ کار کے لیے حکومت نے قانون سازی کی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی۔ اب عین الیکشن کے وقت صدارتی آرڈیننس کا اجراء اور عدلیہ سے رہنمائی لینے جیسے فیصلے سیاسی نہیں۔

یہی پی ٹی آئی کی سیاسی کمزوری ہے۔سیاست میں کامیابی اور کامیابی سیحکومت چلانا دوالگ باتیں ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت میں تو آگئی حکومت چلانے میں کامیاب نہیں۔سائے جب قد سے بڑے ہونے لگے تو غروب آفتاب کی نشانی ہے۔ پی ٹی آئی کے دعووں اور حقیقتوں میں کچھ اسی طرح کا فرق محسوس ہوتا ہے۔سینٹ الیکشن کے نتائج آئندہ کے سیاسی منظر کو واضح کردیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :