''ٹائیگر فورس سراپا احتجاج''

پیر 15 فروری 2021

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

وزیراعظم عمران خان نے تبدیلی کے نعرہ کو عملی جامع پہنانے کے لیے منتخب عوامی نمائندوں اور ٹکٹ ہولڈرز کی معاونت کے لیے ٹائیگر فورس تشکیل دی۔ ٹائیگر فورس کی بنیادی ذمہ داری مسائل کی نشاندہی کرنا ہے۔
ہماری سیاست کا المیہ ہے کہ عوامی نمائندے جب گلی محلوں سے نکل کر ایوان اقتدار تک پہنچ جاتے ہیں تو عام آدمی کی آواز سے انکی سماعت تک متاثر نہیں ہوتی-''All is well''
بس یہی فقرہ سنتے ہیں۔

اس کے علاوہ کوئی کچھ کہے تو ناگوار گزرتا ہے۔حالات کا ادراک تب ہوتا ہے جب اقتدار کے خاتمہ کا وقت قریب آتا ہے۔پھر خوشی اور غمی میں سب شریک دکھائی دیتے ہیں۔اپنا پن اور غریب کا درد سب کی زبانوں پر ہوتا ہے۔یہی وہ وقت ہوتا ہے جب سیاسی پنچھی نئے شجر سایہ دار کا رخ کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

اسلام آباداور صوبائی دارالحکومتوں میں موجود نمائندے اقتدار کے تبدیل ہونے سے پہلے نیا فیصلہ کرکے ہی اپنے حلقوں کو لوٹتے ہیں۔


طفل تسلیوں اور الزامات کی سیاست گزشتہ ڈھائی سال سے جاری ہے۔ غربت مہنگائی اور بے روزگاری سے عام آدمی پریشان ہے۔ پی ٹی آئی کی سیاست الزامات کے قصوں اور بہتری کی آس پر ہی قائم ہے۔عام آدمی تو مسائل سے لڑتا آرہا ہے، نوجوان طبقہ کو عمران خان کی صورت میں امید کی کرن نظر آئی تھی۔ یہ نوجوان طبقہ ہی پی ٹی آئی کا اثاثہ ہے مگر سب سے پہلے روایتی سیاست دانوں نے پی ٹی آئی کا رخ کیا اور ٹکٹ حاصل کرکے اسمبلیوں میں پہنچ گئے۔

ان الیکٹیبلز کو عمران خان کے ٹائیگرز کو برداشت کرنا پڑا۔ اقتدار کے لیے اسے سیاسی مصلحت کے طور پر قبول کیا گیا۔
سیاست ایک جہد مسلسل کا نام ہے۔کارکن اپنے لیڈر اور پارٹی کے لیے کام کرتا ہے جبکہ سیاست کو اقتدار کی سیڑھی سمجھنے والے نمائندے صرف پارٹی کا ساتھ تب تک دیتے ہیں جب تک اقتدار قائم ہے۔ اس کے بعد نیا فیصلہ، نئی پارٹی نیا عہدہ یہ ہماری سیاست کی قابل افسوس روایت ہے۔


پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے اور عمران خان کے ٹائیگرز پاکستان کی سیاست کی ایسی قوت ہیں جو قیادت کے سامنے اپنا موقف بیان کرنے میں مصلحت کا شکار نہیں ہوتے۔ بلوچستان سے بزنس مین عبدالقادر کو سینٹ کی ٹکٹ ملنے پر ردعمل سامنے آیا تو قیادت کو فیصلہ تبدیل کرنا پڑا۔
قارئین کرام! گزشتہ ایک سال سے اوکاڑہ شہر کی صفائی ستھرائی کی صورتحال ابتر ہے۔

سیوریج کا گندہ پانی سڑکوں اور گلیوں میں کھڑا ہے۔ کوڑا کرکٹ جابجا، سڑکیں مخدوش، کراچی کے کوڑے پر سیاست کرنے والی پی ٹی آئی کی قیادت خاموش ہے۔ افسر شاہی فنڈز کی عدم
 دستیابی کو جواز بناکر بری الزمہ، قصور وار کون۔۔۔۔؟ یہ سوال اہم ہے۔
چند روز قبل صوبائی وزیر سید صمصام بخاری اوکاڑہ میں کھڑے ہیلتھ کارڈ کی افادیت بیان کررہے تھے تو ایک صحافی نے انکی توجہ بیماریوں کے پھیلاو کا سبب بننے والی صفائی کی ابتر صورت حال کی جانب مبذول کروائی۔

یہ سوال انہیں ناگوار گزرا۔ جواب تھا قلم آپکا ہے ضرور لکھیں۔ خلاف لکھیں آپکی مرضی- عوامی مسائل سے بے نیازی اور بے پروائی راقم الحروف سمجھ سکتا ہے۔ پی پی پی کی حکومت میں وزیر مملکت برائے اطلاعات کا قلم دان انکے شایان شان تھا۔ پی ٹی آئی کی حکومت میں صوبائی وزارت انکے لیے مختص تھی۔ مستقبل میں بھی حکومت کوئی بھی ہو اقتدار میں شراکت داری وہ خوب جانتے ہیں۔


نئی حکومت میں بھی جھنڈے والی گاڑی انکے لیے تیار کھڑی ہوگی۔
ایسا گمان ہے تو یہ کچھ غلط بھی نہیں ماضی انہیں سیاسی روایات کا امین ہے۔ لیکن زمینی حقائق توکچھ اور ہی بتا رہے ہیں۔ جس سوال پر وزیر موصوف برہم ہوئے اسی ایشو کو لے کر ٹائیگر فورس اوکاڑہ پریس کلب کے باہر سراپا احتجاج ہے۔ آج یہ احتجاج ڈسٹرکٹ انتظامیہ اور میونسپل کارپوریشن کے خلاف ہوا۔

ٹائیگر فورس نے اوکاڑہ کے عوام کی آواز میں آواز ملائی یہ عمل قابل تعریف ہے۔ صوبائی وزیر تو التجا سننے کے بھی روادار نہیں۔ ٹائیگر فورس کے جوانوں کو راقم الحروف کا مشورہ ہے کہ اگر انتظامیہ شہر کے معاملات پر توجہ نہیں دیتی تو یہ احتجاج پریس کلب کے سامنے کرنے کے علاوہ وزیر موصوف کے سامنے بھی کیا جائے۔ احتجاج کی خبریں ان کے نزدیک اہمیت نہیں رکھتیں کیونکہ وہ خود کہتے ہیں جو مرضی لکھیں۔ اپنے مسائل وزیر اعلی عثمان بزدار کے سامنے رکھیں۔ عمران خان کی پارٹی کی بہتری کے لئے صوباِئی حکومت کو اصلاح احوال پر مجبور کریں۔ صوبائی وزیر کو تو اقتدار دوبارہ بھی مل جائے گا لیکن عوامی مسائل کم نہ ہونے کی صورت میں آپ کو اور پی ٹی آئی کو دوبارہ موقع نہیں ملے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :