بدلتی دنیا اور بہترخارجہ پالیسی

منگل 22 جون 2021

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے امریکہ کو افغانستان میں کسی بھی کاروائی کے لیے سہولت دینے سے صاف انکار کر دیا ہے۔امریکی ٹیلی وژن کو انٹرویو میں انہوں نے کہا ہم پاکستانی سر زمین سے افغانستان میں کسی کاروائی یا اڈے بنانے کی ہرگز اجازت نہیں دینگے۔افغانستان کے حوالہ سے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ باہمی دلچسپی کے تمام شعبوں میں دو طرفہ تعاون کے فروغ کا متمنی ہے۔

افغانستان میں امن کی سمت آگے بڑھنے کاواحد راستہ افغان گروپس کے درمیان مفاہمت، بقائے باہمی اور بات چیت ہے۔اسلام آباد کا پڑوسی ملک کے بارے نقطہ نظر بدل گیا ہے۔ہم اس مستقبل کے انتظام کی حمایت کرتے ہیں جو تمام افغانوں کے لیے قابل قبول ہے۔

(جاری ہے)

افغانوں کو ایک دوسرے کو قبول کرنا ہوگا۔افغانستان میں ہونے والی محاذ آرائی کا پاکستان ذمہ دار نہیں۔


قارئین کرام! کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی ایک نہایت سنجیدہ، اہم اور ذمہ دارانہ فیصلہ سازی ہوتی ہے جو اندرون ملک ہی نہیں خطہ کے لیے مستقبل کا تعین کرتی ہے۔یقین اور بھروسہ اپنی جگہ ماضی کی غلطیوں کا اعتراف اور بہتر مستقبل کے لیے منزل کا تعین سب سے اہم ہے۔ اس کے لیے ملکی سطح پر اتفاق رائے اور پالیسی کا تسلسل ضروری ہے۔
ایک انکار یا للکار جذبات کی تسکین کے لیے تو کافی ہوسکتا ہے لیکن عملی اقدامات اور اعتماد سازی کے بغیرحاصل جمع کچھ نہیں۔

افغانستان پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ہمیشہ اہم رہا ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی کے معمار ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی پروگرام شروع کرنے اور اس پر عمل پیرا رہنے کے لیے امریکہ کو صاف انکار کیا تھا۔ تاریخ گواہ ہے اس انکار کی سزا بھٹو کو بھگتنی پڑی۔اسی انکار کی وجہ سے بھٹو کا اقتدار ختم ہوا انکاخاکی وجود نہ رہا لیکن پاکستان کا دفاع ضرور مضبوط ہوگیا۔

اس مضبوط دفاع کے باوجود ضیاء الحق کی غلط خارجہ پالیسی کے نتیجہ میں لاکھوں انسان جان سے گئے۔اسی طرح پرویز مشرف کی ایک ہاں نے پاکستان کو نئی جنگ میں دھکیل دیا۔
افغان بدامنی کے نتیجہ میں صرف افغانستان کے باشندوں کی قیمتی انسانی جانیں ضائع نہیں ہوئیں پوری دنیا پر اسکے اثرات ہوئے۔نام نہاد افغان جہاد نے امریکہ کو واحد سپر پاور بنا دیا۔

سویت یونین تحلیل ہوگیا۔سنٹرل ایشیاء، پاکستان تمام ممالک افغان جنگ سے متاثر ہوئے۔آج بھی اس خطہ میں ترقی کے سفر میں سب سے بڑی رکاوٹ افغانستان کا عدم استحکام ہے۔صرف اور صرف مضبوط افغانستان تمام ممالک کے لیے اہم ہے۔امن برائے ترقی واحد راستہ ہے اس پرعمل پیرا ہوکر ہی خطہ کی قسمت بدلی جاسکتی ہے۔
خارجہ پالیسی آئندہ نسلوں کو متاثر کرتی ہے اسکے لیے صرف جذبات نہیں فہم و فراست کا ہونا ضروری ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کے اقتدار کے خاتمہ کے بارے پیش گوئی کی تھی اس پر ایک کتاب موجود ہے ''بھٹو کی سیاسی پیشین گوئیاں'' اس میں بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کے اقتدار کو افغان جنگ کے خاتمہ سے مشروط کیا۔ دیوار برلن کے ٹوٹ جانے کی بات کی۔ انکی تمام پیشین گوئیاں درست ثابت ہوئیں۔یہ حقیتیں بھٹو پر صرف اور صرف امریکہ کی خارجہ پالیسی کی وجہ سے ہی آشکار ہوئیں۔


بدلتی دنیا میں بہترین خارجہ پالیسی باہمی اتفاق سے ہی اپنائی جاسکتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی قیادت پر سوال نہیں لیکن ان کا طرز عمل اور حکومت کرنے کا انداز ضرور زیر بحث لایا جانا چاہئے۔ سیاسی قیادت کو پارلیمان کے اندر متحد کرکے خارجہ پالیسی کو وضع کرنا ضروری ہے تاکہ تسلسل رہے کوئی بھی نئی حکومت ناکامی پر سابقہ حکمرانوں پر تنقید نہ کر سکے۔

ملک کی خارجہ پالیسی ملکی سیاسی قیادت تشکیل دے ناں کہ برسراقتدار جماعت فیصلہ سازی کرے اور بیانات و اعلانات کی حد تک انکار اور للکار پر جذبات سے کھیلتی رہے۔
ملکی سیاست میں موجود اختلاف کی حدت اور شدت خارجہ پالیسی میں نظر نہیں آنی چاہئے۔ ضیاء الحق کی سوچ کو درست ماننے والے اور مشرف کے طرف دار،بھٹو کے حمایتی ہوں یا مخالف اب باہم مل کر پاکستان کا سوچیں۔

اب ایسی غلطیوں کی گنجائش نہیں ایک حکومت شمسی ائیر بیس امریکہ کو دے اور آصف علی زرداری امریکہ سے خالی کروائے۔یہ حکومت کے ساتھ یکسر بدلتی پالیسی مناسب نہیں۔نقطہ نظر مختلف ہوسکتا ہے مگر طرز عمل ایک سا ہونا چاہئے۔ اختلاف سیاست کی حد تک درست لیکن خارجہ پالیسی پارلیمان میں تشکیل ہونی چاہئے۔ بس یہی وقت کا تقاضہ ہے۔امریکہ کو انکار صرف آدھی بات ہے باہمی اتفاق رائے پر اصرار مکمل اور جامع پالیسی ہونی چاہئے۔


افغانستان میں غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد کیا ہو سکتا ہے اور اس کے کیا اثرات افغانستان اور پڑوسی ممالک پر پڑ سکتے ہیں، یہ جانچنے کے لیے پہلے افغانستان کی صورتحال کا جائزہ لینا ضروری ہے
افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد جنگ سے متاثرہ اس ملک کے مستقبل کے بارے میں افغانستان کے اندر اور عالمی سطح پر یہ خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ کیا ایک مرتبہ پھر افغانستان میں نوے کی دہائی جیسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس سے بچنے کے لیے افغانستان اور پاکستان دونوں ممالک میں اندرونی سطح پر اور دوطرفہ اتفاق رائے کا ہونا لازم ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :