بھارت ٹوٹ جائے گا

منگل 24 اگست 2021

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

علم اعداد یا دیگر علوم کے حوالہ سے افراد کے حالات یا واقعات کے رونما ہونے پر اسرار ہونے کا یقین مختلف شکلوں میں دنیا بھر میں کیا جاتا ہے۔ اس حوالہ سے علم نجوم، علم الاعداد، الہامی فنون اور دیگر علوم کو اہمیت حاصل رہی۔ماضی قدیم سے دور جدید تک ناموں اور عددی اثرات کو استعمال کیا جاتا ہے۔آج بھی نام، تاریخ، ستاروں کی چال کیاثرات، نتائج اور پیشگوئیوں کے باقاعدہ علم سے استفادہ کی روایت برقرار ہے۔

بھارت میں تو اس حوالہ سے خاص طور پر تمام عوامل کو مدنظر رکھ کر فیصلہ سازی ہوتی ہے۔
1947میں جب برٹش ہندوستان میں دو آزاد ریاستیں ایک ساتھ وجود میں آئیں تو ہندوستان کے یوم آزادی کے لیے ایک دن بعد 15اگست مقرر ہوا۔ اس فیصلہ کے پیچھے کچھ ایسے ہی عوامل کارفرما تھے۔

(جاری ہے)

آج 2021کو بیرون ملک مقیم بھارتی دانشور سوسوآئین نے ایک دفعہ پھر 15اگست کو بھارت کے لیے خصوصی اہمیت کا حامل قرار دیا۔

انہوں نے کہا 15اگست کو بھارت وجود میں آیا۔15اگست 1975کو بھارت کے دوست بنگلہ دیش کے شیخ مجیب الرحمن قتل کردیے گئے۔ 2021کو اسی دن بھارت کے ایک اور دوست افغانستان کے صدر اشرف غنی کو معزول کرکے ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔لگتا ہے کوئی بڑے محتاط طریقہ سے تاریخوں کا انتخاب کر رہا ہے۔ علم اعداد ایک عدد یا ایک سے زیادہ اتفاقی واقعات کے درمیان صوفیانہ عقیدہ ہے۔

یہ الفاظ،نام اور خیالات میں حروف کی عددی قدر کا مطالعہ ہے۔ یہ اکثر غیر معمولی کے ساتھ منسلک ہوتا ہے۔مسیحی عقائد میں بھی ایسی سوچ موجود ہے۔ مسیحی تعلیمات کے ماننے والوں کے نزدیک3اور7مضبوط روحانی معنی رکھتے ہیں۔عدد7دنیا کی تخلیق 7دن میں ہونے کے حوالہ سے اور 7 قحط اورخدا کی طرف سے دیگر واقعات کی وجہ سے اہم ہے۔ 3کا حوالہ یسوع کا خداسے3بارپوچھنا کہ وہ مصلوب ہونے سے بچ سکتا ہے اور سہ پہر 3بجے مصلوب کیا جانا ہے۔


قارئین کرام! راقم الحروف کااس کالم میں ان علوم اور عقائد پر یقین رکھنے یا رد کرنے پر دلیل یا حوالہ مطمع نظر نہیں۔ ہم نے صرف ان علوم کے ماضی اور حال کے حوالہ سے مستقبل کو موضوع بنایا ہے۔پاکستان سے تعلق رکھنے والیبین الاقوامی شہرت یافتہ نمریالوجسٹ آفاق منظر کا بھارت کے حوالہ سے کہنا ہے کہ بھارت کی پیدایش 15 اگست 1947 ہے۔ بھارت کو مذید 2 ناموں سے دنیا جانتی ہے 1_انڈیا2_ہندوستان اگر علمی حوالہ سے اس بات کا جائزہ لیں تو یہ بات عیاں ہے کہ بھارت یا ہندوستان کے نام سے صرف برصغیر میں لکھا یا پکارا جاتا ہے جبکہ باقی ساری دنیا میں انڈیا کے نام سے لکھا یا پکارا جاتا ہے یعنی تقریباً 203 ممالک میں جس وجہ سے انڈیا کو اپنے نام اور اپنی ڈیٹ آف برتھ کی وجہ سے شروع میں تو پزیرائی میسّر آتی رہے گی مگر جیسے جیسے وقت گزرتا رہے گا اس کو پزیرائی ملنے کا دورانیہ کم سے کم ہوتا چلا جائے گا اور انجام کار سوائی ذلت کے اور کچھ نہیں اور اگر انڈیا کے اندرونی معاملات کا علمی جائزہ لیں تو برصغیر میں انڈیا کو بھارت بولنے اور لکھنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے جو انڈیا کی تعمیر و ترقی میں بھرپور رکاوٹ کا سبب ہیں کیونکہ انڈیا کی ڈیٹ آف برتھ کے حوالہ سے جو نام تجویز کیا گیا وہ انڈیا ہی تھا مگر دوسرے دو ناموں کی وجہ سے بھارت کے اندر سے تحاریکیں اور سازشیں اور ہندو توا کے نظریات کو پھیلانے یا پھیلنے کی شازشوں کو سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھایا گیا یہ سب کچھ اس عمل یعنی ڈیٹ آف برتھ اور ناموں کی علمی اثرات ہی وجہ سے ہے اور یہی علمی اثرات مقبوضہ کشمیر میں مکمل قابض ہونے کے بعد نظر آتے ہیں۔

میں ایک نمریالوجی کے طالبِِ علم ہونے کی حثیت سے یہ کہہ سکتا ہوں کے آنے والے دور میں بھارت کو مزید تحاریک اور مشکلات کا سامنا رہے گا جس کی وجہ سے اور ہندو توا کے بنیاد پرست نظریات کی موجودگی میں بھارت کو اپنا وجود برقرار رکھنا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔
علم الاعداد اور حسابی عمل کے ساتھ سیاسی اور معاشی حالت سے بھی سب کچھ عیاں ہو رہا ہے کہ بھارت کے للیے حالات سازگار نہیں۔

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں انتہا پسند نظریات غالب آتے جا رہے ہیں۔گاندھی کو نریندرمودی کی سوچ نے شکست دے دی۔ پاکستان انتہا پسند، شدت پسند نظریات سے نکل رہا ہے جبکہ بھارت مکمل طور پر اس تباہ کن سوچ کو اپنائے ہوئے ہے۔ خطہ میں ہونے والی تبدیلیوں اور روس، چین کا کرادار بھارت کے لیے مشکلات میں اضافہ کا باعث بنے گا۔ امریکہ کے زوال سے پہلے بھارت کی تقسیم ہوجائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :