روسی جھکاؤ

ہفتہ 17 اپریل 2021

Sami Ullah

سمیع اللہ

روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے حال ہی میں پاکستان کا دو رزہ مختصر  دورہ کیا ۔اس دورے میں وہ وزیر اعظم پاکستان، وزیر خارجہ اور آرمی چیف سے ملے۔اپنے سرکاری دورے کے دوران انہوں نے روس کی جانب سے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد، پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات میں مزید بہتری اور اعتماد کی فضا پیدا کرنے اور دفاعی تعلقات بڑھانے ، پاکستان کو دفاعی لحاظ سے مکمل مدد اور بری اور بحری جنگی مشقوں میں حصہ لینے پر زور دیا  ہے ۔

یہ دورہ پاک روس تعلقات میں مزید گرم جوشی اور ایک نئی جہت پید ا کرنے کے مترادف ہے۔اس دورے کی خاص بات یہ کہ سرگئی لاروف نے  صدر پیوٹن کا پیغام پہنچایا کہ روس پاکستان کی ہر قسم کی مدد کیلئے تیار ہے ۔ یہ پیغام  پاک روس تعلقات میں ایک ایسی نئی  پیش رفت ہے جس کو عام انداز میں نہیں لیا جاسکتا۔

(جاری ہے)

یہ دورہ پاکستان کے خارجہ امور کیلئے ایک نیا باب ثابت ہوگا۔


یہ دورہ ایک ایسے وقت میں کیاگیا ہے کہ جب امریکی انتظامیہ نے افغانستان کے متعلق اپنی پالیسی کو تھوڑی بہت وضاحت کے ساتھ دنیا کے سامنے رکھا ہے۔امریکہ نے افغانستان سے انخلا کیلئے رواں برس مئی کا عندیہ دیا ہے۔روس پاکستان کے مخصوص محل وقوع  اور جغرافیائی  اہمیت سے اچھی طرح واقف ہے۔امریکہ اور چائنہ بھی ملک خداد کی جیو پولیٹیکل پوزیشن سے کبھی ناآشنا نہیں رہے۔

ماضی میں امریکہ روس کو افغانستان میں قدم جمانے اور گرم پانیوں کی رسائی سےپاکستانی مدد کے ساتھ نکال چکا ہے۔اور اس جہادی مشن پر امریکہ نے  پاکستان کی کھل کر مددکی جبکہ  سعودی عرب نے بھی اپنا نظریاتی حصہ ڈالا ۔روس کو افغانستان سے نکلنے پر بہت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ۔بعد ازاںسویت یونین وسطی ایشیائی ممالک سے سکڑ کر صرف روس تک محدود ہوکر رہ گیا۔


امریکہ اور روس دونوں  کیلئے افغانستان بہت اہم ہے۔ پاکستان کے وجود سے پہلےبھی روس اور تاج برطانیہ افغان سرزمین کیلئےایک عرصہ تک رسہ کشی کرتے رہے ہیں۔ان کی اس جغرافیائی جنگ کو اس وقت کے ماہرین نے گریٹ گیم کا نام دیا۔ برطانیہ سویت یونین کی بڑھتی ہوئی جغرافیائی حدود سے خاصہ پریشان تھا۔سویت یونین ازخود اور   ایران کے ذریعے افغانستا ن میں متعدد بار داخل ہوا اور نکلا۔

انگلستان کی کامیاب سفارت کاری اورموثر ڈائیلاگ سے سویت یونین افغانستان  میں جارحیت سے باز آگیا اورافغانستان کو دونوں ملکوں نے ایک بفر زون بنادیا  اور پاکستان کی آزادی تک سویت یونین کی افغانستان میں پیش قدمی بظاہر رک گئی۔پاکستان کا قیام چونکہ روس امریکہ سرد جنگ کے دوران ہوا تھا تو سب سے پہلے روس نے پاکستانی وزیر اعظم کو اپنے ملک کے دورے کی دعوت دی۔

 
 پاکستان اور روس کے تعلقات کی تاریخ اتار چڑھاو کا شکار ہے۔ 1947 تا 1950 پاک روس تعلقات معمول کے مطابق تھے  لیکن بعدا زاں فوجی حکومت میں یہ خراب ہوتے چلے گئے۔دوران سرد جنگ1960 میں جب پاکستان سے اڑان بھرنے والے یو ایس جاسوس طیارے کو روس نے اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی اور تصویریں بنانے پر میزائل سے مار گرایا تو   رد عمل کے طور پر پاکستان کو سخت روسی جارحیت  کا سامنا  کرنا پڑا ۔

اور ویسے بھی روس نے پاکستان کے خلاف بھارت کی ہر مہاذ پر  کھل کر سفارتی مدد کی ۔اس واقع کی جھلک  ایک مشہور فلم "برج اف سپائز" میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔  پاکستان امریکی اتحادی کے طور پر اپنا ساتھ نباتا رہا  اور روس سے سفارتی اور  علاقائی طور پر پاس رہتے ہوئے دور ہوتا گیا۔1970 کی دہائی میں تعلقات کو ایک بار پھر معمول پر لایا گیا ۔لیکن افغان سویت جنگ میں پاکستان نے کھل کر جہادی گروہوں کی پشت پناہی کی اور روس کو پسپائی پر مجبور کیا۔

اس سے روس اور پاکستان میں تعلقات بلکل نہ ہونے کے برابر ہوگئے۔
پاکستان کا امریکہ کو افغانستان میں رہنے اور نکلنے میں  کلیدی کردار  اب روس کیلئے اہم نکتہ ہے۔امریکی انحصار  خطے میں  ہندوستان پر شفٹ ہوتے دیکھ کر روس نے بھی اس تبدیلی کو بخوبی محسوس کیا اور پاکستان کے ساتھ اپنا سفارتی محاذ متحرک کردیاہے۔روسی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کیا گیا بیان اس کی طرف اشارہ کرتا ہے ، "ہم اسلامی جمہوریہ افغانستان میں خانہ جنگی کے خاتمے کیلئے تعمیری حل کے جلد منتظر ہیں تاکہ طالبان معاہدوں کے ذریعے ایک جامع حکومت میں شمولیت اختیار کرسکے ۔

"افغانستان سے امریکی انخلا  اور پاکستان کے روشن مستقبل ، چائنہ کو ٹیکل کرنے کیلئے نیا امریکی اتحاد اور افغانستان اور ایران میں چائنہ کی  تجارتی موجودگی روس کیلئے ایک فیزیبل موقع ہے کہ وہ بذریعہ تجارت اور سفارت کاری اس خطے میں امریکہ کی جگہ لے۔
روس چائنہ اور پاکستان کے سی پیک منصوبہ کا بغور جائزہ لیتا رہا اور اب اس نے اپنا پتہ پھینکا ہے ۔

روس پاکستان سے تعلقات بڑھانے اور خطےمیں اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔روسی سپیشل فورسز کی پاکستان سے مشترکہ فوجی  مشقیں  پاکستان سے بہتر ہوتے تعلقات کی طرف ایک اشارہ ہیں۔روس لاہور اور کراچی کے درمیان ایک گیس پائپ لائن پر کام بھی کررہاہے۔پاکستان کی جانب سے ریلویز میں بھی روسی تعاون درکار ہے۔کورونا وبا کے پیش نظر روس پاکستان کو 50000 ویکسین کی خوراک پہنچا چکا ہے اور اسکی تعداد کو بڑھانا چاہتا ہے۔


 پاک روس تعلقات روٹین سے ہٹ کرعام سے  خاص ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ شاید یہ پاکستان کےلیے امریکی انحصار کو بدلنے کے مترادف ہے۔ امریکی زاویہ نظر اب چین کو مزید پھلنے پھولنے سے روکنے کی خاطر  بھارت، جاپان اور نیوزی لینڈ جیسے اتحادیوں پر انحصار پر مرکوزہے۔امریکی  کانگریشنل ریسرچ سروس نے "نیوزی لینڈ" نامی ایک تحقیقی پیپرکے ذریعے بھی چین سے متعلق  امریکی حکمت عملی واضح کی ہے۔

امریکہ کی جانب سے افغانستا ن سے انخلا کیلئے چارپانچ ماہ کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔اس تناظر میں روس کی پیشکش پر پاکستان کو خوب دیکھ بھال کر اپنا موقف اور جواب سامنے لانا ہوگا ۔پاکستان کا ریسپانس روس کیلئے بہت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ وہ اب بھارت کی طرف جھکاو کم کرچکا ہے۔تاریخی اعتبار سے روس ایک بار پھر اس ایشیائی خطے  میں اپنے قدم جمانے کی غرض سے آگے بڑھ رہا ہے۔   پاکستان کی دفاعی ضروریات سے روس خوب واقف ہے اور یہ پیشکش اس کاکھلا  ثبوت ہے۔ اندرونی و بیرونی معاملات میں پھنسے پاکستان کیلئے ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے جس سے اسلام آباد کو اپنی سالمیت پر کمپرومائز کیے بغیر فائدہ اٹھانا سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :