سولرونڈز حملہ

جمعرات 22 اپریل 2021

Sami Ullah

سمیع اللہ

دنیا میں شاید کوئی ایسا ملک ہو جس کا کوئی ایشو نہ ہویا جہاں بد امنی نہ ہو۔ ملک  کا مسلہ  قومی بھی ہوسکتا ہے اور بین الاقوامی بھی۔ یہ ٹسل ہمسایہ ممالک کی بھی ہوسکتی ہے اور دو ایسے ممالک کی بھی جو بہت دور بیٹھے ہوں۔ ہمسایہ ممالک میں بھی  نوک جھوک بھی چلتی رہتی ہے۔ کئی ممالک میں بیانیےیا نظریے  کی جنگ چل رہی ہوتی ہے تو کئی ممالک کوسوں دور بیٹھےایک دوسرے کے خلاف عملی جنگ کا مہاذ کھول لیتے ہیں۔

جیسے پاکستان اور بھارت ہر محاذ پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور جیت جانے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔جیسے ایران اور سعودی تنازعہ آج تک چل رہا ہے۔جیسے کشمیر اور فلسطین میں بین الاقوامی قوتوں کی  لگائی ہوئی  آگ آج بھی سلگ رہی ہے۔   
روس اور امریکہ میں یہ کشمکش اور شورش دہائیوں پرانی ہےاور مسلسل چل رہی ہے۔

(جاری ہے)

ماضی میں اس کو ماہرین نے کولڈ وار یعنی سرد جنگ کا نام دیا ۔

اس سرد جنگ کے دورانیے پر کئی فلمیں بھی بن چکی ہیں  جن میں دونوں ممالک کے سٹیک ہولڈرزاپنے ملک ، فوج اور نظریے کو بہتر اور دوسرے کی بدتر دکھاکر پیش کرتے ہیں ۔اس سلسلے میں "میل22"فلم دیکھنے کے لائق ہے ۔ابھی حال ہی میں اس روایتی مسابقت میں ایک پیش رفت ہوئی ہے۔ امریکہ نےروس کے قریبا دس سفارتی اہلکاروں کو ملک بدر کردیا ہے اور الزام یہ لگایا ہے کہ روسی ہیکرز 2020 کے امریکی الیکشن میں اثر انداز ہوئے ہیں۔

ان ہیکرز نے سوفٹ وئیر بنانے اور  مختلف ممالک کو بیچنے والےسولز ونڈز نامی ایک ادراے   میں گھس کر ڈیٹا چرایا ہے۔ روسی صدر اور دفتر خارجہ نے سرکاری سطح پر اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا۔  ساتھ ہی روس کی جانب سے بھی قریبا اتنے ہی امریکی اہلکاروں کو بلیک لسٹ کردیا اور اعلیٰ امریکی حکام کے روس داخلے پر پابندی بھی عائد کی گئی ہے۔

اعلیٰ حکام میں ایف بی آئی کے ڈائریکڑ  ، امریکی ڈومیسٹک پالیسی کے مشیر  اور یو ایس اٹارنی جنر ل شامل ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ روس کو اس بار ٹف ٹائم دیں گے کہ انہوں نے امریکہ کے اندرونی اور اہم معاملات میں ٹانگ اڑانے کی کوشش کی ہے جو کسی بھی طرح قابل قبول نہیں۔ ملک بدر کیے گئے سفارتی اہلکاروں کے بعد امریکہ روس کو اور بھی زیادہ مشکل حالات میں دھکیلنے کیلئے مزید پابندیوں کا سوچ رہا ہے۔

اس سلسلے میں امریکہ اپنے ہتھیار بلیک سی میں داخل کررہا ہے اور  روس یوکرین میں ہزاروں فوجیوں کو بھیج رہا ہے ۔مطلب ہر سطح پر دونوں ممالک بزور طاقت و وسائل  ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے تیارکھڑے  ہیں۔  
روس نے  ایک قدم اور آگے بڑھ کر  امریکی این جی اوز کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کا بھی اعلان کردیا۔اس بار روس کی جانب سے جارحانہ رویہ  دیکھا جارہا ہے ۔

یہاں پر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ میں صدارتی الیکشن تو ہوئے دسمبر 2020 میں لیکن امریکہ تب سے لیکر اب تک سویا ہوا تھا یہ روس سے نمٹنے کی تیاری میں تھا؟  خیر جواب کوئی بھی ہو لیکن یہ آپسی جنگ بہت پرانی ہے ۔ اس میں کوئی نئی بات نہیں۔
البتہ روس پاکستان کی طرف مہربان ہوکربڑی آفر دے چکا ہے کہ جو مانگو گے ملے گا ۔ جب چاہو گے ہمیں تیار پاؤ گے۔

  جب پکارو گے ہمیں   حاضر پاؤ گے۔ امریکہ کا اس پر ری ایکشن تو بنتا ہے کہ یہ کیا دوستی کی پینگیں بڑھائی جارہی ہیں۔ ہم نے افغانستان سے نکلنے کی بات کیا کہ روس پہلے سے ہی تیار کھڑا ہے ۔ جس پاکستان کی مدد اور تعاون  سے ہم افغان خطے سے نکل رہے ہیں وہاں روس پاکستان سے دوستی کا ہاتھ بڑھا رہا ہے۔ یہ تو ہم نہیں ہونے دیں گے ۔روس کو ذرا ٹائٹ کرو یہ تو ایشیا میں  گھسنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔

لیکن پاکستان  پچھلے سال سے روسی سپیشل فورسز سے محدود پیمانے پر فوجی مشقیں بھی کرچکاہے اور مزیددوطرفہ  تعلقات بڑھانے کا سوچ رہا ہے۔   
یہ تو ہوگا جب امریکہ بھارت ، آسڑیلیا ، نیوزی لینڈ اور جاپان کے ساتھ مل  کر ایک نیا محاذ چین کے خلاف گرم کررہا ہے۔امریکہ جب چاہتا ہے اپنی پر اثر خارجہ پالیسی کی بنا پر کسی بھی ملک کو اپنا اتحادی بنا کر اس کے پہلے سے موجود مسائل پر پردہ ڈال دیتا ہے اور جب مطلب پورا ہوجاتا ہے تو اسی اتحادی سے آنکھیں پھیر لیتا ہے۔

پاکستان امریکہ کا دہشت گردی کی جنگ میں ہراول دستہ تھالیکن جیسے ہی اسامہ بن لادن کا کام تما ہوا،امریکی اتحاد آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنا شروع ہوا۔ اور اب وقت یہ ہے کہ پاکستان کو فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے میں اپنی مدد آپ ہی درکار ہے۔ الٹا یہی سننے کو ملتاہے کہ دہشت گردوں کی پشت پناہی ترک کرو۔انکی امداد بند کردو۔ اس ضمن میں امریکہ افغان سویت وار بھول جاتا ہے جب پاکستان پر اتنا ہی مہربان تھاجتنا روس اب ہے۔

  دراصل روس چین کے ون بیلٹ ون روڈ انیشیٹو کو  اپنے لیے فائدہ مند دیکھ رہا ہے۔ پاکستان سے گزرنے والی سڑک پر چین کا تجارتی سامان آئے جائے تو کیوں نہ روس بھی اپنا سامان یہاں سے گزار کرچین کی طرح خرچہ بچائے۔اس لیے روس کو پاکستان کے پاس تو آنا ہی ہوگا۔
ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر  نئی شروعات کرنی چاہئے ۔پاکستان کو بھی اس دوستی کے اشارے کا مثبت جواب دینا چاہئے ۔

پاکستان اب مزیدکسی کی  پراکسی جنگ لڑنے کا اہل ہے  اور نہ ہی  حالات ویسے ہیں کہ پرائے کی جنگ کو اپنی دہلیز پر لایا جائے اور اپنے ہی لاکھوں افراد کو قربان کروادیا جائے۔ بقول  آرمی چیف  سٹا ف جنرل قمر جاوید باجوہ ہمیں ماضی کو بھلا کر آگے بڑھنا ہے اور ہمسایوں سے اچھے تعلقات قائم کرنے ہیں۔ دیر آید درست آید۔ پانی پلوں  کے نیچے سے  زیادہ نہیں گزرا۔ اپنے اور اپنے گھر کو ٹھیک کرنے کا وقت ہے۔ اپنی تمام تر خارجہ پالیسیوں کو ااز سر نو  دہرانے کی ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :