میرا جو بس چلے کروں سایہ درخت پر

پیر 24 اگست 2020

Sheikh Jawad Hussain

شیخ جواد حسین

شجر سے محبت انسانیت سے محبت کے مترادف ہے کیونکہ یہ درخت ہی ہیں جو ہماری زیست کا سامان پیدا کرتے ہیں جو ہمیں آکسیجن مہیا کرتے ہیں، گلوبل وارمنگ کے خطرناک اثرات، بارشوں، آندھیوں، طوفانوں کے علاوہ سیلاب ، زلزلوں کی تباہ کاریوں اور زمین کے کٹاؤ سے بچاتے ہیں۔ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ گلوبل وارمنگ ہے جس کا مطلب ہے کہ درختوں کی کمی کے باعث زمین کا درجہ حرارت ہر سال بڑھتا جا رہا ہے۔

جس کی وجہ سے پانی زمین سے خشک ہو کر آہستہ آہستہ کم ہو جائے گا اور پینے کا صاف پانی نہ ہونے کے باعث پوری نوع انسانی کے ناصرف متاثر ہونے کی شونید ہے بلکہ زراعت کے لئے بھی پانی میسر نہ ہونے سے قحط کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پہاڑوں سے برف پگھلنے سے جو پانی بن کر رفتہ رفتہ ہماری پیاس بجھانے اور دیگر ضروریات کے کام آتا ہے اس کے جلد پگھل کر سمندروں میں شامل ہونے سے سمندروں میں بھی طغیانی آنے سے شہروں کے شہر زیر آب آنے کی پیشن گوئی کی جارہی ہے۔

(جاری ہے)

اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ دنیا بھر کے انسانوں میں درختوں کی ضرورت اور اہمیت سے متعلق شعور کو بیدار کیا جائے اور ان کو آنے والے خطرات سے آگاہ کیا جائے۔
اس وقت پاکستان جس حد تک ماحولیاتی آلودگی اور موسمی تغیرات کا شکار ہے اس صورتحال میں تو شجرکاری مہم کو سال میں بارہ مہینے چلنا چاہئیے تاکہ جلد از جلد ان بڑھتے ہوئے ماحولیاتی مسائل پر قابو پایا جا سکے۔

حکومت پاکستان نے رواں ماہ شجر کاری مہم کا دوبارہ آغاز کیا جو کہ نہایت خوش آئند ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ حکومتی احساس اور بیداری کے علاوہ بون چیلنج ہے جو کہ ایک عالمی معاہدہ ہے جس کے تحت دنیا کے درجنوں ممالک نے 2020ء تک 150ملین ہیکٹر اور 2030ء تک 350 ہیکٹر رقبے پر جنگلات میں اضافے کا آیادہ کیا ہے۔ خوش قسمتی سے پاکستان بھی بون چیلنج معاہدے کا حصہ ہونے کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلی کے لیے کوششوں میں اپنا اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

کیونکہ پاکستان میں گزشتہ کئی سالوں سے درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ ہوا ہے اور اس کے مزید اضافہ ہونے کے باعث سردیوں کے موسم کے مزید سکڑنے کا خطرہ بھی لاحق ہے۔ اس لئے بھی درختوں میں اضافہ انسانوں میں اضافے سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ اس جدید دور میں دنیا کو فیکٹریوں، گاڑیوں، بسوں اور رکشوں کے علاوہ زراعت میں استعمال ہونے والی مشینوں وغیرہ کے استعمال کو کم یا بہتر کرنے کی طرف توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔

ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے اور درختوں کو کاٹنے کے لیے حکومتی اجازت کو لازم قرار دینے کے حوالے سے قانون سازی پر غور کرنا چاہیے۔
 اس ضمن میں بلین ٹری سونامی منصوبے کی بنیاد 2014ء میں پی ٹی آئی کی حکومت نے خیبرپختونخوا سے رکھی۔ جہاں اس مہم کے دوران پاکستان کو سر سبز و شاداب بنانے کی حکومتی کاوش کی گئی مگرافسوس ناک عمل یہ ہے کہ کے پی کے میں بلین ٹری منصوبے میں بہت سی بے قاعدگیاں بھی سامنے آئیں اور اس حوالے سے ذمہ داران کے خلاف کارروائی بھی کی گئی۔


بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف انگلینڈ میں رواں سال میں 15 ملین درخت لگائے گئے ہیں حکومتِ برطانیہ کا ہدف ہے کہ آنے والی چند دہاائیوں میں اس تعداد کو سو ملین تک لے جائیں گے۔ اسی طرح امریکہ کا ہدف اگلی دو دہائیوں میں 60 بلین درخت لگانے کا ہے ۔اسی ضمن میں یورپ آنے والی ایک دہائی میں 30 بلین درخت لگانے کی مہم کا آغاز کر چکا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں گاڑیوں کی آلودگی کو کم کرنے کے لیے الیکٹرک گاڑیوں کی مد میں 2025ء تک سو فیصد اضافے کی منصوبہ بندی پر بھی عمل شروع ہو چکا ہے۔

حکومت کو چاہیئے کہ’ ایفہائے‘ جیسی برطانوی این جی او کی خدمات حاصل کریں اور پاکستان میں سال بھر شجرکاری مہم جاری رکھیں اور پودوں کی حفاظت کا مستقل اہتمام کریں۔
مگر شومٴ تقدیرکہُ ہمارے ہاں گذشتہ ادوار میں اس طرف بالکل توجہ نہیں دی گی ہر سال سیلاب، آندھیاں، طوفان، بارشیں، شدید گرمی، ماحولیاتی آلودگی اور زمین میں پانی کی سطح بھی کم ہوتی رہی مگر اس سب کے باوجود بھی شجرکاری پر کوئی توجہ نہیں دی گی۔

اس کے برعکس لاہور کو پیرس بنانے کا دعویٰ کرنے والوں نے سڑکوں کے اردگرد موجود درختوں کو کاٹ کر پل اور اورنج لائن بچھا دی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ درختوں کی موجودگی فضائی آلودگی کو ختم کرتی اور فضا میں آکسیجن کی مقدار میں اضافہ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ میں کمی پیداکرتی ہیں اور ہماری آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل کی نوید ہیں۔ اگر اس پر زرہ بھر بھی توجہ دی گئی ہوتی تو پاکستان کی ماحولیاتی ابتری اس مقام تک نہ پہنچتی۔

لاہور تو ایک مثال ہے سندھ اور بلوچستان کا بھی یہی حال ہے۔ اگر صرف بلوچستان کی زمین پر زیتون کے ایک بلین درخت لگا دئیے جائیں جو کہ زیتون کی پیداوار کے لیے سب سے بہترین خطہ ہے تو پاکستان سپین کی زیتون کی بلین ڈالر انڈرسڑی کا مقا بلہ کر سکتا ہے۔ مگر گذشتہ حکومتوں نے کبھی خانہ پُری کے علاوہ اس موضوع پر سنجیدگی سے کام نہیں کیا۔ چند روز قبل سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی وڈیو کہ جس میں ایک جتھا پودوں کو اس طرح اُکھاڑ کر پھنک رہا تھا کہ جیسے ان کے سینے میں دل کی بجائے پتھر رکھا ہو۔

ان جاندار پودوں کو اگر کسی بھی وجہ سے اُکھاڑ نا ہی مقصود تھا تو ان کو طریقے سلیقے سے محفوظ جگہ پر منتقل کیا جا سکتا تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ میں تو اس عمل کو ماحولیاتی دہشت گردی سے تشبیہ دوں گا۔ کیونکہ یہ عمل ہمارے اور ہماری آنے والی نسلوں کے خلاف کھلی دہشت گردی ہے۔ میری سمجھ سے تو باہر ہے کہ کوئی اس قدر لاعلم اور سنگ دل کیسے ہو سکتا ہے۔

حالانکہ اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ درخت کاٹنے والا بھی اپنی تھکان دور کرنے کیلئے درخت کی چھاؤں ڈھونڈتا ہے۔ ویسے بھی درخت لگانا نہ صرف سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے بلکہ صدقہ جاریہ بھی ہے۔ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے درخت لگانے چاہییں تاکہ ہم اپنے اجداد کا قرض اتار سکیں کہ جنہوں نے درختوں کی شکل میں اک گراں قدر خزانہ ہمارے لیے چھوڑا کہ جن کے پھلوں، لکڑی اور سائے سے ہم ہر روز فیض یاب ہو تے ہیں۔

درخت لگانا نہ تو مشکل ہے اور نہ ہی وقت طلب انتہائی آسان اور سہل انگیز ہے مگر مشکل ترین مرحلہ ان کی حفاظت ہے جو کہ پاکستان میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ کسی بھی ملک کا 25 فیصد حصہ جنگلات پر مبنی ہونا چاہیئے مگر ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان کے بعد پاکستان خطے کے کم ترین جنگلات والا ملک ہے اس کا صرف 4 فیصد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے حالانکہ اس کے پڑوس میں موجود ممالک میں ایران 7 فیصد ،بھارت کا 23 فیصد، چین 22 فیصد اورروس کا 44 فیصد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے۔


اب وقت آ چکا ہے کہ ہم انفرادی طور پر اس شجر کاری مہم میں حصہ لیں درخت نہ صرف لگائیں بلکہ اس کی حفاظت بھی کریں، اگر جنگلات میں اضافہ نہیں کرسکتے تو اپنے طور پر درختوں اور پودوں میں اضافہ کریں اپنے محلے اور گلی کوچوں کو سر سبز وشاداب بنائیں۔ آئیں ہم سب مل کر کوشش کریں اور اپنے اپنے حصے کا چراغ روشن کریں اور اپنی ذمے داری پوری کریں اور اپنے ملک اور دنیا کو محفوظ بنائیں۔ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے تعلیمی نصاب میں درختوں کی اہمیت اور افادیت کی تعلیم کو شامل کرنا ہوگا تاکہ وہ بھی ایک شجر سایہ دار کی مانند ہر شجر پر سایہ فگن ہوں اور ہمارا مستقبل تابناک ہو سکے۔ آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :