"اِس شور میں کوئی طوفان ضرور ہے"

بدھ 24 جون 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

پاکستان کا یہ المیہ رہا ہے کہ جتنے بھی حکمران آئے انہوں نے الیکشن سے پہلے عوام کو سبز باغ ضرور دیکھائے اور پھر جب یہ لوگ اقتدار میں آئے تو اپنے کیے ہوئے وعدے وفا نہ کر سکے لیکن اِس بار تو حد ہو گئی کہ جس طرح پاکستان کی 22 کروڑ عوام کو تبدیلی کے نام پر چونا لگایا گیا اِس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔2018 کے الیکشن سے پہلے عمران خان صاحب کی طرف سے بلند و بالا دعوے کیے گئے ۔

یہ کہا گیا کہ ہمارے پاس اسد عمر کی شکل میں ماہرِ معاشیات ہے جو پاکستان کی بگڑی ہوئی معیشت کو سنبھالے گا۔ہمارے پاس شاہ محمود قریشی جیسا قابل انسان ہے جو بین القوامی معاملات میں مہارت رکھتے ہیں ۔پاکستان کا امیج دنیا بھر میں بہتر بنا دے گا۔یعنی کہ عمران خان کی طرف سے یہ کہا گیا کہ اُن کے پاس ہر شعبے میں ماہرین موجود ہیں جو بگڑے ہوئے اور کرپٹ زدہ پاکستان کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔

(جاری ہے)

۔
لیکن اب دو سال مکمل ہونے کو ہیں ناجانے کتنی دفعہ وفاقی وزراء اور مشیر تبدیل کیے جا چکے ہیں ۔یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اِن کو کارکردگی کی بنا پر کابینہ سے علیحدہ نہیں کیا جاتا رہا بلکہ اندورنی اختلافات اور وزراء کے مابین ذاتی کشمکش اِن کی وزارتوں کو لے ڈوبی ۔ کئی وزراء نے اِس بات کی نشاندہی بھی کی کہ واقعی اِن کی وفاقی کابینہ سے علحیدگی کا سبب آپس کے اختلافات ہی تھے ۔

ماضی میں خان صاحب الیکشن میں یہ فرمایا کرتے تھے کہ حکومت میں آنے کے بعد پارٹی میں اختلافات ختم ہو جائیں گے کیونکہ جب اوپر وزیراعظم تگڑا ہو تو ایسی چیزیں نہیں ہوتیں ۔۔
لیکن حال ہی میں تحریکِ انصاف کے اندرونی اختلافات کھُل کر سامنے آ رہے ہیں کئی وفاقی وزراء اور مشیر آپس میں ہی گتھم گتھا ہیں اور سرِعام ٹی وی پر آ کر اپنی حکومت کی ناکامیوں اور خان صاحب کی حکومت کی ابتر کارکردگی کا اعتراف بھی کر رہے ہیں ۔

پاکستان میں کرونا آنے سے پہلے کئی باخبر ذرائع کی طرف سے یہ دعوئے بھی کیے جاتے رہے کہ عمران خان کی حکومت بمشکل 2020 تک ہی چل پائے گی۔کیونکہ اِس حکومت کی کارکردگی مایوس کن ہے اور اِن کو لانے والے بااثر ادارے یہ جان چکے ہیں کہ عمران خان کی حکومت کا جانا اور نئی حکومت کا آنا ہی اب پاکستان کے لئے بھی بہتر ہو گا کیونکہ تحریکِ انصاف میں کوئی ایسا دوسرا شخص موجود نہیں جو اِس بحران جیسی کیفیت میں ملک کو بہتری کے راستے پر ڈال سکتا ہے ۔

اسی تناظر میں تحریک انصاف کے سائنس وٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر اور کئی اہم راز جاننے والے فواد چودھری نے سہیل وڑائچ کو وائس آف امریکہ پر ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ حکومت سے جو توقعات وابستہ تھیں وہ پوری نہیں ہوئی ہیں اگر حکومت کے پاس ٹیم نہیں ہے تو آئیڈیاز پر عملدرآمد نہیں ہو پائے گا ۔ہماری حکومت کے پاس کارکردگی دکھانے کے لئے صرف چھ مہینے کا وقت ہے ورنہ معاملات کسی اور طرف بھی جا سکتے ہیں۔

فواد چودھری کے انکشافات کی ایک لمبی فہرست ہے سب سے قابلِ غور بات یہ تھی جو فواد چودھری کی طرف سے کہی گئی کہ تحریکِ انصاف کی اندرونی لڑائی سے پارٹی کو کافی نقصان پہنچا۔جہانگیر ترین کے کہنے پر سب سے پہلے اسد عمر کو ہٹایا گیا اور اب جب اسد عمر دوبارہ آئے تو انہوں نے اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے جہانگیر ترین کو سائیڈ لائن لگا دیا۔

مطلب واضح ہے کہ چینی بحران تو تھا ہی ۔کمیشن بھی بن گیا لیکن ذمہ داران کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے سیاسی مفادات کو بھی سامنے رکھا گیا اور جہانگیر ترین کو ہٹا کر اپنی سیٹ بھی پکی کر دی گئی۔۔اِس حوالے سے جہانگیر ترین پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ پارٹی کے اندر سے اُن کے خلاف سازشیں کی جا رہی ہیں اور یہاں تک کہ دیا کہ نوازشریف کی نااہلی کا فیصلہ بیلنس کرنے کے لئے مجھے نااہل کروایا گیا ۔

یقیناً یہ بہت بڑے بیانات تھے۔دوسری طرف چند روز پہلے معاون خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان صاحبہ کو اُن کے عہدے سے برطرف کیا گیا تو اُن کی طرف سے بھی اسی قسم کا الزام لگایا گیا کہ اُن کو عہدے سے ہٹانے میں وزیراعظم کے پرسنل سیکرٹری اعظم خان کا بہت بڑا کردار ہے۔یعنی ایسے مسائل تحریکِ انصاف میں کافی عرصے سے چل رہے ہیں جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کے اختلافات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بجائے کارکردگی دکھانے کے یہ وزراء اور مشیر آپس میں ہی زور آزمائی کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔۔
اسی تناظر میں راجہ ریاض نے ایک انٹرویو میں یہ کہا کہ میں ایمانداری سے کہتا ہوں ہماری ہر جگہ تزلیل ہو رہی ہےاور کرپشن کو ختم کرنے کے دعویداروں کے دور میں کرپشن کا ریٹ دس ہزار سے بڑھ کر تیس ہزار ہو گیا۔یہ الفاظ پارٹی کے ایک مضبوط امیدوار کی طرف سے کہے گئے جو کہ پارٹی قیادت کے لئے تشویشناک بات ہے ۔


معاملہ یہیں تھما نہیں کیونکہ پارٹی کے بے شمار اراکین اسمبلی یا کارکنان کی طرف سے ایسے کئی بیانات دیے گئے جس کا اظہار پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ نگار کب سے کر رہے ہیں لیکن پارٹی قیادت اور سپورٹرز کی طرف سے اُن کو لفافہ کہا گیا۔اُن کے خلاف پروپیگنڈے کیے گئے ۔اگر اُس وقت اِن حقائق کو تسلیم کر لیا جاتا تو معاملات اتنے نہ بگڑتے جتنا کہ اب ہیں کیونکہ سب سے زیادہ تشویشناک بات جہانگیر ترین کے حوالے سے ہے کیونکہ جہانگیر ترین صاحب پارٹی کی مرکزی قیادت سے سخت ناراض ہیں جو سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر سمجھے جاتے ہیں جنھوں نے الیکشن کے دنوں میں باقی پارٹیوں سے کئی اراکین بنی گالا محل کے حوالے کیے ۔

اِس عمل میں اُن کا جہاز کافی کارآمد ثابت ہوا۔
اِس لیے یہ حقیقت ہے کہ جب سے جہانگیر ترین کے پارٹی قیادت سے تعلقات بگڑے ہیں تب سے کئی اراکین اسمبلی یا وزراء کی طرف سے پارٹی قیادت یا پارٹی پالیسیوں کے خلاف بیانات میں بھی شدت آئی ہے۔سیاسی ماہرین اسے ایک اور تبدیلی کا پیش خیمہ تصور کر رہے ہیں. یہ شور ایک طوفان کا پیش خیمہ ضرور ہے کیونکہ حکومت ہر لحاظ سے ناکام ہو چکی ہے۔

وزیراعظم کو معیشت کے حوالے سے ایک رپورٹ پیش کی گئی ہےجس کو دیکھ وزیراعظم حیران رہ گئے ۔جس میں کہا گیا کہ کرونا آنے سے پہلے ہی مہنگائی کی شرح بلند ترین سطح پر پہنچ چکی تھی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وسائل کا غلط استعمال ہوا بڑی تعداد میں پیسے کا بھی انخلاء کیا گیا اور رواں مالی سال ٹیکس اہداف بھی پورے نہیں ہو سکتے۔یہ حکومت خود بھی جانتی ہے اور خان صاحب کو لانے والے بھی جان چکے ہیں کہ معاملات گھمبیر صورتحال اختیار کر رہے ہیں کیونکہ جب ایسے حالات پیدا ہو جائیں تو سیاسی لوگوں کی طرف سے اِس طرح کے بیانات میں تیزی دیکھنے میں آتی ہے اِس لئے یہ کہنا یہاں بنتا ہے کہ تبدیلی کی ہواؤں نے اپنا رخ بدلنا شروع کر دیا ہے اور اِس شور میں کوئی طوفان ضرور ہے جس کا فیصلہ وقت ہی کر پائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :