"یہ کمپنی نہیں چلے گی"

ہفتہ 19 ستمبر 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

پچھلے دنوں سہیل وڑائچ نے اپنی نئی کتاب کو پبلش کرنے کا اعلان کیا تو اعلان کے کچھ ہی لمحوں بعد اِس کتاب پر مختلف اعتراضات لگا کر اِسے پبلش کرنے سے روک دیا گیا اور کتاب کی بہت سی کاپیاں بھی ضبط کر لی گئیں۔سب سے بڑا اعتراض جو میڈیا پر دکھایا گیا وہ یہ تھا کہ اِس میں وزیراعظم صاحب کا غیر مناسب کارٹون ہے جو کہ پاکستان کے وزیراعظم کی توہین ہے اِس لیے یہ کتاب ابھی پبلش نہیں ہو سکتی ۔

مطلب یہ کہ اِس کو پبلش نہ کرنے کی وجہ کتاب کے اوپر بنے وزیراعظم صاحب کی کارٹون نما تصویر کو ٹھہرایا گیا ۔یہ تو ایک کتاب کا ٹائٹل ہے اور اِس پر بنے کچھ کارٹونز ہیں لیکن کتاب پر بنے کارٹون سے مشابہت رکھتے حقائق بھی موجود ہیں جن کو سمجھنا اور اُن پر بات کرنا بھی بہت ضروری ہے۔

(جاری ہے)

۔
پاکستان کے آئین کے مطابق پارلیمنٹ سب سے سپریم ادارہ ہے جو عوام کے ووٹوں کی طاقت سے بنا ہے۔

جس میں عوام کے نمائندے عوام کی منشاء کے مطابق فیصلے کرتے ہیں لیکن بدقسمتی تو یہ ہے کہ پارلیمنٹ اپنی مرضی کا کوئی بِل پاس نہیں کر سکتی، ایسے واقعات کئی دفعہ ہو چکے ہیں جب پارلیمنٹ کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا گیا ۔سینٹ کے الیکشن کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے، 2020 کے بجٹ اجلاس میں خفیہ رائے شماری کے نتائج بھی معلوم ہیں ۔ایسا کیوں ہوا؟  کیا پاکستان کا سب سے سپریم ادارہ کسی دوسرے کے دباؤ میں آ کر فیصلے کرے یا پارلیمنٹ کے منتخب نمائندوں کو دڑا دھمکا کر اُس کی خواہشات سے مختلف فیصلے کروائے جائیں ۔

کبھی ایسا کسی مہذب دنیا میں نہیں ہوا کہ اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا جائے یقیناً ایسا ہونے کے پیچھے کچھ راز موجود ہوتے ہیں جو ہم میں سے ہر باشعور انسان سمجھ سکتا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے یا کون لوگ ہیں جو طاقت کی بنیاد پر ایسے فیصلے کرواتے ہیں۔پاکستان کا وزیراعظم جس کو پاکستان کی عوام ووٹ کی طاقت سے منتخب کرتے ہیں اُن کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جب پاکستان کے وزراء اعظم کو بے توقیر کیا گیا اُن کو جیلوں میں ڈالا گیا، بےبنیاد مقدمات بنائے گئے اُن کی عزتوں پر ڈاکے ڈالے گئے ۔

یہ سب کچھ ہوتا رہا کسی کو پروا نہیں ہوئی ۔ایسا کرنے والے بھی کرتے رہے اپنے مقاصد کی تکمیل بھی کرتے رہے اور آجتک کر رہے ہیں جس میں پارلیمنٹ کی بے توقیری سرِعام کی جاتی ہے سیاستدانوں کو غدار کہا جاتا ہے اگر وہ اپنے حقوق کے لئے آواز اُٹھائیں تو اُن کی آوازیں خاموش کروا دی جاتی ہیں اُن پر جوتے پھینکوائے جاتے ہیں اُن پر گولیاں بھی برسائی جاتی ہیں ۔

اُن کی کردار کشی کروائی جاتی ہے یہاں تک کہ پارلیمنٹ پر حملے بھی کروائے جاتے ہیں، لاکھوں ووٹ لے کر منتخب ہونے والے وزیراعظم کو وزیراعظم ہاؤس سے باہر گھسیٹنے کی باتیں بھی عوامی جلسوں میں کروائی جاتی ہیں ۔یہ سب کچھ چلتا رہتا ہے پاکستان کی بدنامی ہو بھی تو فرق نہیں پڑتا، پاکستان کے سپریم ادارے کی توہین ہو بھی تو فرق نہیں پڑتا لیکن پاکستان کے ایک طاقت ور ادارے کی توہین برداشت نہیں ۔

اُس کے غلط کاموں یا غلط پالیسیوں پر بات کرنا جائز نہیں۔حال ہی میں ایک بِل پاس کروایا گیا جس میں سلامتی کے ادارے کا تمسخر اڑانے پر دو سال کی سزا بھگتنا پڑے گی ۔ اپنے مفادات کے لئے طاقتور اداروں کی طرف سے ایسے بِل پاس کروانا کوئی نئی بات نہیں کیونکہ پاکستان کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اقتدار کے لئے یا اِس میں وسعت کے لئے ایسے بِل پاس کروانا اصل میں ادارے کے لئے نہیں بلکہ خاص شخصیت اپنے ذاتی مفادات کو پانے کے لئے ایسے بِلوں کو پاس کرواتی ہے۔

پاکستان کا ہر جمہوری شہری جس نے ملک کی بہتری کے لئے ووٹ دیے وہ آج یہ سوال کر رہا ہے کہ ھم کبھی آپ پر بات نہیں کریں گے،آپ کی توہین نہیں کرینگے۔۔ کبھی آپ کا تمسخر بھی نہیں اڑائیں گے لیکن شرط یہ ہے کہ آپ پارلیمنٹ کو مضبوط ہونے دیں، آپ منتخب نمائندوں کی رائے کا احترام کریں، آپ عدلیہ کے معزز ججوں کو ڈرانا دھمکانا بند کریں، اُن کو آئین کی پاسداری کرنے دیں یہ نہیں کہ آپ چند ڈالروں کی خاطر ملک کو پرائی جنگوں میں دھکیلیں اور ہم خاموش رہیں۔

ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کہ جمہوری وزیراعظم کو قتل کر دیا جائے، ملک بدر کیا جائے، مارشل لاء لگا دیا جائے، پارٹیوں کو توڑ کر اپنے من پسند کے لوگ آگے لائے جائیں،جب آپ کے کسی سابق عہدیدار کے خلاف کرپشن پر کاروائی ہونے لگے تو ملک میں فرقہ واریت کا پتہ کھیلا جائے ۔یہ ناممکن ہے کہ ایسا سب ہونے کے باوجود بھی ہم خاموش رہیں، ہماری توہین ہوتی رہے پارلیمنٹ کی توہین ہوتی رہے ۔

قید اور جرمانہ تو ھمیں مقرر کرنا چاہیے تھا جن کی پارلیمنٹ کو آپ بے توقیر کرتے ہو اِس کی دیواریں پھلانگ کر قبضہ کرتے ہو، جن کے منتخب نمائندوں کو آپ جیلوں میں ڈالتے ہو اور جھوٹے مقدمات بنواتے ہو اقتدار سے ہٹاتے ہو اور جرمانے بھی ہم ہی برداشت کریں اِس لیے یہ کمپنی نہیں چلے گی تاکہ ملک میں آئین کی بالا دستی قائم ہو سکے،پاکستان آگے بڑھ سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :