"مفاہمت اب نہیں چلے گی"

اتوار 4 اکتوبر 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

کچھ روز قبل شہبازشریف صاحب کو ایک مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا ۔کہا یہ جاتا ہے کہ شہبازشریف مفاہمت کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں اِس لئے اُن کی گرفتاری بہت معنی رکھتی ہے لیکن اُن کے بڑے بھائی نوازشریف کی سوچ اور سیاست کرنے کا انداز شہبازشریف سے کافی مختلف رہا ہے ۔نواز شریف نے اِس وقت مزاحمتی سیاست کا راستہ اپنایا ہوا ہے اِس لیے حکومت کے اراکین اور ترجمان مسلم لیگ ن اور ش کا راگ الاپتے نظر آتے ہیں ۔

اِس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ کسی بھی جمہوری پارٹی چاہے وہ مسلم لیگ ن ہو یا تحریک انصاف، میں مختلف نظریات اور خیالات رکھنے والے لوگ موجود ہوتے ہیں لیکن اِن سب کو فیصلہ وہی منظور ہوتا ہے جو پارٹی کے قائد کرتے ہیں ۔لیکن سیاست میں حالات کے ساتھ ساتھ چلنا اور اپنے نظریات کو بدلنا بھی بہت ضروری ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

ایک لمبے عرصے تک شہباز شریف نے مفاہمتی سیاست کو اپنائے رکھا لیکن اے پی سی میں اور اِس کے بعد وہ بھی کھُل کر مزاحمت پر اُتر آئے اور اپنے بڑے بھائی نواز شریف اور اُن کے بیانیے کی مکمل تائید بھی کرتے نظر آئے جس کے بعد وہ گرفتار بھی کر لیے گئے اِس لیے بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مفاہمت اب نہیں چلے گی کیونکہ مسلم لیگ ن کو موجودہ حکومت کے اِن دو سالوں میں دیوار سے لگانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی اِس لیے اِس تسلسل کو دیکھتے ہوئے مسلم لیگ ن یا دوسری اپوزیشن پارٹیوں کے لئے اب مزاحمتی سیاست ہی واحد راستہ بچا ہے ۔

جس کا اظہار میاں نواز شریف اپنے پچھلے چند خطابات میں کہ چکے ہیں ۔یقیناً مزاحمتی سیاست میں دوسری جانب سے بھی مزاحمتی رویہ ہی سامنے آئے گا لیکن یہ وقت اپوزیشن خاص طور پر مسلم لیگ ن کے لیے بہت فیصلہ کُن ہے۔ اِس رویے اور مزاحمتی سیاست کا تسلسل بہت ضروری ہے۔ فیصلہ کُن لمحات سے پہلے پیچھے ہٹنا بہت نقصان دہ ہوگا ۔میری نظر میں میاں نواز شریف اپنی ساری کشتیاں جلا چکے ہیں اور واپسی کا راستہ بھی نہیں بچا ۔

مسلم لیگ ن کے کارکنان اور پارٹی کے ترجمان یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ ہی مسلم لیگ ن اورپاکستان کا مستقبل ہے اور اِس ہم اِس تحریک کو ضرور کامیاب بنائیں گے چاہے ہمیں کچھ بھی برداشت کرنا پڑے۔ اِس لیےیہ کہنے میں کوئی دو رائے نہیں کہ مسلم لیگ ن مزاحمتی سیاست پر اُتر آئی ہے اور، مفاہمتی سیاست کا باب بند ہو چکا ہے ۔پچھلی کچھ تقریروں میں میاں نواز شریف کافی پُر امید نظر آئے اور مقتدر قوتوں کو بھی اپنا واضح پیغام دیا۔

جس کے بعد موجودہ حکومت اور اِس کے حمایتوں کی طرف سے ایک بار پھر سے غداری کے روایتی کارڈ کا استعمال کیا گیا اور غداری کے فتوے لگانے شروع کر دیے۔حالانکہ میاں نواز شریف نے برملا کہا کہ وہ آئین پر یقین رکھتے ہیں اور کوئی کام جو آئین سے متصادم ہو وہ انہیں کبھی قابلِ قبول نہیں ہوگا۔  کسی زمانے میں میاں نواز شریف بھی مقتدر قوتوں کے پسندیدہ ہوا کرتے تھے لیکن وقت اور حالات کی سنگینیاں بہت سوں کے نظریات کو بھی بدل دیتی ہیں ۔

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمیشہ سے ہی پاکستان کے اداروں اور اُن کو چلانے والوں پر کرپشن کے بڑے بڑے الزامات لگتے آئے ہیں لیکن نہ ہی اُن کا عدالتوں میں کوئی ٹرائل کیا جا سکا ہے اور نہ ہی کبھی وہ غدار ٹھہرائے گئے لیکن بہت سے سیاستدانوں پر مودی کا یار اور انڈین نواز ہونے کے الزامات بے دردی سے لگائے گئے لیکن آج مقتدر قوتوں کو بھی سیاستدانوں خاص طور پر اپوزیشن کی مزاحمتی سیاست کا سامنا ہے۔

جس سے حکومت اور مقتدر قوتوں کی پریشانیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔پچھلے کچھ دنوں میں اپوزیشن کے اوپر روایتی ہتھکنڈے استعمال کیے گئے کسی کو جیل میں ڈالا گیا تو کسی پر نیب کے کیسز بنا دیے گئے ۔اگر کوئی یہاں سے پچ نکلا تو اُس کو غداری کا تمغہ تھما دیا گیا۔ حکومت نے ترجمان عاصم سلیم باجوہ کا دفاع کر کے احتساب کے عمل کو مزید داغدار کیا ہے لیکن بقول میاں نواز شریف اب عاصم باجوہ کو رسیدیں دینا ہونگی، منی ٹرائل اور بلوچستان میں حکومت گرانے کے ساتھ ساتھ الیکشن میں بدترین دھاندلی کا بھی حساب دینا ہوگا ۔

اِس ساری صورتحال میں یہ واضح ہو چکا ہے کہ میاں نواز شریف اور اُن کی جماعت کی سیاست مفاہمت سے ہٹ کر مکمل طور پر مزاحمتی رویہ ہی اختیار کرے گی ۔یقیناً اِس سارے عمل میں بہت سوں کو مشکلات بھی آئینگی لیکن کامیابی کے لئے یہی واحد راستہ ہی بچا ہے جس پر احتیاط کے ساتھ ساتھ مسلسل چلنا بھی پڑے گا کیونکہ پاکستان کی ترقی کی ضمانت آئینِ پاکستان ہے اور کامیابی کا یہی واحد راستہ بھی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :