"نواز شریف، عمران خان اور ایک مدلل موازنہ"

بدھ 28 اپریل 2021

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

"پاکستان کی سیاست بہت عجیب ہے" یہ وہ فقرا ہے جو ہم میں سے اکثر روزمرہ زندگی میں استعمال کرتے رہتے ہیں لیکن دراصل ہماری سیاست عجیب نہیں بلکہ اِس کو دیکھا اور پرکھا بڑے عجیب طریقے سے جاتا ہے، ہم میں سے اکثر تو صحیح اور غلط میں باآسانی فرق نہیں کر پاتے جس کی وجہ سے ہم آج بھی اُس مقام تک نہیں پہنچ پائے جہاں باقی ترقی یافتہ ممالک کی طرح ہمیں بھی ہونا چاہئے تھا، پاکستان میں بہت سے لیڈران آئے اور گزر گئے، کچھ کو تو ہم بلکل بھول گئے، یہاں تک کہ وہ اب ہمارے وہم وگمان میں بھی نہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کو شاید بھلایا نہ جا سکے، ہم میں سے ہی کچھ اُن کو بُرے الفاظ میں یاد رکھتے ہیں اور بہت سارے اُن لیڈران کو اب بھی دلوں میں بساتے ہیں لیکن انسان کی یہ روایت رہی ہے کہ ہم نے نئی چیز کا ذائقہ ضرور چکھنا ہوتا ہے لیکن بعض اوقات یہ شے ہمیں پسند آ جاتی ہے یا ہمارے لئے فائدہ مند ہوتی ہے لیکن بعض اوقات اِس کی کرواہٹ ایک لمبے عرصے تک رہتی ہے، نواز شریف کو کون نہیں جانتا، پاکستان کی تہتر سالہ تاریخ میں یہ پاکستان کے تین دفعہ وزیراعظم، دو دفعہ وزیراعلیٰ پنجاب اور ایک بار وزیر خزانہ رہ چکے ہیں اور یہ اعزاز اِنکو بہت سوں سے اعزاز بناتا ہے لیکن اِن کی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ کسی بار بھی یہ اپنی مدت کو مکمل نہ کر سکے، یہی وہ وجہ بھی ہے کہ اِنکو بار بار اقتدار میں آنے کا موقع ملا ،نواز شریف اپنی وزرات اعظمی کے دوران کچھ ایسے کام بھی کر گئے جو کئی دہائیوں تک نوازشریف کو پاکستانیوں کے دلوں میں زندہ رکھیں گے،اُنکے پہلے دورِ حکومت میں پاکستان میں موٹرویز کی ابتداء ہوئی، اور یہ عظیم منصوبہ آج پاکستان کے کونے کونے میں پھیل چکا ہے ، تینوں ادوار میں نواز شریف نے اِس منصوبے کو بڑھانے کا کام جاری رکھا اور آج پاکستان کے میلوں دور کئی شہر موٹرویز سے مستفید ہو رہے ہیں، نوازشریف کے دوسرے دورِ حکومت میں پاکستان نے ایٹمی صلاحیت حاصل کی اور مسلم دنیا میں پاکستان نے پہلا ایٹمی ملک ہونے کا اعزاز اپنے نام کیا، تیسرے دورِ حکومت میں نواز شریف نے اربوں روپے کے منصوبے سی پیک کا آغاز کیا اور دوست ملک چین کے ساتھ مل کر اِس منصوبے کے تحت پاکستان بھر میں ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھا دیا اور باقی ترقیاتی کام اِن سے علیحدہ ہیں جن کی ایک طویل فہرست ہے۔

(جاری ہے)

لیکن بدقسمتی سے یہ دور بھی پہلے دو ادوار کی طرح نامکمل رہا اور نواز شریف حکومتی مدت پوری کرنے سے محروم رہے یا کر دیے گئے، اگر تعصب کی نگاہوں کی بجائے اُصولوں کی بات کی جائے تو نواز شریف کے تینوں ادوار پاکستان کی باقی سیاسی تاریخ پر بھاری ہیں، جہاں بےپناہ ترقیاتی منصوبوں پر کام ہوا وہیں عام عوام بھی کافی خوشحال ہوئی، جہاں پاکستان میں پھیلے کئی منصوبے نواز شریف کی اچھی یاد دلواتے ہیں، وہیں کچھ پاکستانیوں کی نظر میں نوازشریف پاکستان کی تباہی کے ذمہ دار ہیں اور کچھ حلقوں کی طرف سے اِن ناکامیوں یا غلطیوں کو پُر کرنے کے لئے عمران خان صاحب کو میدان میں اُتارا گیا تاکہ نوازشریف صاحب توپاکستان کو ترقی نہ دلوا سکے لیکن شاید یہ کام عمران خان صاحب بخوبی سرانجام دے دیں، اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ نوازشریف کے ادوار میں کچھ کام ایسے بھی ہوئے جنھوں نے اِن کی سیاست کو کافی نقصان پہنچایا لیکن اگر نوازشریف کے ادوار کی مدت مکمل کرنے دی جاتی تو آج شاید حالات بہت بہتر ہوتے لیکن عمران خان کو اچھے سے بھی بہت اچھا کرنے کے لئے میدان میں اُتارا گیا، اور مختلف طریقوں سے اقتدار سونپا گیا، پاکستانیوں کے ساتھ عمرانی معاہدے کو ہوئے تقریباً تین سال ہونے والے ہیں، اب نواز شریف اور عمران خان کا موازنہ بخوبی کیا جا سکتا ہے اور ایک عام پاکستانی بھی باآسانی کہ سکتا ہے کہ نواز شریف اور عمران خان میں سے کون سیاسی لحاظ سے زیادہ اہل تھا میری طرح بہت سے پاکستانیوں کے خیال سے عمران خان صاحب کو پانچ سال پورے کرنے چاہییں کیونکہ نوازشریف کا بار بار اقتدار میں آنے کی وجہ ہی یہی تھی کہ اُن کو کسی دور میں مکمل مدت پوری نہ کرنے دی گئی اِس لیے اُس وقت بہت سے پاکستانی یہ سمجھتے تھے کہ نواز شریف ہی اُنکے لیے بہتر ہیں اور اِنکو ہی رہنا چاہئے لیکن نواز شریف کو ہٹا کر اقتدار کسی دوسرے کے حوالے کر دیا جاتا اور نواز شریف کے چاہنے والےدوبارہ نواز شریف کو منتخب کروا لیتے بلکہ 1997 میں جب نوازشریف دوسری بار وزیراعظم بنے تو اِنکو دو تہائی اکثریت کا عوامی مینڈیٹ ملا اور تیسری بار بھی سادہ اکثریت سے کامیاب ہوئے، اِس لیے عمران خان کو پانچ سال پورے کرنے چاہییں تاکہ ہم لوگ یا عمران خان بعد میں یہ نہ کہ سکیں کہ عمران خان صاحب کو وقت ہی نہیں دیا گیا کیونکہ ان کی تین سالہ کارکردگی سے ہم سب بخوبی واقف ہیں، اِن تین سالوں میں پاکستانیوں کی اکثریت موجودہ حکومت سے قطعاً مطمئن نہیں بلکہ پاکستانیوں کی اکثریت پر مایوسی کے بادل گہرے ہو چکے ہیں کیونکہ گرتی ہوئی معیشت نے پاکستان کے نظام کو جام کر کے رکھ دیا ہے اور تباہ حال انفراسٹرکچر نے پاکستانیوں  کا جینا دوبھر کردیا ہے، یقیناً اِن اڑھائی سالوں میں کوئی میگا پراجیکٹ بھی شروع نہیں کیا گیا جس طرح نواز شریف نے اپنے ادوار میں کئی میگا پراجیکٹس پر اپنی تختیاں چسپاں کروائیں، بلکہ احتساب کے نام پر خوب ڈرامہ بھی رچایا گیا اور کرپشن میں بھی پاکستان کی حالت نواز شریف کے دور سے کہیں زیادہ خراب ہے،لیکن کچھ کام عمران خان صاحب نے ضرور اچھے کیے یا کہے لیکن عام انسان کو اُن سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑا، نوازشریف کے دور میں مہنگائی کافی حد تک کنٹرول میں تھی اور 2018 میں مہنگائی کی شرح 3.93 فیصد پر موجود تھی اور اب 2021 میں موجودہ حکومت میں مہنگائی کی شرح 8.84 فیصد پر پہنچ چکی ہے جس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے، موجودہ دور میں مہنگائی کے ریکارڈ بھی ٹوٹ چکے ہیں اور غریب عوام کی زندگی بہت زیادہ متاثر ہوئی ہے، اب اگلے دو سال بھی ہمیں اِس حکومت کے ساتھ ہی گزارنے چاہییں تاکہ عمران خان اور نواز شریف میں فرق کرنا قدرے آسان ہو جائے تاکہ کوئی دوبارہ یہ نہ کہ سکے کہ مجھے کیوں نکالا۔

۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :