ایک داستاں ختم اور دوسری شروع‎‎

ہفتہ 10 جولائی 2021

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

گزشتہ بدھ کو انڈین فلم انڈسٹری بولی ووڈ کی تاریخ ساز شخصیت دلیپ کمار (محمد یوسف خان) کے98 سال کی عمر میں انتقال کے بعد ایکٹنگ کا ایک باب ختم ہو گیا جس کا آغاز1944 سے ان کی فلم جواربھاٹا سے شروع ہوا ۔11 دسمبر 1922 کو پیدا ہونیوالی اس شخصیت نے تقسیم ہند سے پہلے سے لیکر اب تک کل 60 فلموں میں لازوال کردار ادا کئے، اور اس پرانے بلیک اینڈ وائٹ دور میں اپنے فلمی سفر کا آغاز کرتے ہوئے اپنی اداکاری کی ایسی ایسی چھاپ بٹھائی کہ آ ج کے جدید دورمیں صف اول کے اداکاربھی اب تک ان کی اداکاری کی نقل اتارنے کی کوشش تو ضرور کرتے ہیں لیکن ان کی اداکاری کے عروج کو چھو بھی نہیں سکتے۔

اپنے اس طویل کیریئر میں انہوں نے 1966ء میں اپنی ساتھی اداکارہ سائرہ بانو سے شادی کی۔

(جاری ہے)

جو آج تک ان کے ساتھ رہیں اور اب ان کی بیوہ بن چکی ہیں۔سائرہ بانو کے ساتھ شادی کے بعد ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی، اس کمی کو پورا کرنے کیلئے انہوں نے 1981ء میں عاصمہ نامی خاتون سے شادی کی لیکن یہ شادی بھی 1983ء میں اولاد نا ہونے پر طلاق پر ختم ہو گئی۔ مرحوم نے اپنی آخری فلم 1998ء میں '' قلعہ'' میں کام کیا۔

اس کے بعد انہوں نے فلمی دنیا کو خیرآباد کہہ دیا ۔ لیکن اس دوران انہوں سوشل ورک کا کام نہیں چھوڑا۔ اسی سوشل ورک کی غرض سے وہ اس وقت پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کیلئے شوکت خانم کینسر ہسپتال کی تعمیر کی غرض سے چندہ اکٹھا کرنے کیلئے کئی بار پاکستان اور بیرون ملکوں میں عمران خان کے کندھے سے کندھا ملا کران کے ساتھ گئے۔ ان کے انتقال کے بعد وزیراعظم عمران خان نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ شوکت خانم کینسر ہسپتال کیلئے چندہ اکٹھا کرنے میں 10 فیصد تک سرمایہ دلیپ کمار کی وجہ سے ہی اکٹھا ہو سکا۔

ان کے اسی بے لوث سوشل ورک اور ایک عظیم ایکٹر کے اعتراف کے طور پر بھارتی حکومت نے بھی 1994 ء میں اپنا سرکاری دادا پالیکا ایوارڈ اور اس سے قبل 1991ء میں پدماشری ایوارڈ بھی دیا گیا۔ اس کے علاوہ اپنے فلمی کیرئیر میں 8 مرتبہ بولی ووڈ کا فلم فیئر ایوارڈ بہترین ہیرو بھی حاصل کر چکے ہیں، یہ بھی ایک ریکارڈ ہے۔ 2000ء سے 2006ء تک راجیہ سبھا میں رکن اسمبلی بھی رہ چکے ہیں، لیکن اس سیاسی دور میں سیاست میں عدم دلچسپی کے باعث انہیں اتنی زیادہ کامیابی نہیں مل سکی۔

ان کے اس بہترین کیریئر اور سوشل ورک کے پیش نظر 1998ء میں حکومت پاکستان نے بھی نشان امتیاز سے نوازا۔ اس نشان امتیاز کے اناؤنس ہونے کے بعد بھارت کی بہت سی انتہا پسند تنظیموں نے انہیں یہ ایوارڈ لینے سے روکا اور انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں لیکن وہ ان سب گیدڑ بھبھکیوں کی پرواہ نا کرتے ہوئے پاکستان تشریف لائے اور اپنا ایوارڈ ایوان صدر میں اس وقت کے صدر پاکستان رفیق تارڑ سے وصول کیا۔

ہماری طرح ان کے کروڑوں فین برصغیر کے علاوہ دنیا بھر میں ان کے انتقال پر بے حد سوگوار ہیں ۔انڈیا کے علاوہ وزیراعظم پاکستان سمیت تمام بڑی سیاسی و غیرسیاسی شخصیات نے ان کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔
پچھلے ہی ہفتہ اسلام آباد میں ایک واقعہ پیش آیا جس کو سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ مل گیا۔ اس واقع میں اسلام آباد کا ایک درندہ صفت عثمان مرزا نامی بھیڑیئے نے اسلام آباد میں ہی ایک فلیٹ کے کمرے میں آج سے تقریباً 8 ماہ قبل ایک نوجوان جوڑے کے ساتھ انتہائی نازیبا حرکات کیں۔

مبینہ طور پر عثمان مرزا نامی بدمعاش نے یہ حرکت تو گزشتہ سردیوں میں کی لیکن اس کے بعد بھی وہ اور اس کے ساتھیوں نے ناجانے کتنی نوجوان خواتین کے ساتھ ایسی ہی حرکات کیں ہوں گی اس کا پتہ تفصیلاً انکوائری کے بعد چلے گا۔ اور اس نے جتنی بھی وارداتیں کی ہیں اس کا کسی کو کچھ پتہ نہیں چل سکا ، اس واقع کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بھی واقعہ کا نوٹس لے لیا ہے اور وزیراعظم نے آئی جی پولیس کو ہدایات دیں ہیں کہ اس معاملے پر گہری نظر رکھتے ہوئے اس جانورعثمان مرزا کو عبرت کا نشان بناتے ہوئے قرار واقعی سزا دی جائے۔

تھانہ گولڑہ شریف میں اس واقع کی ایف آئی آر درج ہوگئی ہے جس میں دفعہ 354 لگائی گئی ہے اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دفعہ کے علاوہ بھی کچھ اور دفعات کے تحت کیس درج کیا گیا ہے، جس میں کسی قسم کی کوئی ضمانت نہیں لی جا سکتی، اور اس کی سزا عمر قید اور سزائے موت بتائی جا رہی ہے۔پولیس رپورٹ کے مطابق یہ درندہ صفت عثمان مرزا ایک کرائے کے فلیٹ میں رہائش پذیر تھا اور اپنی تمام ناجائز سرگرمیوں کیلئے اس نے وہ فلیٹ کرایہ پر حاصل کر رکھا تھا۔

جس کو اسلام آباد کے ہی ایک پراپرٹی کا کام کرنے والے بندے A نے اپنی گرل فرینڈB کے ساتھ ڈیٹ مارنے کیلئے کچھ گھنٹوں کیلئے لے رکھا تھا۔ اب اسی دوران یہ عثمان مرزا نامی مرکزی ملزم اپنے دوسرے ساتھیوں عطاالرحمان ، محب بنگش، فرحان شاہین وغیرہ کے ساتھ اس فلیٹ پر چھاپہ مارتا ہے اور وہاں موجود A اور B جوڑے کے ساتھ غیراخلاقی حرکات کرتے ہوئے زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں۔

اور اس کے بعد ان دونوں A اور B کے کپڑوں کو اتار کر ان کی ویڈیو بناتے ہیں۔ اور ان دونوں پر تشدد بھی کرنے کی ویڈیو بناتے ہیں۔ اسلام آباد کے مقامی لوگوں کے علاوہ پورے پاکستان کے عوام اس واقع پر بہت غم و غصہ کا شکار نظر آتے ہیں۔ میڈیا نے اس جانور کے گھر کا ایڈریس بھی شیئر کیا ہے کہ اگر کوئی اپنا غصہ لعنتوں کی شکل میں اتارنا چاہتا ہے تو وہ مکان نمبر 739، گلی نمبر 75،سیکٹر آئی 8/3 ، اسلام آباد جا کر اس کے والد ابرار کے سامنے اپنی بھڑاس نکال سکتا ہے۔

اس 8 ماہ قبل ہونیوالے واقعہ کے بعد یہ شخص A اورB کو بار بار بلیک میل، فون کر کے ہراساں اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتا رہا ہے۔ ان 8 ماہ کے دوران یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس جوڑے A اور B نے نکاح بھی کر لیا ہے اور وہ اپنی اذدواجی زندگی خوش و خرم طریقے سے گزار رہے ہیں،اور جب اسی بدمعاش انسان کی اپنی بنائی گئی ویڈیو وائرل ہو گئی اور سوشل میڈیا کے دباؤ اور ارباب اختیار کے دباؤ میں پولیس نے مقدمہ بھی درج کیا اور اسے اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار بھی کر لیاتو پولیس کو ایک اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑا وہ یہ کہ اسلام آباد کے پراپرٹی ڈیلر حضرات کا ایک گروپ پولیس پر دباؤ ڈالتا رہا کہ اسے ضمانت دیدیں، لیکن تب تک بات بہت آگے نکل گئی اور اب ایسا ہونا ممکن نہیں،پویس نے اس بے غیرت انسانوں کے موبائل بھی قبضے میں لے لئے ہیں اور ان موبائلز میں درجنوں دوسرے نوجوان لڑے اور لڑکیوں کی اسی طرح کی ویڈیوز برآمد ہوئی ہیں جن کے ذریعے یہ گروپ ان سب کو بلیک میل کرتا اور اپنے حرامی پن کا مظاہرہ کرتا رہتا تھا۔

مبینہ طور پر یہ مردود انسان ان ویڈیوز کو انٹرنیشنل ویب سائیڈ ڈارک ویب پر بھی بیچتا رہا ہے اور اس کے ذریعے وہ امریکی ڈالر بھی کماتا رہا ہے۔ آئی جی پولیس نے میڈیا پر آ کر یقین دلایا ہے کہ ان برآمد ہونیوالی ویڈیوز کو سیل کر دیا جائے گا اور انہیں مزید وائرل ہونے سے مکمل روکا جائیگا تا کہ ان ویڈیوز میں موجود لڑکیوں کی زندگی اجیرن ہونے سے بچائی جا سکے۔

پولیس نے اب تک کی خبروں کے مطابق عثمان مرزا اور اس کے ساتھیوں کا ریمانڈ لیکر انکوائری شروع کر دی ہے۔ اب اس واقعہ کے بارے میں پوری قوم کی ایک ہی آواز ہے کہ انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔اب اگر عدالت یا پولیس کی طرف سے کسی عدم توجہ کا مظاہرہ کیا گیا جس کے نتیجے میں یہ لوگ رہا ہو گئے تو یقین کریں کہ پوری قوم اس حد تک غصہ میں ہے کہ اگر یہ حرام خور شخص یا اس کے ساتھی سرعام گھومتے ہوئے کہیں پاکستان کی عوام کو ہی مل گئے تو یہ باغیرت عوام ان کو سرعام ہی سنگسار کردے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :