زیادہ سے زیادہ انتظامی صوبے کی تشکیل سے لسانی نفرتوں کا خاتمہ ممکن

جمعرات 3 ستمبر 2020

Syed Shakeel Anwer

سید شکیل انور

زبان کی بنیاد پر صوبوں کی تشکیل کا خیال نامناسب ہے۔ایام جاہلیت میں اہلِ عرب حسب نسب کو تو بڑی اہمیت دیتے تھے لیکن علاقے کی بنیاد پر اُنھوں نے کبھی اپنی حکومت بنانے کی کوئی تجویز نہ دی تھی۔ اگر کسی صوبے کا نام وہاں بولی جانے والی زبان سے ہی مشروط کردی جائے توصوبہ پختونخواہ میں پانچ چھ زبانیں بولی جاتی ہیں چنانچہ وہاں بھی پانچ یاچھ صوبے ہونے چاہییں۔

اِسی طرح پنجاب کے بھی چارپانچ ٹکڑے کرنے پڑینگے کیونکہ براہوی اور سرائیکی زبانیں حکومت پنجاب کے زیرنگیں علاقوں میں ہی بولی جاتی ہیں ۔علاوہ ازیں سیالکوٹ اور میاں والی کی زبانیں لاہور میں بولی جانے والی زبان سے مختلف ہے۔سندھ میں اُردو‘ کچھی‘ لاسی‘ بلوچی‘ سرائیکی ‘ سندھی اور تَھری زبانیں بولی جاتی ہیں ‘ کیا یہاں چار پانچ صوبے بنادیے جائیں۔

(جاری ہے)

اسی طرح کراچی میں ہندوستان کے ۲۷ صوبوں سے آئے ہوے لوگ مقیم ہیں اور زیر زبر کے فرق سے متعدد زبانیں بولتے ہیں۔اورنگی اور کورنگی کی زبانیں تذکیر وتانیث کو خاطر میں لائے بغیر اپنی مدعا بیان کرتے ہیں۔ اس لیے اس صوبے کے بھی چار پانچ حصے کردیے جائیں۔بلوچستان میں بلوچی‘ بروہی، بولنے والوں کے علاوہ پشتو زبان بولنے والوں کی بھی کثرت ہے چنانچہ اس صوبے کو بھی ئین چار حصوں میں منقسم کردیا جانا چاہیے۔


نئی حکومت کو تشکیل ہوے دو سال مکمل ہوچکے ہیں اور وزارت حاصل کرنے کے خواہشمند سیاسی قبا پوش ابھی تلک صف لگائے کھڑے ہیں اور وفاق کو ہر روز حکومت سے علیحدہ ہوجانے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔اُن کو انتظام و انصرام کی چنداں فکر نہیں ہے۔مجھے یہ کہنے میں قطعئی باک نہیں ہے کہ اگر پاکستان کے زیادہ سے زیادہ اور جلد سے جلد انتظامی صوبے نہ بنادیے گئے تو اِس سرزمیں پر کئی لسانی ممالک جنم لے سکتے ہیں۔

اردو‘ سندھی پنجابی‘ سرا ئیکی‘ بلوچی پشتو ‘ ہند کو‘ براہوی‘ کافری اور دَری خاص خاص زبانیں ہیں جو موجودہ پاکستان میں بولی جاتی ہیں۔بفرض محال اگر زبان کی بنیاد پر پاکستان میں دس صوبے تشکیل دے دیے جاتے ہیں تو کیا یہ متفرق زبانیں بولنے والے لوگ اپنے اپنے صوبوں میں جاکر مقیم ہونے کے بھی پابند کردیے جائینگے؟دس صوبوں کی تشکیل کیسے کی جائے گی اور صوبوں کے درمیان خط تقسیم کی ترکیب کیا ہوگی؟۔

ظاہر ہے کہ یہ کام ایسا ہی ہے جیسے پتھر سے دودھ دوہنے کی کوشش۔ ہاں! انتظامی صوبے بڑی آسانی سے بنائے جاسکتے ہیں۔دو ڈھائی کروڑافراد پر مشتمل علاقے کو ایک صوبہ قرار دے دیا جائے ۔بہت ممکن ہے کہ کچھ قارئین زیادہ سے زیادہ صوبے بنائے جانے کے فوائد جاننا چاہینگے۔اس حوالے سے میری گزارش یہ ہے کہ اس عمل سے سب سے پہلا اور ایک بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ پاکستان سے لسانی تعصب فی الفور تحلیل ہوجائے گا۔ساڈا پنجاب اور میرا بلوچستان یا میرا سندھ اورتیرا پختونستان کہہ کر اپنا سینہ پھلانے والوں کی ہَوا نکل جائے گی۔ سرکاری اہلکار اور صوبے کے ذمہ داران اپنے اپنے علاقوں کا نتظام و انصرام بہتر انداز میں کرسکیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :