بلاول بھٹو اور سندھو دیش کا بیانیہ

ہفتہ 14 ستمبر 2019

Waris Bin Azam

وارث بن اعظم

وفاق کی علامت کہلائے جانے والی بے نظیر بھٹو کے لخت جگر بلاول بھٹو نے سندھو دیش کے دفن نعرے میں ایک نئی روح پھونک دی ہے، بلاول بھٹو نے جمعرات کے روز حیدرآباد میں میٹ دی پریس سے خطاب کیا، اس روز بلاول کے ہاتھ میں کوئی پرچی نہیں تھی، اس نے کچھ دیکھ کر نہیں کہا، بلاول بغیر پرچی کے اٹھائیس منٹ تک بولا اس کے بعد آدھے گھنٹے سے زائد صحافیوں کے سوالات کے جواب دئے، بلاول کا انداز جارحانہ تھا، ایک روز قبل ہی وفاقی وزیر قانون نے کراچی کو انتظامی طور پروفاق سے کنٹرول کرنے کی بات کی تھی، وہ بلاول کے خطاب سے قبل اپنا بیان واپس لے چکے تھے، لیکن بات تو کی تھی، مسئلہ تو اٹھایا تھا ، جواب تو بنتا تھا، خطاب سے قبل بلاول بھٹو کو پریس کلب کا اعزازی ممبر بنایا گیا، بلاول بھٹو نے اپنے خطاب کے دوران حکومت وقت کو للکارتے ہوئے کہا کہ ظلم ایک حد تک برداشت ہوسکتا ہے، کل بنگلا دیش بنا تھا، اگر ظلم کرتے رہے تو کل سندھو دیش بھی بن سکتا ہے اور پختونستان بھی، بلاول نے کہا یہ لوگ آئین کی خلاف ورزی کرتے جارہے ہیں،کراچی پر غیر آئینی قبضے کی کوشش کی تو حکومت کو گھر جانا پڑے گا، بلاول کا یہ بیانیہ سندھ میں تیزی سے مقبول ہوگیا، سندھ کی قوم پرست جماعتوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر اسے تیزی کے ساتھ پھیلایا جارہا ہے، مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے اس بیانئے کو حقارت کی نگاہ سے بھی دیکھا ، کئی افراد نے تو سوشل میڈیا پر اپنے طور ہی بلاول کو غدار کے القابات سے نوازانا شروع کردیا، بلاول کے اس بیانئے پر قوم پرست پھر یکجا ہونا شروع ہوگئے ہیں، بلاول سندھ کارڈ کھیل چکا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے۔

(جاری ہے)


سندھو دیش کے نعرے سے لاکھ اختلاف سہی لیکن بلاول اپنی اس بیانئے پر چل پڑا تو نتائج خطرناک ہوسکتے ہیں، کشمیر پر بھارتی بربریت جاری ہے، ایل او سی پر بلااشتعال فائرنگ سے شہادتیں بھی ہورہی ہیں، بھارتی آرمی چیف آزاد کشمیر سے متعلق بھی بیان دے چکے، صورتحال ابتر ہوتی جارہی ہے، کشمیری ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں ، بیلٹ گنز کا شکار ہورہے ہیں ، ایسے میں ملکی یکجہتی کی جگہ کراچی سے متعلق بیان سوچنے کے مترادف ہے، ملک حالت جنگ میں ہے، حکومتی وزراء کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ نومبر دسمبر میں جنگ ہوسکتی ہے۔

اس وقت ملک کو جوڑنے کی ضرورت ہے، یکجہتی کی فضاء قائم کرنی ہے، دنیا کو مضبوط پیغام دینا ہے، لیکن صورتحال اس کے برعکس ہے، حکومت بشمول سیکیورٹی اداروں کو سوچنا ہوگا، بلاول کا بیانیہ خطرناک ہے، بلاول نے ابھی یہ نہیں کہا کہ سندھودیش بنے گا، اس نے کہا بن سکتا ہے، ہمارا ملک پہلے بھی ٹوٹا تھا، خدارا اب یکجا ہوجاؤ ، اس ملک کو ٹوٹنے سے بچانا ہے ، اب اگر کچھ ہوا تو بلاول کے اس بیانیے کے مطابق صرف سندھودیش نہیں بلکہ سرائیکی اور پختون دیش بھی بن سکتے ہیں، بلاول نے مقتدر قوتوں کو اشارہ دیا ہے کہ اب بھی وقت ہے، یکجا ہوجاؤ، بلاول کے اس بیان سے انحراف نہیں ہوا جاسکتا ، ملکی اداروں اور حکومت وقت کو سوچنا ہوگا کہیں پھر سے غلطی نہ ہوجائے ، کہیں اس کا کوئی دوسرا فائدہ نہ اٹھا لے، بھارت میں تو اب تک خالصتان نہیں بنا کہیں ہمارا ملک دو لخت نہ ہوجائے، ہمیں سوچنا ہوگا، آخر کیوں وفاق کی علامت کہلائی جانے والی پارٹی کے چیئرمین نے یہ بیانیہ اختیار کیا، بلاول بھٹو کے والد سابق صدر آصف زرادری نے الیکشن کے بعد اپوزیشن کے اسمبلیاں توڑنے کے بیانات کی مخالفت کی ، بلاول نے خود بھی حکومت کے خلاف مولانا فضل الرحمان کے اعلانیہ لانگ مارچ سے خود کو دور کیا۔

آرٹیکل 149 کے بیان کے بعد سندھ میں موجود پی ٹی آئی کے اندر سے بھی آوازیں آنا شروع ہوگئی ہیں، گھوٹکی کا ایک پی ٹی آئی ایم پی اے وزیر قانون کے اس بیان کی کھلم کھلا مخالفت کرچکا ہے، حکومت کی اتحادی جی ڈی اے کے سربراہ پیر صاحب پگارا بھی اس کے خلاف اپنا بیان دے چکے، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سندھ میں رہنے والے سندھیوں کو سندھ سے کتنی محبت ہے وہ اس پر مر مٹنے کی باتیں کرتے ہیں ابھی بھی وقت ہے سوچنا ہوگا۔، اس ملک کو بچانا ہوگا، یکجہتی کی فضاء قائم کرنا ہوگی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :