جنرل پرویز مشرف اور اکبر بگٹی

ہفتہ 31 جولائی 2021

Waseem Akram

وسیم اکرم

تین جنوری 2005 کی سرد رات تھی۔ سندھ سے آنے والی ڈاکٹر شازیہ خالد اپنے کمرے میں تنہا سو رہی تھی۔ وہ پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ کے سوئی ہسپتال میں ڈاکٹر تھیں۔ رات کے دو بجے انکے کمرے میں ایک ماسک پہنے شخص داخل ہوتا ہے اور بندوق کے زور پر ڈاکٹر شازیہ کو متعدد بار زیادتی کا نشانہ بناتا ہے اور ٹیلی فون کی تار سے باندھ کر چلا جاتا ہے۔

۔۔
ڈاکٹر شازیہ جب خود کے زور پر آزاد ہوکر باہر نکلتی ہیں تو زندگی ان کیلئے اور بھی تلخ ہوجاتی ہے۔ انہیں دو دن تک کسی سے ملنے ہی نہیں دیا گیا۔ سوئی فیلڈ ہسپتال کے چیف میڈیکل آفیسر ڈاکٹر عثمان اور سکیورٹی اہلکاروں نے ڈاکٹر شازیہ سے زبردستی ایک بیان پر دستخط کروائے کہ ان کے ساتھ ڈکیتی کی واردات ہوئی ہے اور وہ کوئی بھی رپورٹ درج نہیں کروانا چاہتیں۔

(جاری ہے)

۔۔
اس کے بعد ڈاکٹر شازیہ کو زبردستی کراچی منتقل کیا گیا اور انکے دروازے کے باہر سخت سکیورٹی لگا دی گئی اور وہ کمرہ جہاں اس کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی سارے ثبوت مٹا کر انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ ڈاکٹر شازیہ سے پاسپورٹ لے کر انہیں ویزہ لگوا دیا گیا اور کچھ ہی دنوں میں وہ باہر چلی گئیں۔۔۔
ڈاکٹر شازیہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے مجرم کو تو نہ دیکھ سکی لیکن کچھ لوگ آرمی کے ایک آفیسر پر یہ الزام لگا رہے تھے۔

سوئی کے مقام ڈیرہ بگٹی میں ہونے والے اس واقعے کی خبر اب تک سردار نواب اکبر بگٹی تک پہنچ چکی تھی اور وہ اب سیخ پا ہوچکے تھے۔ اکبر بگٹی حکومت سے مطالبہ کرنے لگے کہ جس کیپٹن پر الزام لگا ہے اسے اور دیگر ساتھیوں کو جرگے میں پیش کیا جائے اور وہ کوئلوں پر چل کر دکھائیں کہ وہ بےگناہ ہیں۔۔۔
اب ظاہر ہے یہ مطالبہ انکا نہیں مانا گیا جس سے بگٹی قبائل شدید ناراض ہوئے اور مسلح افراد نے سوئی فیلڈ پر درجنوں راکٹ حملے شروع کردیئے۔

سوئی فیلڈ جہاں سے پاکستان کی پینتالیس فیصد گیس کی سپلائی جاتی تھی مکمل طور پر بند ہوگئی۔ کراچی اور لاہور سمیت ملک کے کئیں بڑے شہروں میں گیس کی سپلائی بند ہوگئی۔۔۔
حکومت نے بگٹی قبائل کے سردار اکبر بگٹی سے بات چیت کی کوشش کی لیکن اکبر بگٹی نے ڈاکٹر شازیہ کے مجرموں کو پکڑنے سے پہلے کوئی بھی بات کرنے سے انکار کردیا۔  اس دوران جنرل پرویز مشرف نے اکبر بگٹی کے خلاف ریاست کو چیلنج کرنے پر ایکشن کے آرڈر جاری کردیئے۔

۔۔
جنرل پرویز مشرف نے ڈیرہ بگٹی میں فوج بھیجنے کا فیصلہ کرلیا اور  ساتھ دھمکی بھی دی کہ اگر راکٹ حملے بند نہ کیئے گئے تو وہاں سے ہٹ کروں گا کہ پتہ بھی نہیں چلے گا۔ اس کے بعد ڈیرہ بگٹی باقاعدہ میدان جنگ بن گیا۔ مارچ میں ایک بڑا حملہ ہوتا ہے جس میں تیس سے زائد بگٹی کے بندے مار دیئے جاتے ہیں۔۔۔
اکبر بگٹی تمام قبائل کے سردار تو تھے لیکن بہت سے قبیلے اکبر بگٹی کے سخت مخالف تھے کیونکہ انکے لاکھوں لوگوں کو اکبر بگٹی نے بلوچستان چھوڑنے پر مجبور کر رکھا تھا یہی وجہ تھی کہ اکبر بگٹی کے مخالف قبائل جنرل پرویز مشرف کا ساتھ دینے لگے۔

۔۔
اس وقت کی حکمران جماعت مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے اکبر بگٹی سے مذاکرات کی کوشش کی جس میں کافی حد تک یہ لگنے لگا تھا کہ اب دونوں طرف کی برف پگھلے گی اور مزید خون نہیں بہے گا لیکن ہوا کچھ یوں کہ جنرل مشرف ڈیرہ بگٹی کے اوپر فرنٹیئر کور کی پوسٹس کا دورہ کررہے تھے اس وقت ان کے ہیلی کاپٹر پر چھ سے آٹھ راکٹ فائر کیئے گئے لیکن یہ راکٹ جنرل مشرف کو ہٹ نہ کرسکے۔

۔۔
ان حملوں کے بعد مشرف نے اکبر بگٹی کے خلاف فل سکیل آپریشن شروع کردیا جبکہ دوسری طرف مسلح جماعتوں نے گیس پائپ لائنوں، بجلی کے گرڈ اسٹیشنوں اور ریلوے لائنوں پر حملے شروع کردیئے۔ اکبر بگٹی اب پہاڑوں میں روپوش ہوچکے تھے لیکن کچھ ہی دنوں بعد آرمی نے اسے اپنے مسلح لوگوں کے ساتھ ایک غار میں تلاش کرلیا۔ سات فوجی جب غار میں داخل ہوئے تو غار کی چھت اچانک گر گئی اور اکبر بگٹی اپنے ساتھیوں سمیت وہیں دفن ہوگئے لیکن اس غار میں چار فوجی افسر اور ایک سپاہی بھی شہید ہوگیا۔ اکبر بگٹی کی موت کے چھ دن بعد انکی لاش کو نکالا گیا اور ایک تابوت میں بند کرکے ڈیرہ بگٹی لایا گیا مختصر سی نماز جنازہ پڑھا کر انہیں ڈیرہ بگٹی میں ہی دفن کردیا گیا۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :