Live Updates

قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 2022-23کے بجٹ پر بحث جاری رہی، اراکین نے مختلف تجاویز دیں

اگر وزرا اور اپوزیشن اراکین اہم نوعیت کے اجلاس میں موجود نہیں ہوتے تو پھر ہمارے بولنے کا کوئی مقصد نہیں ، صابر حسین قائمخانی حکومت اپنے اخراجات میں جس حد تک ہو سکے مزید کمی لائے، ہمیں پاکستانی ہونے ناطے پاکستانی مصنوعات استعمال کرنی چاہئیں ، خطاب

بدھ 15 جون 2022 23:51

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 جون2022ء) قومی اسمبلی میں بدھ کو بھی آئندہ مالی سال 2022-23کے بجٹ پر بحث جاری رہی جس میں اراکین کی جانب سے مختلف تجاویز دی گئیں ۔اجلاس کے دوران آئندہ مالی سال کے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے صابر حسین قائمخانی نے کہا کہ سوالات کے جواب دینے کے لئے وزرا کو ایوان میں موجود ہونا چاہیے ، اگر وزرا اور اپوزیشن اراکین اس طرح کے اہم نوعیت کے اجلاس میں موجود نہیں ہوتے تو پھر ہمارے بولنے کا کوئی مقصد نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کو بیٹھنا چاہیے تاکہ بجٹ پر مثبت تجاویز پیش کریں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ پوری دنیا میں جو معاشی بحران چل رہا ہے اس سے ہم اپنے غریب عوام کو نکال سکیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ہمیں پاکستانی ہونے ناطے پاکستانی مصنوعات استعمال کرنی چاہئیں تاکہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر پر اس سے کوئی اثر نہ پڑے اور ہمارا امپورٹ بل کم سے کم ہوسکے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے اخراجات میں جس حد تک ہو سکے مزید کمی لائے، افراط زر بڑھ رہا ہے اس کو بھی کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ صابر حسین قائمخانی نے کہا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، حکومت زراعت کے شعبے کو اولین ترجیحات میں رکھے اور اس شعبہ کو خصوصی سبسڈی دے تاکہ ملک زرعی شعبے میں خودکفیل ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے آنے والی نسلوں کو ایک بہتر پاکستان دینا ہے۔

امپورٹ پر پابندی حکومت کا اچھا فیصلہ ہے، اس سے ہمارے ذخائر بڑھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ موبائل فون پر حکومت نے ٹیکس لگایا ہے اس پر نظرثانی کرنی چاہیے، ہماری نوجوان نسل جو زیادہ تر موبائل استعمال کر رہی ہے، وہ متاثر ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پسماندہ علاقوں کو ترقی دینا ہوگی ۔ انہوں نے کہا کہ ایکسپورٹ انڈسٹری کو مضبوط کرنا ہوگا تاکہ ہماری ایکسپورٹ آئندہ سال اس سے بھی مزید بڑھ جائیں۔

انہوں نے کہا کہ آبادی کی بنیاد پر شہری علاقوں کو ترقیاتی فنڈز دینے چاہئیں، ترقیاتی فنڈز کے حوالے سے حکومت من پسند افراد کو نہ نوازے بلکہ تمام علاقوں میں بلا تخصیص فنڈز تقسیم کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے بھی لوگوں سے بہت سے وعدے کئے تھے لیکن وہ نہ اس ایوان میں موجود ہے اور نہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ایک اچھا پروگرام ہے، حکومت نے اس کے فنڈز بڑھا دیئے ہیں، کرنٹ اکائونٹ خسارہ کنٹرول کرنا چاہیے اور آئی ٹی انڈسٹری کو بھی مزید بہتر بنایا جائے۔

بحث میں حصہ لیتے ہوئے برجیس طاہر نے کہا کہ نبی پاکؐ کی وجہ سے ہم مسلمان ہیں اور جب تک ہم نبیؐ سے اپنے والدین، اولاد اور مال سے زیادہ محبت نہیں کرتے ہمارا ایمان سلامت نہیں رہ سکتا۔ بھارت میں نبیؐ کی شان میں گستاخی قابل مذمت ہے۔ انہوں نے کہا کہ خورشید شاہ نے آج ایوان میں بات کی ہے وہ حقیقت ہے، ہمیں اس ایوان کو تکریم دینا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ساڑھے تین سالوں میں چار وزرا خزانہ تبدیل ہوئے۔

20 ہزار ارب روپے قرضہ لیا گیا لیکن اس کے باوجود ملک میں تعمیر و ترقی کی ایک اینٹ بھی نہیں لگائی گئی۔ 7 کروڑ لوگوں کو خط غربت سے نیچے پھینکا، 70 لاکھ کے قریب لوگ بیروزگار ہوئے۔ یہ گند صاف کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ سابق وزیراعظم نے جاتے جاتے ایسا ماحول پیدا کیا اور بارودی سرنگیں بچھا کر چلے گئے، آئی ایم ایف سے 175 صفحات پر مبنی معاہدہ پی ٹی آئی نے کیا تھا مگر اس کو پڑھنے کی زحمت نہیں کی گئی۔

ہم گندم، چینی اور خوردنی تیل بڑی مقدار میں درآمد کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج یہ حالت آگئی ہے کہ غریب آدمی روٹی کے چکر میں پڑ گیا ہے، ان بدترین حالات میں اتحادی حکومت نے مشاورت سے بجٹ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں حکومت کا مشکور ہوں جس نے کسان، کاشتکار اور زراعت کی بات کی ہے اور اس شعبہ کو مراعات دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹریکٹر اور ادویات پر سیلز ٹیکس کا خاتمہ اور جعلی ادویات کے تدارک کیلئے اقدامات کئے گئے ہیں۔

انہوںنے کہاکہ زرعی مشینری پر ڈیوٹی نہیں ہوگی، کھادوں پر سبسڈی ہوگی، اس سے ملک میں زرعی پیداوار میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لئے عملی اقدامات کئے، مہمند ڈیم مکمل کرنے کے لئے بجٹ میں خطیر رقم مختص کی گئی ہے، داسو ڈیم اور دیگر ڈیموں پر کام ہو رہا ہے۔ انہوںنے کہاکہ پی ایس ڈی پی میں اضافہ کیا گیا ہے، اسی طرح تعلیم کے لئے فنڈز بڑھا گئے ہیں۔

سرکاری ملازمین اور پنشنرز کے لئے حکومت نے جامع پیکج دیا ہے جو خوش آئند ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابق خاتون اول نے ملک ریاض سے پانچ ارب روپے لئے، ملک ریاض کو برطانیہ سے ملنے والے 50 ارب روپے واپس کئے گئے۔ انہوں نے ڈیم کے نام پر فنڈز کی تفصیلات ایوان کے سامنے پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔ آٹے، چینی اور ادویات میں سابق حکومت نے اربوں روپے کی کمائی کی ہے۔

پیپلز پارٹی کے رکن سید مصطفی محمود نے کہا کہ وزرا کو اس ایوان میں موجود ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ رحیم یار خان اور اس سے ملحقہ علاقوں میں وبائی امراض زیادہ ہیں۔ جنوبی پنجاب نے ہمیشہ حکمران جماعت کا ساتھ دیا تاہم وہ محروم اور پسماندہ ہیں،تعمیر و ترقی میں ہمارا بھی حصہ ہونا چاہیے، مقامی حکومتوں کے تحت مقامی سطح تک فنڈز جانے چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ مہنگائی کی وجوہات تلاش کی جائیں،ہم ہر دفعہ خسارے کا بجٹ لے کر آتے ہیں اور اضافی نوٹ چھاپتے ہیں، اس وجہ سے مہنگائی بڑھتی ہے، ہمیں فیول کوالٹی کو بہتر بنانا ہوگا، یورو فائیو کا دائرہ کار پورے ملک تک بڑھایا جائے۔ گزشتہ حکومت کی الیکٹرک کار پالیسی اور بلین ٹری منصوبہ بارے آگاہی زیادہ کی گئی، بجٹ میں سولر پینل پر ٹیکس ختم کرنے کا فیصلہ اہم ہے، ہر سرکاری عمارت سولر پر چلنی چاہیے، الیکٹرک کار کی درآمد کی اجازت دی جائے۔

رئیل سٹیٹ میں بلیک مارکیٹ ختم کی جائے۔ علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری کئے جائیں۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن رائو اجمل نے کہا کہ ہمارے دیہی علاقوں میں دو دن سے ڈیزل نہیں مل رہا، دھان کی کاشت اور مکئی کی ہارویسٹنگ کرنی ہے اس بارے میں ہدایات جاری کی جائیں،زمیندار کو اس کا نقصان پہنچ رہا ہے، سپیکر نے ہدایت کی کہ اس معاملے کو دیکھا جائے۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن نور الحسن تنویر نے کہا کہ ملک و قوم کے چار سال ضائع ہوگئے،قوم کو نئی حکومت سے امیدیں وابستہ ہیں،نواز شریف نے پاکستان کے عوام کو سہولیات دیں، کاشتکاروں کو سولر پینل سے چلنے والی ٹربائنیں مہیا کی جائیں،فورٹ عباس میں اسلامیہ یونیورسٹی کا کیمپس دیا جائے، چشتیاں، ہارون آباد کو موٹروے سے منسلک کیا جائے، تارکین وطن کے لئے اسمبلی میں نشستیں مختص کرنے کے اقدام کو فوری حتمی شکل دی جائے، حکومت تارکین وطن کو وطن واپسی پر ایک فون لانے کی سہولت دے۔

انہوں نے کہا کہ بڑے شہروں میں اوورسیز پاکستانیوں کے لئے بلاک مقرر کئے جائیں تاکہ انہیں کم قیمت گھر بنانے میں مدد مل سکے۔ وہ ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن شیخ سعد وسیم نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ حکومت سے پٹرول ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ، بیڈ گورننس ، افراط زر ، تجارتی خسارے، لوڈشیڈنگ ، سیاسی بحران ورثہ میں ملے۔

مسلم لیگ (ن) کے دور میں افراط زر 9 فیصد جبکہ پی ٹی آئی کے دور میں 14 فیصد، فوڈ انفلیشن 15 فیصد چھوڑ کر گئے۔ آٹا، چینی، پٹرول ہر چیز مہنگی ہوئی۔ کھاد، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا۔ مالی خسارہ 56 سو ارب تک پہنچا دیا۔ سرکلر ڈیٹ 26 سو ارب سے تجاوز کر گیا۔ یہ حالات پاکستان کی تاریخ کے برے ترین اور پاکستان کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

انہوں نے کہا کہ معاشی پالیسیوں کے حوالے سے اس ایوان میں اتفاق رائے ہونا چاہیے۔ بیرونی سرمایہ کاری سے ہم اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکتے ہیں۔ تعلیم دنیا کو تبدیل کرنے والا واحد ہتھیار ہے اس کا بجٹ بنگلہ دیش کی طرح مختص کیا جائے۔ مسلم لیگ فنکشنل کی سائرہ بانو نے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ بجٹ کو بجٹ نہیں کہہ سکتی بلکہ ڈکٹیشن ہے۔

بجٹ کے اعداد و شمار ہمیں نہیں معلوم، عوام کا بڑا مسئلہ روٹی ہے۔ بجٹ میں کئی اعداد و شمار حقیقت نہیں بلکہ مفروضوں پر مبنی ہیں۔ ریلویز، پی آئی اے سمیت ہر ادارے کا برا حال ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت کے جن اقدامات پر تنقید ہوتی تھی وہی اقدامات موجودہ حکومت کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیورو کریسی کو پٹرول مفت ملتا ہے تو 40 فیصد کٹوتی کس طرح ہوگئی۔

کسانوں کو سبسڈی کی بات کی گئی ہے لیکن پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں اضافہ کرکے واپس لیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف والے ہمیشہ عوام پر بوجھ ڈالنے کا کیوں کہتے ہیں، وہ حکومت کے اخراجات کم کرنے کی بات کیوں نہیں کرتے۔ خرچ اور پروٹوکول کم کرنے کی ضرورت ہے۔ فلم انڈسٹری پر سبسڈی دینے کی بجائے حج پر سبسڈی ملنی چاہیے۔ ڈاکٹر مہیش کمار نے کہا کہ آئی ایم ایف سے عمران خان کی حکومت نے معاہدہ کیا اور مہنگائی کی اور جب عدم اعتماد بارے میں خبر ہوئی تو انہوں نے آئی ایم ایف سے پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کا معاہدہ کی خلاف ورزی کی، ان اقدامات سے ملک کو نقصان ہوا، اس لئے حکومت نے پٹرول، ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کیا، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جاری رکھنے اور اس میں اضافہ پر وزیراعظم کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے رکن ڈاکٹر مہیش کمار نے کہا کہ ہم غیر مسلم ہیں، نبی کریمؐکی عزت کرتے ہیں، ان کی شان میں نازیبا الفاظ برداشت نہیں کر سکتے، وہ صرف مسلمانوں کے نہیں تمام انسانیت کیلئے رحمت اللعالمین بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ بھارت میں مسلمانوں پر مظالم کی مذمت کرتے ہیں۔ دنیا نے اس پر نظریں بند کر رکھی ہیں، وہاں اقلیتوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔

انہوںنے کہاکہ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل تحفظ حاصل ہے،پیپلز پارٹی میں ذات پات، رنگ و نسل کا کوئی فرق روا نہیں رکھا جاتا، دنیا پاکستان میں ہم آہنگی اور بھارت میں ظلم کی صورتحال کا جائزہ لے اور بھارت کو سبق سکھائے۔پیپلز پارٹی کے رکن میر منور تالپور نے کہا کہ صحافیوں کے خلاف کوئی زیادتی ہو تو جمہوری حکومت اس کا نوٹس لے، سندھ میں پانی کی قلت ہے اس سے بہت مسائل ہیں اس کو دیکھا جائے۔

سپیکر نے وزیر پارلیمانی امور کو ہدایت کی کہ اس معاملے کو دیکھیں۔اجلاس کے دور ان وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایوان میں بتایا کہ 15 سے 20 روز کے بعد بارشیں شروع ہو رہی ہیں اور چاول کے کاشت والے علاقوں میں کاشت کا سیزن بھی ہے، اس وقت این ایف ایم ایل اور این ایف سی کے پاس تقریبا 20 لاکھ بوریاں یوریا کی پڑی ہیں، ان کو جون سے پہلے تقسیم کرنا ہے، یہ یوریا وزارت صنعت و پیداوار کی کسٹڈی میں ہے۔ میری درخواست ہے کہ کسانوں کو یوریا کی فراہمی میں تاخیر نہ کی جائے۔ سپیکر نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ وزارت صنعت و پیداوار اس حوالے سے ایکشن لے گی اور کسانوں کو بروقت یوریا کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔بعد ازاں قومی اسمبلی کا اجلاس (آج) جمعرات کی صبح 11 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات