Live Updates

عدم اعتماد کے بعد انتخابات میں چلے جاتے تو سیاست بچ جاتی لیکن ریاست نہیں بچنی تھی‘ خواجہ سعد رفیق

نیب کو ختم ہونا چاہیے اوروقت آئے گا جب نیب ختم ہو گی ،احتساب کا آزاد ادارہ بنے گا اور اس پر کوئی دبائو نہیں ہوگا سیاستدان پاکستان کے مفادات میں بات نہیں کریبگے تو بہتر ی نہیں ہو سکتی ،جو آمادہ ہی نہیں اسے زورلگانے دیا جائے ای وی ایم مشین کے ذریعے کامیابی حاصل کر کے مرضی کی تعیناتیاںکر کے مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا‘ وفاقی وزیر ریلوے جو عمران خان پر احسان کرتا ہے یہ اسی کو ڈستا ہے ، عمران خان کے خلاف توشہ خانہ سے متعلق سپیکر کو ریفرنس بھجوا دیا‘ ایاز صادق پاکستان ، فوج سے متعلق ہرزہ سرائی پر قرارداد پر ریفرنس حکومت کو بھیجیںکبھی تو آرٹیکل چھ لگانے کی بات کریں ‘ ہیڈ کوارٹر میں پریس کانفرنس

اتوار 3 جولائی 2022 18:05

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 03 جولائی2022ء) وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہہمارے لئے راستہ موجود تھا کہ عام انتخابات میں چلے جاتے لیکن بتایا جائے آئی ایم ایف سمیت دنیا کے کس ملک نے نگران حکومت سے بات کرنا تھی ،پھر پاکستان کا کیا بننا تھا ،سیاست بچ جاتی لیکن ریاست نہیں بچنی تھی ،نیب کو ختم ہونا چاہیے اوروقت آئے گا جب نیب ختم ہو گی اوراحتساب کا آزاد ادارہ بنے گا اور اس پر کوئی دبائو نہیں ہوگا،عمران خان جیسے شخص سے آپ عقل کی بات کر ہی نہیں سکتے ، سیاستدان آئینی فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے اختلافات کے باوجود پاکستان کے مفادات میں بات نہیں کریں گے تو بہتر ی نہیں ہو سکتی لیکن جو بات کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہے ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ اسے زور لگانے دیں جب تھک جائے گاپھر بات ہو جائے گی،یہ ای وی ایم مشین کے ذریعے کامیابی حاصل کر کے اپنی مرضی کی تعیناتیاںکر کے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا، پاکستان کا ایسا کون سا چور ہے ہے جو تمہاری بکل میں موجود نہیں ، تم جس کا کھاتے ہو اس کو کاٹتے ہو ،آج انہیں کاٹ رہا ہے جو اسے انگلی پکڑ کر چلاتے تھے ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے وفاقی وزیر سردار ایاز صادق کے ہمراہ ریلوے ہیڈ کوارٹر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ جو بھی آج پاکستان اور پاکستانی قوم بھگت رہی ہے بشمول ہمارے ہے یہ اس شخص اور اس کے نالائق ٹولے کا کیا دھرا ہے اورہم حیران ہیں کہ وہ کس بے شرمی اور بے حیائی کے ساتھ اس بات کا پر چار کر رہا ہے کہ وہ ملک کو بچارہا تھا۔

صرف ریلوے کی بات لے لیںتو 45ارب روپے کا خسارے ریلوے کو دے گئے ہیں ،ہم نے اسے 36ارب تک چھوڑا تھا اور جسے دو سے تین ارب سالانہ کم ہو نا چاہیے تھا وہ 11ارب روپے بڑھ گیا ہے اور جو آمدن ہم نے چھوڑی تھی اس میں برائے نام اضافہ کیا ہے ، یہ سارے نظام کو تلپٹ کر گئے ہیں اوریہ صرف ریلوے کا حال نہیں ہے بلکہ ہر ادارے کا عمران مافیا اور اس کے ساتھ جو سیاسی مسخرے اور سیاسی یتیم تھے انہوں نے کباڑہ کر دیا ہے ۔

اب یہ شخص تواتر سے جو کہہ رہا ہے اس کے لیء ضروری ہو گیاہے کہ اس کا ساتھ ساتھ جواب دیا جائے ۔ جو آدمی دوسروں کو چور کہتا ہے وہ خود کیا ہے وہ عادی چور ہے عادی مفت خورہ ہے یہ ساری زندگی لوگوں کے مال پر پلا ہے ۔ اس سے کوئی پوچھے تم تین سو کنال کے گھر میں رہتے ہو لیکن تھوڑا سا انکم ٹیکس دیتے ہو،اتنا بجلی کا اتنا بل نہیں آتا جتنا تم انکم ٹیکس دیتے ہو ، تمہارا کاروبار کیا ہے تم تو لوگوں پرانگلیاںاٹھاتے ہو تمہارا کاروبار کیا ہے ، تم کہتے ہو فلاں کے بچے باہر بیٹھے ہیں تمہارے اپنے بچے کالا شاہ کاکوں میں رہتے ہیں ۔

ہم تو آج کہہ رہے ہیں ڈاکٹر اسرار مرحوم اور حکیم سعید مرحوم دہائیوں پہلے بتاگئے تھے کہ پراجیکٹ عمران لانچ ہو رہا ہے ۔ بعض لوگوں کو یہ ہضم نہیں ہو رہا کہ پراجیکٹ ناکام کیسے ہوگیاہے ، پراجیکٹ اس وقت ناکام ہو گیا کیونکہ یہ نان سٹارٹر تھا ،آ جا کر اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کو آوازیں دے رہا ہے کہ آئیں اور ملک کو بچائیں،اس کا کیا مقصد ہے ، یہ وہ آدمی ہے جوآئین سے کھلواڑ کرتا ہے ،جمہوریت کانام بھی لیتا ہے اور آئین کی حدود سے تجاوز بھی کرتا ہے اس کے صدر کا بھی یہی حال ہے اس کے سپیکر کا بھی یہی حال ہے ، انہوں نے آئین کو ردی کی کتاب سمجھا ہے اس سے پہلے یہ کام مارشل لاء ڈکٹیٹر کرتے تھے یہ ان سے بھی بد تر ہے ،بظاہر جمہوری لیڈر ہے لیکن آئین و قانون سے کھلواڑ کرتا ہے ،جو اس کی لائن پر نہیں چلتا یہ اسے کو گالیاں نکالتا ہے ،سوشل میڈیا کے ذریعے بے عزتی کراتا ہے ، اس کی پوری پارٹی اسی کام پر لگی ہوئی ہے ،گھر سے لے کر جماعت تک سب کا ایک ہی کام ہے ،یہ چاہتے ہیںجادو ٹونے سے لوگوں کو پاگل کرو چور بنائو یا غدار بنائو،غداری کے ٹائٹل مارشل لاء ڈکٹیٹر دیا کرتے تھے یہ سول مارشل لاء ڈکٹیٹر ہے ،یہ نادان آدمی ہے یہ کہتا ہے اس کی آواز کے سوا کسی کی آواز نہیں ہے ، بائیس کروڑ کا ملک ایک غیر متوازن آدمی کی خواہشات کا غلام نہیں ہو سکتا۔

احسان فراموش اس کی فطرت ہے جس نے اس کے ساتھ احسان کیا اس نے اس کو ڈسا اس کی تھالی میں چھید کیا ، آج کل جن کو گالیاں دے رہا ہے وہ اس کے محسن ہے وہ اسے انگلی پکڑ کر چلا رہے تھے ، اسے تو دو قدم چلنے نہیں آرہا تھا،وہ آپ کے لئے دوسرے ممالک میں گئے جو تمہارا کام تھاانہوں نے کیا ،پیسے مانگے کہ کسی طرح ملک چلے ، نالائق کا کام وہ کرتے تھے تب ٹھیک تھے ،جب اسے مشورہ دیتے تھے اپوزیشن پر یلغار بند کرو ملک کو چلائو اپوزیشن کو دیوار میں زندہ چننا تمہارا کام نہیں لیکن اس نے ایک بات نہیں سنی ۔

انہوں نے کہا کہ یہ کہتا ہے سازش ہوئی بتائو کیا سازش ہوئی ، تم کسی سے ہاتھ ملانے کے روادار نہیں ،تمہیںاپنے ساتھیوں کے نام یاد نہیں ،تم خود خوشامدی ،درباریوں اورمیراثیوں میں گھرے ہوئے تھے ،کیا لوگوں نے تمہارے ساری زندگی رہنے کا معاہدہ کیا ہوا تھا ،ہم نے تمہارے لوگوں سے رابطہ کیا یا انہوںنے کیا ، کیا آئین میں تحریک عدم اعتماد کی شق موجود نہیں ، ہم پوری ذمہ داری سے کہتے ہیں ہم نے کسی کو ایک آنے کی پیشکش نہیں کی نہ کسی نے ایک آنامانگا ۔

انہوں نے کہا کہ آج یہ مہنگائی کا رونا رو رہا ہے ، یہ تم کر گئے ہو ، آئی ایم ایف سے معاہدے تم نے کئے ، ہم تو اپنے دور میں آئی ایم ایف کوخدا حافظ کہہ تھے، لوڈ شیڈنگ صفر کر گئے تھے ، آج تم پھر اربوں روپے کا سرکلر ڈیٹ کا تحفہ دے گئے ہو ، ہمیںتو جلتا بلتا پاکستان ملا ہے ۔انہوں نے کہا کہ سب سے آسان تھا ہم بھاگ جاتے ، عدم اعتماد ہو گئی تھی ،عام انتخابات توہمارا مطالبہ تھا پھر کیا ہوا ، ہم نے تو ذہن بھی بنا لیا تھا نکل جانا چاہیے اور فریش مینڈیٹ لینا چاہیے ۔

عمران خان میں صبر نہیں ہے اگر صبر کرتا تو کچھ ہوتا ۔یہ اقتدار جانے کے خوف سے مرا بھی جارہا ہے اور اقتدار جانے کے خوف سے ڈرا بھی جارہا ہے کیونکہ اس نے سختی تو کوئی کاٹی نہیں، اسے صرف یہ شوق ہے کہ مخالفین کو جیل میں ڈال دو ، خود تم سے ڈھائی دن جیل میں نہیں نکلے ۔ ہمارے لئے راستہ موجود تھا کہ عام انتخابات میں چلے جاتے ،90دن کے لئے نگران آتے ، ان سے دنیا میںکسی نے بات نہیں کرنی تھی ،آج نظام کو چلانے کے لئے ہمارے لئے بات کرنا مشکل ہوا ہے ۔

نگران سے آئی ایم ایف نے بات نہیں کرنی تھی پھر پاکستان کا کیا بننا تھا ،سیاست بچ جاتی لیکن ریاست نہیں بچنی تھی ، کوئی سیاسی جماعت مہنگائی کا نہیں بوجھ نہیںاٹھا سکتی کہ اپنے منہ پر کالک مل لے اور کالک بھی کسی اور کی ہو ۔ یہ سمجھتا ہے عوام بے وقوف ہیں ،عو ام بیوقوف نہیں ہیں ،تمہارے جو پاگل قسم کے حامی ہیں وہی پاکستان نہیں ہیںپاکستان اور ہے ، لوگ حقائق جانتے ہیں جانتے ہیں تم ملک کے ساتھ کیا کر کے گئے ہو ۔

تم پاکستان کو جہاں چھوڑ آئے ہو وہاں سے واپسی آسان نہیں ہے ۔ تم کہتے ہوئے امپورٹڈ حکومت ہے ،تمہارا صدر امریکی سفیر سے اسناد وصول کرے، ایوان صدر میں گارڈ آف آنر دے کیا ہم نے کہا ہے ، امریکیوں کے ہم ایجنٹ ہیں ۔ نواز شریف نے ایٹمی دھماکوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا تھا ، سی پیک لے کر آئے ،سپر پاور کو اچھا نہیں لگا ، تم نے سی پیک کو رول بیک کیا حالانکہ سی پیک گیم چینجر تھا، چار سال میں تم نے سی پیک پر ایک قدم آگے نہیں بڑھایا بلکہ منجمد کر دیا ، ایم ایل ون پر کچھ ہوا ہے ،نالائق کی وجہ سے صرف ایک پراجیکٹ کی لاگت تین بلین ڈالر بڑھ گئی ہے ۔

انہوںنے کہاکہ یہ پاکستان کو بھنور میں پھنسا گیا ہے لیکن آج نیروکی طرح پھانسی بجا رہا ہے کہ ٹھیک ہے ملک جل رہا ہے ،جو اتحادی ہے ذمہ داری ان کے کندھوں پر آ گئی ہے ، ملک جل رہا ہے اس نے صرف ہاتھ سینکنے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اگر غداری ہو رہی تھی تو تم جوڈیشل کمیشن بناتے، تمہارے حامی تو ہر جگہ موجود ہیں،اس کی صرف یہ کوشش تھی کہ اداروںکی مداخلت کرائی جائے ، کیا اداروں کا کام ہے کہ ملک میں فیصلہ کریں ، ووٹ کی طاقت سے بدلا جائے گا۔

یہ اداروںکو بر ملا کہتا ہے ملک میں تبدیلی لے کر آئیں اس سے بڑی غیر آئینی بات ہو سکتی ہے ، جو جمہوریت کا چمپئن بنتا ہے ڈنکے کی چوٹ پر آئین توڑنے کی بات کرتا ہے اداروں کو آوازیں دیتا ہے ،جب وہ اس کی بات نہیں سنتے تو انہیں گالیاں نکالتا ہے نکوالتا ہے ۔یہ چاہتا ہے تنقید کی جائے ،سیاسی مخالفین میں لڑائی کرائی جائے تاکہ انتشار پیدا ہو اداروں سے نفرت پیدا ہو ، تم کس کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہو اس سے پوچھا جانا چاہیے ۔

یا تو یہ دیوانہ ہو گیا ہے یا اتنا مکار آدمی ہے کہ میںسازش کرتا جائوں گا اوراتنا جھوٹ بولوں گا کہ سچ کا گمان ہونے لگے گا۔ تم پنجاب کو کس کے ذریعے چلا رہے تھے وہ محترمہ آج بھاگ گئی ہیں ،عثمان بزدار کی نالائقی اور لوٹ مار کے قصے زبان زد عام ہیں ، لوگ ہم سے سوال کرتے ہیں پکڑتے کیوں نہیں ہیں ، یہ ہمار اکام نہیں ہے ہم پی ٹی آئی نہیں ہیں کہ پکڑ دھکڑ میںلگ جائیں ،یہ احتساب کے اداروں کا کام ہے ۔

یہ نیب قانون میں ترمیم کی کرتا ہے ہم کیس ختم کرانا چاہتے ہیں اگر جھوٹ کی بنیاد پر مقدمات بنیں تو یہ کیس ختم ہونے چاہئیں، میں اور میر ابھائی سو لہ ماہ جیل میں رہے ،کیا اعلیٰ عدالتوں نے عمران خان کے دور میں ان کے منہ پر کالک نہیں ملی ، مقدمات کے اندر نیب کے بارے میں کیا کیا ریمارکس دئیے گئے، ہم کہہ رہے ہیں قانون میں تبدیلی کی ہے لیکن وہ تبدیلی کی ہے جو عدالتی آبزروسیشن تھی اس کی روشنی میں تبدیلی کی گئی ۔

تم چاہتے ہو دو نمبر لوگوں کو احتساب کے اداروں میں بٹھا دو کیا ملک میں کوئی غلام کا نظام چل رہا ہے ، نیب کوئی پوتر ادارہ نہیں تم نے بھی اسے گندہ کیا ،وہاں اچھے لوگ بھی تھے ، نیب کی وجہ سے ملک کی معیشت کا بیڑہ غرق ہوا ، افسران کسی فائل پر دستخط کرنے کے لئے تیار نہیں تھے،نیب کو ختم ہونا چاہیے اوروقت آئے گا جب نیب ختم ہو گی اوراحتساب کا آزاد ادارہ بنے گا اور اس پر کوئی دبائو نہیں ہوگا۔

جومروجہ قانون ہے اس کے مطابق نیب قانون میں ترامیم ہوئیں کسی کی خواہش کے تابع قانون نہیں بنایا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا ایسا کون سا چور ہے ہے جو تمہاری بکل میں موجود نہیں ، وہ تمہارے خرچے چلاتے ہیں اے ٹی ایمز ہیںتم جس کا کھاتے ہو اس کو کاٹتے ہو ،جہانگیر ترین ،علیم خان کو کاٹا اور آج انہیں کاٹ رہا ہے جو اسے انگلی پکڑ کر چلاتے تھے ،تمہیں کاٹنے کی عادت ہے ۔

تم کہتے ہو میری بائیس سال کی جدوجہد ہے تم نے بائیس سال لفنڈری ہے آوارہ گردی کی ہے ،تم انٹر نیشنل آوارہ گرد ہو،تم نے کون سی سیاسی جدوجہد کی ہے ، مشرف کا ساتھ دے کر کونسی جدوجہد کر رہے تھے،جب گھاس نہیں پڑی تو ہمارے ساتھ آ گئے، آپ کو ڈویلپ کیا گیا ہے اور پیچھے غیر ملکی سرمایہ کاری ہے اس لئے فارن فنڈنگ والا کیس چلنے نہیں دیتے ۔تم کہتے تھے ہم ضمانتوں پر ہیں اور آج خود ضمانتوں پر ہو، کبھی پشاور میں وزیر اعلیٰ ہائوس میں پنا ہ لے لیتا ہے ، یہ بنیادی طور پر فتنہ ہے، اس پر شیاطین اترتے ہیں ، اسے اللہ سے معافی مانگنی چاہیے ، اس نے اور اس کے حواریوں نے بہت بڑا بوجھ اٹھایا ہوا ہے جو اس کے درباری ہے وہ اسے خوش کرنے کے لئے سب کچھ کرتے ہیں ۔

ہم بھی قیادت کا احترام کرتے ہیں اختلاف بھی کرتے ہیں ہمارے بات سنتے بھی ہیں ۔میں برملا کہتا ہوں کہ ملک میں آئیڈیل جمہوری نظام نہیں ہے ، تمہارے سہولت کاروں اور غیر ملکی سپارنسرز بے نقاب ہو رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ آج ملک چلانا مشکل ہوگیا ہے تم نے پاکستان کو نقصان پہنچاہا ہے ۔ سعد رفیق نے کہا کہ سیاستدان اپنے مسائل کو خو دحل کریں ایک دوسر سے سے ڈائیلاگ کریں ، ہم اپوزیشن میں تھے تب بھی ڈائیلاگ کی بات کرتے تھے لیکن یہ اس وقت بھی کہتا تھاکہ این آر او مانگ رہے ہیں ، اس سے بات کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے ،اس سے آپ عقل کی بات کر ہی نہیں سکتے ، گفتگو کیسے کی جائے ، جب فیٹف کا معاملہ آیا تو کیا اداروںنے کردار ادا نہیں کیا ، اپوزیشن ین سپورٹ نہیں کیا تھا ، تم جو فیٹف کا ڈرافٹ لائے تھے اس میں بہتری نہیںلائی گئی ۔

تم تو متحارب سے سلام لینے کے روادار نہیں ،زبان گز بھر لمبی ہے اس سے کیا بات کریں ،سیاستدان آئینی فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے اختلافات کے باوجود پاکستان کے مفادات میں بات نہیں کریں گے تو بہتر ی نہیں ہو سکتی لیکن جو بات کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہے ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ اسے زور لگانے دیں جب تھک جائے گاپھر بات ہو جائے گی ۔خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ یہ ای وی ایم مشین کے ذریعے کامیابی حاصل کر کے اپنی مرضی کی تعیناتیاںکرکے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا، ای وی ایم مشین سے قوم کی خدمت نہیں ملکی جغرافیائی سرحدوں کو تبدیل کرنے کی سازش کررہاتھا۔

خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ عمران خان اب کس کا لاڈلہ ہے جو فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ نہیں سنایا جارہا، اگر کوئی ادارہ نیوٹرل ہے تو یہ چاہتا ہے نیوٹرل نہ رہے،یہ چاہتا ہے مرضی کا آرمی چیف ہو، مرضی کا چیف جسٹس ہواور مرضی کاکٹھ پتلی وزیر اعلی ہو جو اس کے اشارے پر کام کرتا رہے۔وفاقی وزیر سردار ایاز صادق نے کہا کہ ہر پاکستانی عمران خان کو بھگت رہا ہے ۔

جب کشمیر میں فوجیں اتاری جارہی تھیں اس وقت صرف لپ سروس ہوئی ۔ہم نے پارلیمنٹ میں بات کی اور اپوزیشن نے تجویز دی کہ ہر ملک میں اپنے نمائندے بھیجیں لیکن نہیں بھیجے گئے کیونکہ یہ ٹرمپ کے ساتھ وعدہ کر کے آئے تھے وہ پورا کرنا ضروری تھا،مودی کے بارے میں عمران خان کیا کہتا تھاکہ جب مودی جیتے گا تو حالات بہتر ہو جائیں گے،اس نے جیتنے کے بعد کشمیر کے ساتھ جو کیا وہ سب کے سامنے ہے ۔

آئی ایم ایف آپ پر اعتبار نہیں کرتا ، 2019ء میں معاہدہ کیا تو ہاتھ کاٹ دئیے ،وزیر خزانہ اورگورنر اسٹیٹ بینک آئی ایم ایف کے تھے ، جو دست،خط کئے گئے پاکستان کو جکڑ کر رکھ دیا گیا اور وہ آج ہمیں بھگتنا پڑ رہا ہے ،آئی ایم ایف کہتا ہے کہ ہم پاکستان پر اعتبار نہیں کرتے کیونکہ یہ تحریری معاہدہ کر کے مکر جاتے ہیں ،دنیا میں ساکھ کمزور ہو رہی ہے ۔

چین ، سعودی ، ابو ظہبی ناراض ہوئی لیکن خدا کا شکر ہے اب تعلقات بہتر ہو رہے ہیں ۔جب گیس تین ڈالر پر مل رہی تھی اس وقت معاہدے نہیں کیے آج قیمت چونتیس ڈالر سے زیادہ ہے ، پاکستان سے مخلص ہوتے تو یہ معاہدے کئے ہوتے لیکن تم آئی ایم ایف کے ایجنڈے پر تھے ۔ کرسی کا اتنا شوق ہے حکمرانی کااتنا شوق ہے اس کے بغیر رہ نہیں سکتا ،وزیر اعظم سے چمٹے رہنے کے لئے تحریک عدم اعتماد کو لٹکایا گیا پھر یہ کوشش کی گئی کہ بات کچھ منٹ تک چلی جائے اور میں وزیر اعظم رہ جائوں ۔

کرسی کی ہوس میں بیانات سب کے ہیں اگر میں نہ رہا تو میرے منہ میں خاک فوج کے ٹکڑے ہو جائیں گے وہ تباہ ہو جائے گی، کبھی کوئی وزیر اعظم سیاسی کارکن ایسا بیان دیتا ہے ۔آپ اندر بیٹھ کر کہتے ہیں میں باہر کچھ اور بات کروں گا آپ نے سوشل میڈیا پر گالم گلوچ کرنی ہے ۔یہ وہی شخص ہے جو کہتا ہے کہ اگر میں اقتدار میں نہ رہا ،نیوٹرل ساتھ نہیں دیں گے عدلیہ ساتھ نہیں دے گی تو خدانخواستہ پاکستان کے تین ٹکڑے ہو جائیں گے،یہ وہی نقشہ ہے جوصدیوں پہلے کھینچا گیا ۔

جو اس پر احسان کرتا ہے یہ اسی کو ڈستا ہے ، ان کے دوست بھی جانتے ہیں، میں نے جب اس کے ساتھ سیاسی سفر شروع کیا تو مجھے ایک سال میں ہی سمجھ آ گئی تھی ۔ انہوںنے کہا کہ عمران خان کے خلاف توشہ خانہ سے متعلق سپیکر کے پاس ریفرنس جمع ہو چکا ہے ، اس میں سوالات اٹھائے گئے ہیںتحفوں کی خریداری کے لئے پیسے کہاں سے ، تحفے کس کو بیچے گئے ،جو تحفے خرید کر بیچے اس پر کتنا ٹیکس دیا گیا ، سپیکر نے ریفرنس پر تیس دن میں فیصلہ دینا اس کے بعد وہ الیکشن کمیشن کے پاس جائے گا ، سپیکر سے استدعا کروں گا جو قرارداد ایوان میں پیش کی گئی ہے جس میں خدانخواستہ پاکستان ٹوتنے کی بات کی گئی ،خدانخواستہ فوج کے تباہ ہونے کی بات کی گئی ہے اس ریفرنس کو حکومت کو بھیجا جائے اور اسے سپریم کورٹ میں اٹھایا جائے ، کبھی تو آرٹیکل چھ لگانے کی بات کریں اور اس سے بہتر موقع ہو نہیںسکتا ۔

Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات