Live Updates

بجٹ میں محکمہ بلدیات کے تحت سندھ بھر کیلئے 131.9ارب روپے میں سے 104.5 ارب روپے کی سکیمیں کراچی کیلئے مختص ہیں، وزیر بلدیات

پرانی والی ایم۔کیو ایم بھی سندھ کی تقسیم کی بات کرتی رھی جبکہ وہ جام صادق سے لے کر ارباب تک کی سندھ حکومت کا حصہ رہی، حقیقت یہ ہے کہ ایم کیو ایم کا چورن سندھ میں صوبے بنانے کی باتوں سے ہی بکتا ہے ، سعید غنی کاسندھ اسمبلی میں بجٹ پر جاری بحث سے خطاب

ہفتہ 21 جون 2025 21:35

�راچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 جون2025ء) وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ بجٹ 2025-26 میں محکمہ بلدیات کے تحت سندھ بھر کے لئے 131.9 ارب روپے میں سے 104.5 ارب روپے کی اسکیمیں کراچی کے لئے مختص ہیں۔ اس کے علاوہ کے ایم سی ، کے ڈی اے اور میگا اسکیموں پر اربوں روپے خرچ کئے جائیں گے۔ پرانی والی ایم۔کیو ایم بھی سندھ کی تقسیم کی بات کرتی رھی جبکہ وہ جام صادق سے لے کر ارباب تک کی سندھ حکومت کا حصہ رہی اس وقت انہوں نے آئین کے تحت دو تہائی اکثریت سے کیوں اس پر قرارداد منظور نہیں کروائی۔

حقیقت یہ ہے کہ ایم کیو ایم کا چورن سندھ میں صوبے بنانے کی باتوں سے ہی بکتا ہے اور وہ اپنا چورن بیچنے کے لئے کچھ کچھ عرصہ کے بعد سندھ کی تقسیم اور صوبے بنانے کی باتیں کرتی ہے۔

(جاری ہے)

شہید ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کی کابینہ سے اختلاف کرکے نکلے اور پھر سیاسی جماعت بنائی جبکہ ضیا اور مشرف دور میں بننے والی جماعتوں اور اس جماعت کے بننے میں بڑا فرق ہے۔

شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بینظیر بھٹو نے اس ملک کی جمہوریت، آئین کے دفاع اور عوام کے لئے شہادت قبول کی اس لئے ان پر بات کرنے سے قبل سوچنا چاہیے۔ کے الیکٹرک کے اندر مشترکہ سزا کے نظام کا خاتمہ ضروری ہوچکا ہے اور میں نے وزیر اعلی سندھ سے درخواست کی ہے کہ اب وہ کے الیکٹرک کو لگام ڈالیں اور جو لوگ بجلی کے بل ادا نہیں یا چوری کرتے ہیں اس کی سزا بل ادا کرنے والوں کو دینے کے مشترکہ سزا کے ان کے نظام کا خاتمہ کروائیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کے روز سندھ اسمبلی میں بجٹ 2025-26 پر جاری بحث پر خطاب۔ کرتے ہوئے کیا۔ سعید غنی نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے کراچی کے ان تمام علاقوں میں گزشتہ 5 برسوں میں اربوں روپے کے ترقیاتی کام کروائیں ہیں جہاں ہماری پارٹی کا ایک کونسلر بھی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ ترقیاتی کام ڈسٹرکٹ کورنگی اور سینٹرل میں کروائے گئے ہیں کیونکہ ہم اس پورے شہر اور صوبے کو اوون کرنے والی جماعت ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ صرف ڈسٹرکٹ کورنگی میں اربوں روپے کے کام کروائے گئے ہیں اور آج بھی میگا پروجیکٹ جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ بلدیات کے لئے سالانہ ترقیاتی اسکیموں کے تحت 131.9 ارب روپے کے منصوبے دئیے ہیں جبکہ اس میں سے کراچی میں ہی 104.5 ارب روپے کے منصوبے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ مالی سال کے دوران پہلی بار کراچی میں 424 اسکیموں کو مکمل کیا گیا جس کی اس سے پہلے کبھی مثال نہیں ملتی۔

سعید غنی نے کہا کہ کے فور منصوبے پر ماضی کی وفاقی حکومتوں کی جانب سے ان کے حصہ کا فنڈ نہ دینے پر تاخیر ہوئی ہے اب سندھ حکومت نے ورلڈ بینک اور وفاق کے ساتھ مل کر اس پر تیزی سے کام شروع کردیا ہے اور انشا اللہ یہ منصوبہ جلد مکمل کرلیا جائے گا۔ اسی طرح حب کینال کی۔مرمت اور اس کے ساتھ نئی کینال کے منصوبوں پر اربوں روپے کی سندھ حکومت کے فنڈز سے تعمیرات آخری مراحل میں ہے اور انشا اللہ 14 اگست 2025 کو اس کا افتتاح کردیا جائے گا، جس سے شہر کو اضافی 100 ایم جی ڈی یومیہ پانی فراہم ہوسکے گا اس کے علاوہ بھی متعدد پانی کی اسکیموں پر تیزی سے کام۔

جاری ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ سیوریج کے حوالے سے ٹریٹمنٹ پلانٹ ٹی پی ون ، تھری اور فور پر کام جاری ہے اس کے علاوہ دیگر درجنوں منصوبے واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن، ٹانز اور یوسیز کی سطح پر کئے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کورنگی ڈسٹرکٹ کے عوام کے لئے اربوں روپے کے منصوبے مکمل اور زیر تعمیر ہیں جن میں شارع بھٹو، کورنگی کاز وے، جام صادق برج و دیگر شامل ہیں جس سے بھی کورنگی فائدہ ہوگا، اس کے علاوہ لاتعداد روڈز کورنگی کے لیے بنائے۔

بڑے بڑے منصوبے کراچی کے لیے رکھے گئے ہیں لیکن افسوس کہ ہمارے کورنگی سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن کے ممبر کو ہمارے یہ منصوبے انہوں نے دیکھے ہی نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں 5 میگا پروجیکٹ اور کے ڈی اے کی آٹھ اسکیمیں ہیں اور ان اسکیموں کے لئے سو فیصد الوکیشن کے ساتھ بیس ارب سے زائد کے منصوبے کراچی کے لیے رکھیں ہیں۔ کراچی کے بزنس ایریاز کے لیے ایک ارب سے زائد کے منصوبے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ کے دستاویزات سے کہیں ثابت نہیں ہورہا کہ ہم نے صرف ان علائقوں کے لیے فنڈز رکھیں جہاں سے پیپلز پارٹی جیتی ہے۔ تمام چیزیں دیکھنے اور سمجھنے کے باوجود یہ کہتے ہیں کہ کراچی کے لیے کچھ نہیں رکھا، میں یہ نہیں کہوں گا کہ جھوٹ بول رہے میں کہوں ناسمجھ ہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ میرے لیے اس ایوان میں کہا گیا کہ میں امین و صادق نہیں ہوں۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی بھی امین و صادق نہیں ہے۔ اس کے علاوہ دیگر محکموں کے تحت بھی کراچی کے لئے کئی ارب روپے رکھے گئے ہیں جن میں این آئی سی وی ڈی کے لیے دس ارب رکھے ہیں۔ جناح ہسپتال کو 11.7 بلین دیے گئے وہاں سے بھی کراچی کے لوگ علاج کرواتے ہیں۔ انڈس اور این آئی سی ایچ کے لیے بھی فنڈز رکھے ہیں۔ ٹراما سینٹر کے لیے بھی چار ارب رکھے ہیں۔

ایس آئی یو ٹی کے لئے 21 ارب روپے یہ کل ملا کر ستر پچھتر ارب روپے کراچی کے لیے رکھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں ہماری ایم کیو ایم کی ایک خاتون رکن نے کہا کہ خالد مقبول صدیقی ہماری ریڈ لائین ہیں اور پیپلز پارٹی ختم ہورہی ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ ایم کیو ایم نے بلدیاتی الیکشن سے بائیکاٹ نہیں کیا تھا آپ بھاگے تھے، آپکو پتہ تھا کہ آپ بری طرح ہار رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں اپنے ایم کیو ایم کے دوستوں سے کہتا ہوں کہ وہ بوری بند لاشوں والے معاملے سے اب آپ نکل آئے ہیں۔ اس لئے اب اس طرح کی باتوں سے گریز کریں۔ انہوں نے کہا کہ کراچی سے جتنا ٹیکس جمع ہوتا کے اس کا بڑا حصہ وفاقی حکومت کو جاتا ہے۔ وفاق سے بھی سوال کریں کہ کراچی کا بڑا حصہ وفاق کو جاتا ہے تو وہ کراچی کو کیوں اسکیمیں نہیں دیتے ہم تو وفاقی حکومت کا اس وقت حصہ نہیں ہیں البتہ آپ کے دونوں قائدین وفاقی وزیر ہیں۔

سعید غنی نے کہا کہ بلقیس مختار نے کہا آئین کے اندر نئے صوبے بنانے کا آرٹیکل موجود ہے۔ نئے صوبے کے لیے آئین میں لکھا ہوا ہے کہ پہلے وہ اسمبلی دو تہائی سے قرارداد منظور کرے گی۔ جام صادق، علی محمد مھر، ارباب غلام رحیم، لیاقت جتوئی کے دور میں آپ اکثریت میں تھے اس وقت قرارداد کیوں نہیں جمع کروائی۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں تمام اس بات پر سب متفق ہیں کہ نیا صوبہ نہیں بننا چاہیے۔

ایم کیو ایم یہاں کھڑی ہوکر کہتی ہے کہ سندھ ہماری ماں ہیں پھر یہی لوگ ماں کو تقسیم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ یہ لوگ صرف عوام کو خوفزدہ کر کر کہ ماضی میں انہوں نے صوبے کو تباہ کردیا۔ لوگوں کے ذہنوں میں نفرت ڈالتے ہیں۔ کیونکہ ان کا چورن اسی سے بکتا ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ ہم اگر یہاں اپنی نسلوں میں نفرتیں چھوڑ کر جائیں گے تو کیا ہوگا سیاست ساری زندگی نہیں چلتی، کبھی نہ کبھی تو ریٹائر ہونگیں۔

نفرتوں کو کم کر کہ ہمارا ضمیر بھی مطمئن ہوگا اور آخرت بھی اچھی ہوگی۔ سعید غنی نے کہا کہ ایک رکن اویس گجر نے کہا پی پی کو لوگ کراچی میں ووٹ نہیں دیتے اس لیے کہ لوگ نفرت کرتے ہیں۔ محمد اویس میرے حلقے میں رہتے تھے، پی ٹی آئی نے ان کو ٹکٹ دیا تھا پھر واپس لے لیا تھا۔ اسمبلی میں کھڑے ہوکر صحیح بات کرنے کی جرات پیدا کرو۔ یہ تاثر غلط ہے کہ پی پی کو کراچی نے کبھی ووٹ نہیں دیا۔

1970 میں پیپلز پارٹی کراچی کی سب سے بڑی جماعت تھی۔ ضیاالحق کے مارشل لا میں پیپلز پارٹی نے کراچی میں سب سے زیادہ ووٹ لیے تھی، پھر ٹھپوں والوں آگئے تھے اور ہمیں ہروا دیا گیا۔ ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ جہاں ہمارے لوگ مارے جا رہے ہیں وہاں ہم سیاست نہیں کریں گے۔ اگر ہمیں لوگوں نے ووٹ نہیں دیے تو میرے الیکشن کو چیلنج کرتے ناں یہ مانتے ہیں کہ لوگوں نے ہمیں ووٹ دیے۔

سعید غنی نے کہا کہ ایک دوست نے کہا سعید غنی پرچی لکھتا ہے، پڑھتا ہے اور جیب میں رکھ دیتا ہے۔ بھائی جس محکمے کی پرچی ہوتی ہے اس کو بھجواتا ہوں۔ اگر اس پر بھی اعتراض ہے تو آئندہ آپ کے سامنے پرچی پھاڑ دوں گا۔ سعید غنی نے کہا کہ لیڈرشپ پر تنقید نہیں ہونی چاہیے۔ ایک دوسرے پر تنقید کریں۔ پارلیامانی الفاظ میں بھی بھتر انداز سے گفتگو کی جاسکتی ہے۔

پہلے ہم میں سے کوئی بھی تقریر کرتا تھا تو وہاں سے اٹھ کر کھڑا ہوجاتے تھے۔ لیڈر آف اپوزیشن اپنی سوچ کی مطابق ہماری بجٹ کا پوسٹ مارٹم کریں۔ اپوزیشن لیڈر سوال کریں گے اور باقاعدگی سے انکے جوابات وزیر اعلی سندھ دیں گے۔ انہوں نے کہا۔کہ پہلے ہوا ہے میں امید کرتا ہوں آئندہ اس طرح نہیں ہوگا۔ پہلے فردوس شمیم نقوی کے اس لیے ہٹایا گیا تھا کہ حلیم عادل شیخ زیادہ بدتمیزی کرتے تھے۔

سعید غنی نے کہا کہ مجھے اپنے سگوں سے زیادہ میری قیادت ہے۔ بھٹو صاحب نے اس ملک کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ شہید بھٹو ایوب خان کی کابینہ سے اصولوں پر اختلاف سے نکلے، اس کے بعد اپنی سیاسی جماعت بنائی۔ جس آدمی کو پاکستان کی سیاست کا پتہ ہوگا، وہ اس بات پر تنقید نہیں کریگا کہ بھٹو ایوب خان کی کابینہ میں تھا۔ بھٹو صاحب نے پھانسی گھانٹ میں بھی بیٹھ کر کتاب لکھی۔

محترمہ بینظیر بھٹو نے شہید بھٹو سے بہت زیادہ سخت سیاست کی۔ بھٹو صاحب اور شہید بی بی پر تنقید کرنے سے پہلے ان کا قد کاٹھ دیکھ لیتے۔ سعید غنی نے کہا کہ اچھا لگتا کہ اگر آج اپوزیشن احتجاج کے بجائے محترمہ کی سالگرہ کے موقع پر قرارداد کی حمایت کرتی۔ سعید غنی نے کہا کہ معید انور نے کہا پیپلز پارٹی سترہ سال میں کوئی ایک ماڈل یو سی بتا دیں۔

معید انور جب بھی مجھ سے ملتا ہے کہتا ہے سعید غنی آپ نے میرے حلقے کو چمکا دیا ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ کے ایم سی پر یہاں تنقید کی گئی کہ مئیر کچھ نہیں کررہا۔ جن 2019-20 میں وسیم اختر کے ایم سی کے مئیر تھے تو ریونیو 1 ارب روپے کا تھا اور آج یہ رونیو 4.6 ارب تک پہنچ چکا ہے اور آئندہ مالی سال میں یہ مزید بڑھ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ کے الیکٹرک کا اب بندوبست کرنا پڑے گا اور یہ بات میں نے وزیر اعلی سندھ سے بھی کہی ہے انہوں نے یقین دہانی کروائی ہے کہ بجٹ کے بعد وہ اس حوالے سے اہم اجلاس بلا کر اس پر فیصلہ کریں گے کیونکہ کے الیکٹرک میں کلیکٹو پنیشمنٹ(مشترکہ سزا) کا نظام چل رہا ہے، کوئی بجلی کے بل ادا نہ کرے یا چوری کرے تو اس کو سزا دینے کی بجائے وہ بجلی کا بل ایمانداری سے ادا کرنے والوں اور چوری نہ کرنے والوں کو بھی سزا بھگتنے پر مجبور کررہی ہے اور اب ایسا نہیں ہونے دیا جائے گا۔

Live بجٹ 26-2025ء سے متعلق تازہ ترین معلومات