نیشنل ہائی وے اتھارٹی کرپشن کا گڑھ ہے، 2010-11میں آنیوالے تباہ کن سیلاب کے بعد بحالی منصوبوں کیلئے مختص کردہ فنڈز کا بے دریغ استعمال کیا گیا ،سینٹ کی ذیلی کمیٹی برائے کم ترقی یافتہ علاقہ جات مسائل،سیاسی وذاتی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے اربوں روپے کے فنڈز سیلاب زدہ علاقوں پر خرچ کرنے کی بجائے موٹر وے پر ٹول پلازوں کی مرمت اور من پسند مقامات اور شہروں میں خرچ کرکے اختیارات سے تجاوز کیا گیا،تونسہ تا ڈیرہ غازی خان کے درمیان اڑھائی کلو میٹر کی سڑک پر پانچ کروڑ روپے سے زائد خرچ کیے گئے، فلڈ ریلیف فنڈ سے اوکاڑہ میں 100ملین روپوں سے زائد کا بے نظیر سٹی تعمیر کیا گیا،ملک بھر میں سڑکوں کی تعمیر ومرمت اور بحالی کیلئے این ایچ اے کو28ارب روپے کی کمی کاسامنا ہے،کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف،کمیٹی کامخصوص فنڈز کے غلط استعمال پر شدید برہمی کا اظہار ، تحقیقات کا حکم

ہفتہ 28 جون 2014 08:00

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔28جون۔2014ء)سینٹ کی ذیلی کمیٹی برائے کم ترقی یافتہ علاقہ جات کے مسائل نے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو کرپشن کا گڑھ قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ 2010-11میں آنیوالے تباہ کن سیلاب کے بعد بحالی منصوبوں کیلئے مختص کردہ فنڈز کا بے دریغ استعمال کیا گیا ،سیاسی وذاتی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے اربوں روپے کے فنڈز سیلاب زدہ علاقوں پر خرچ کرنے کی بجائے موٹر وے پر ٹول پلازوں کی مرمت اور من پسند مقامات اور شہروں میں خرچ کرکے اختیارات سے تجاوز کیا گیا ۔

کمیٹی میں انکشاف کیا گیا کہ تونسہ تا ڈیرہ غازی خان کے درمیان اڑھائی کلو میٹر کی سڑک پر پانچ کروڑ روپے سے زائد خرچ کیے گئے، فلڈ ریلیف فنڈ سے اوکاڑہ میں 100ملین روپوں سے زائد کا بے نظیر سٹی تعمیر کیا گیا،ملک بھر میں سڑکوں کی تعمیر ومرمت اور بحالی کیلئے این ایچ اے کو28ارب روپے کی کمی کاسامنا ہے،کمیٹی نے مخصوص فنڈز کے غلط استعمال پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے تحقیقات کا حکم دے دیتے ہوئے کہا ہے کہ عوامی فلاح وبہبودکے حکومتی منصوبوں میں بیوروکریسی روڑے اٹکاکر اختیارات کا ناجائز استعمال کرتی ہے ،جبکہ این ایچ اے کے حکام نے فلڈ ریلف فنڈز کے غلط استعمال کا اعتراف کرلیا ،جمعہ کو سینٹ کی فنگشنل کمیٹی برائے کم ترقی یافتہ علاقہ جات کے مسائل کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس سینٹر نثار محمد خان کی صدارت پارلیمنٹ ہاوس میں ہوا ،اجلاس میں اراکین کمیٹی سینٹر خالدہ پروین ،سنیٹر روزی خان کاکڑ،سمیت وزارت مواصلات اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے اعلیٰ حکام شریک ہوئے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے این ایچ اے کے ڈائریکٹر اکرام ثقلین نے بتایا کہ 2010-11میں آنیوالے تباہ کن سیلاب کے بعد ملک بھر میں بحالی منصوبوں کیلئے سڑکوں کی تعمیرمرمت اور بحالی اوور ہیڈ بریجز کا قیام عمل میں لانے کیلئے ملک کو بارہ حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا جس کے تحت شفاف انداز میں منصوبوں کا آغاز کیا گیا ،انہوں نے کہا کہ سال 2010-11کیلئے چار ارب گیارہ کروڑ 23لاکھ 82ہزار نو سو چون روپے 2011-12کیلئے چار ارب 34کروڑ 16لاکھ جبکہ 2012- 13میں چار ارب 23کروڑ 31لاکھ روپے سے زائد خرچ کئے گئے ،این ایچ اے نارتھ کے رینجل جنرل منیجر نے کمیٹی میں انکشاف کیا اوکاڑہ بائی پاس میں سڑکوں کو بارشی پانی سے بچاو کیلئے ایک کروڑ 29لاکھ روپے جبکہ اوکاڑہ میں ہی فلڈ ریلف فنڈ ز سے بے نطیر سٹی پر پچاس کروڑ روپے سے زائد خرچ کئے گئے ،این ایچ اے ساوتھ کے رینجنل ڈائریکٹر منیجر نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ بہاولپور کے قریب این ایچ اے پولیس کے مطالبہ پر مختلف پل تعمیر کیے گئے جبکہ تونسہ سے ڈیرہ غازی خان تک اڑھائی کلو میٹر کی سڑک پر پانچ کروڑ روپے سے زائد خرچ کیے گئے جس پر کمیٹی نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بیوروکریسی نے این ایچ اے میں کرپشن کی انتہا کی ہوئی ہے جس مقصد کیلئے فلڈ ریلیف فنڈز مختص کیے گئے تھے این ایچ اے نے ان کا مقصد ہی فوت کردیا ،اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے فنڈز کو سیلاب زدہ علاقوں پر خرچ کرنے کی بجائے من پسند شہروں میں منصوبوں پر خرچ کردیا گیا ،کمیٹی نے وزارت کو فنڈز کے غلط استعمال کی تحقیقات کی سفارش کرتے ہوئے کہا ہے کہ کرپشن میں ملوث افسران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے ،کمیٹی نے این ایچ اے حکام کو ہدایت کی کہ جس مقصد کیلئے فنڈز مختص کیے گئے ہیں انہیں کسی اور منصوبے پر خرچ نہ کیا جائے ،این ایچ اے کی ریجنل منیجر برائے موٹر وے نے کمیٹی کو آگاہ کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ موٹر وے پر فلڈ ریلیف فنڈز میں سے ٹول پلازوں کی مرمت، اور مشینری خریدی گئی،جبکہ اس وقت بھی کچھ منصوبے جاری ہیں، جس پر کمیٹی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ ملک کے کم ترقی یافتہ علاقون میں فندز کا استعمال نہ ہونے کہ وجہ سے احساس محرومی پائی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

این ایچ اے کے ڈائیریکٹر نے کمیٹی کو بتایا کہ ملک بھر میں شاہراہوں کی تعمیر و مرمت کیلئے فنڈز کی شدید کمی کا سامنا ہے اس وقت مختلف منصوبوں کیلئے 45ارب روپے درکار ہیں جبکہ ادارے کے پاس صرف 17ارب روپے موجودہیں ۔

متعلقہ عنوان :