غزہ‘جنگ بندی کے بعد اسرائیلی فضائیہ کا حملہ ،مزید 10 فلسطینی شہید، شہداء کی تعداد 1800 سے تجا وز کر گئی ، علا قے میں ادویات اور پانی کی شدید قلت، پٹرول اور ڈیزل کی کمی نے عوام کو گدھا گاڑی استعمال کرنے پر مجبور کر دیا،، اقوا م متحدہ کی پناہ گزین کیمپ پر حملے کی مذمت ،پناہ گزین کیمپ پر حملے میں اسرائیل کے ساتھ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنر ل بان کی مون بھی ذمے دار ہیں، حما س تر جما ن ،غزہ سے فوج کے انخلاء کی خبر یں درست نہیں،نئے تازہ دم دستے تعینات کیے ہیں، اسرائیلی فوجی ترجمان

منگل 5 اگست 2014 07:55

غزہ(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔5اگست۔2014ء)غزہ میں سات گھنٹے کی جنگ بندی شروع ہونے سے پہلے اسرائیلی فضائیہ کا تازہ حملہ ، مزید 10 فلسطینی شہید،تعداد1822 ہو گئی۔ اسرائیل نے غزہ پر ایک بار پھر حملہ کیا ہے جس میں 10 مزید فلسطینی جاں بحق ہوگئے۔ اس سے قبل اسرائیل نے رفاہ کے علاوہ غزہ میں پاکستانی وقت کے مطابق دوپہر بارہ بجے سے سات گھنٹے کیلیے حملے روکنے کااعلان کیا تھا۔

حماس نے اسے فلسطینیوں کے قتل عام سے توجہ ہٹانے کی کوشش قرار دیا۔28 روز سے جاری خوں ریزی میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 1800 سے زیادہ ہوگئی جبکہ 9 ہزار افراد زخمی ہیں۔نا کہیں جہاں میں امان ملی جو امان ملی تو کہاں ملی۔رفاح میں واقع اقوام متحدہ کے زیر انتظام اسکول میں 3 ہزار فلسطینی خود کو محفوظ جان کر وہاں پناہ لیے ہوئے تھے کہ اچانک اسرائیلی فضائیہ نے اس پناہ گزین کیمپ پر بمباری کردی۔

(جاری ہے)

حملے کے نتیجے میں بیس دن کے ایک بچے سمیت 10 فلسطینی شہید اور تیس سے زیادہ زخمی ہوگئے۔ اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ ان پر پناہ گزیں کیمپ کے قریب سے مارٹر گولے فائر کیے گئے جس کے جواب میں کارروائی کی گئی۔

اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اسکول پر حملے کو ’اخلاقی زیادتی اور مجرمانہ فعل‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملہ ’بین الاقوامی قوانین کی فاش خلاف ورزی ہے‘ اور ذمے داران کا احتساب ہونا چاہیے۔

حماس کے ترجمان سمیع ابو زہری نے کہا ہے کہ پناہ گزین کیمپ پر حملے میں اسرائیل کے ساتھ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنر ل بان کی مون بھی ذمے دار ہیں کیوں کہ وہ اسرائیلی فوجی کی تلاش کے لیے روتے رہے اور حملوں پر خاموش رہے۔امریکا نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ عام شہریوں کے جانی نقصان کو کم کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے۔ ترجمان محکمہ خارجہ نے اسکول پر حملے کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

ایک ہفتے کے دوران اقوام متحدہ کے پناہ گزین کیمپ پر یہ دوسرا اسرائیلی حملہ ہے۔ اس سے قبل اتوار کو غزہ میں مختلف حملوں میں تیس فلسطینی شہید ہوئے۔ادھر اسرائیلی فوجی ترجمان لیفٹننٹ کرنل پیٹر لیرنیرنے غزہ سے فوج کے انخلاء کی خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی سے کچھ اسرائیلی فوجی نکالے ہیں اور ان کی جگہ نئے تازہ دم دستے تعینات کیے ہیں۔

برطانیہ کے خارجہ سیکرٹری فلپ ہیمنڈ نے فلسطینیوں کی ہلاکت کو ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے صورتحال کو حل کرنے کے لیے غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔

غیرملکی خبر ایجنسی کے مطابق غزہ میں حالات ابتر ہوتے جارہے ہیں۔مقامی افراد زخمیوں کو طبی امدادنہیں دے پا رہے جبکہ جاں بحق فلسطینیوں کے جسموں کو کھانے پینے کی اشیاء رکھنے والے ریفریجریٹرز میں رکھنا پڑ رہا ہے۔

دوسری طرف ہسپتالوں میں دوا ہے نہ شہر میں پینے کا پانی، اسرائیلی بمباری میں غزہ کا واحد پاور پلانٹ بھی تباہ ہوگیا، غزہ کے بچے کھچے فلسطینی بھوک پیاس سے جیتے جی مرنے لگے۔ غزہ کا کوئی کونہ ،کوئی گلی اورکوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں اسرائیل نے اپنی وحشت وبربریت کے جھنڈے نہ گاڑے ہوں۔ اسرائیلی ظلم اورسفاکیت نے غزہ کے رہنے والوں پر زندگی محال کر دی ہے۔

اول توبمباری سے سیکڑوں شہید ہو رہے ہیں،جوبچ گئے ہیں اسرائیل نے ان کا جینا بھی محال کر دیا ہے۔ ہسپتال ، مساجد ، سکول ، بازار اسرائیل نے ہر جگہ تباہی پھیلادی ہے۔ ہسپتالوں میں ادویات نہیں ،شہر کا پانی کی فراہمی کا نظام تہس نہس ہو چکا ہے جس سے زخموں سے چور چور فلسطینی پانی کی بوند بوند کو ترس گئے ہیں۔ بچے اور خواتین پانی کی تلاش میں مارے مارے پھرتے نظر آتے ہیں۔ اسرائیلی بمباری سے پاور پلانٹ تباہ ہونے کے بعد شہر کا 80 فیصد علاقہ بجلی کی فراہمی کا نظام بھی ختم ہو چکا ہے۔ بمباری سے زیادہ تر پٹرول پمپ ملیا میٹ ہو چکے ہیں ، گیسولین اور ڈیزل نہ ہونے سے شہری کار اور ویگن کی بجائے گدھا گاڑیوں کا استعمال کر رہے ہیں جنہیں اسرائیلی طیارے خاص طور پر نشانہ بناتے ہیں۔