ڈنڈابرداراوردھرنوں کی سیاست کرنے والے ہمیں جمہوریت کامطلب نہ سیکھائیں، محمودخان اچکزئی ،یہ اس وقت کہاں تھے جب ملک دولخت ہورہاتھامارشل لاء لگ رہے تھے، ہمارے آباؤاجداد نے اس جمہوریت کیلئے انگریزسامراج اورغیرجمہوری قوتوں سے ٹکرلی یہ ملک ہمیں میراث اورخیرات میں نہیں ملاہم ایک ایساپاکستان چاہتے ہیں جہاں تمام قومیتوں کوآئین کے مطابق ان کے وسائل پر حق حاکمیت دی جائے جہاں آئینی جمہوری فیڈریشن ہوایسے ملک کی تشکیل سے پاکستان کو قیامت تک کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتا، صحافیوں سے گفتگو

جمعہ 3 اکتوبر 2014 08:08

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔3اکتوبر۔2014ء)پشتونخواملی عوامی پارٹی کے سربراہ رکن قومی اسمبلی محمودخان اچکزئی نے کہاہے کہ ڈنڈابرداراوردھرنوں کی سیاست کرنے والے ہمیں جمہوریت کامطلب نہ سیکھائیں یہ اس وقت کہاں تھے جب ملک دولخت ہورہاتھامارشل لاء لگ رہے تھے ہمارے آباؤاجداد نے اس جمہوریت کیلئے انگریزسامراج اورغیرجمہوری قوتوں سے ٹکرلی یہ ملک ہمیں میراث اورخیرات میں نہیں ملاہم ایک ایساپاکستان چاہتے ہیں جہاں تمام قومیتوں کوآئین کے مطابق ان کے وسائل پر حق حاکمیت دی جائے جہاں آئینی جمہوری فیڈریشن ہوایسے ملک کی تشکیل سے پاکستان کو قیامت تک کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتاان خیالات کااظہارانہوں نے جمعرات کوکوئٹہ پریس کلب کے پروگرام” حال احوال“ میں صحافیوں سے گفتگو اوران کے سوالات کے جوابات میں کیااس موقع پراراکین قومی اسمبلی عبدالرحیم مندوخیل ،عبدالقہار ودان اورسینیٹر روف لالا ،صوبائی وزراء اراکین صوبائی اسمبلی صوبائی وزیر بی ڈی اے ڈاکٹر حامد خان اچکزئی ،صوبائی وزیر واسا پی ایچ ای نواب ایاز خان جوگیزئی ،صوبائی وزیر بلدیات سردار مصطفی خان ترین ،وزیراعلیٰ کے مشیر برائے تعلیم سردار رضا محمد بڑیچ ،مشیرلائیواسٹاک عبیداللہ بابت،سید لیاقت آغا، منظور احمد کاکڑصوبائی صدر عثمان خان کاکڑ پارٹی رہنماؤں یوسف کاکڑ،وزیراعلیٰ کے ایڈوائزراحمدجان، کوئٹہ پریس کلب کے صدر رضا الرحمن بھی موجودتھے محمود خان اچکزئی نے ملکی سیاست اورموجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس طرح ملک میں جمہوریت کیخلاف سازش ہورہی ہے اس صورتحال میں تمام سیاسی جماعتوں کو یکجاہوکرجمہوریت کادفاع کرناہوگا انہوں نے سابق پاک فوج کے سربراہ کی پریس کانفرنس کاحوالہ دیتے ہوئے کہاکہ موجودہ آرمی چیف نے جس طرح جمہوریت کی بساط لپٹنے کی سازش سے دوررہ کراس کو ناکام بنایاہے اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے انہوں نے کہاکہ ملک کو تمام ترسازشوں سے بچانے کیلئے تمام قومیتوں کو آئینی گارنٹی دیناہوگی پشتون بلوچ سندھی پنجابی اورسرائیکی علاقوں میں ان کے وسائل پران کاحصہ اورحق تسلیم کرکے ان کے ساتھ حاکم اورمحکوم کی پالیسی کوترک کیاجائے تاکہ نفرت کے بجائے محبت کے بیج بوئے جاسکے انہوں نے کہاکہ بے انصافی سے نفرتیں جنم لیتی ہیں انصاف کے عمل کو مضبوط کیاجائے اورجن علاقوں سے جوو سائل ملک کی معیشت میں معاون ہو ان علاقے کے بسنے والے لوگوں کی فلاح وبہبود کے ساتھ فوائد میں شریک کیاجائے گیس کے ذخائر اگربلوچستان سے نکل رہے ہیں توپورے بلوچستان کے بسنے والے لوگوں کایہ حق ہے کہ ان تک گیس کے پائپ لائن بچھاکریہ سہولت انہیں مہیاکی جائے۔

(جاری ہے)

پشتونخواملی عوامی پارٹی نے روز اول سے جمہوری وسیاسی جدوجہد کی ہے جو تاریخ کا حصہ ہے ۔ہم نے ہمیشہ جمہوری سیاست کو ترجیح دیتے ہوئے آواز بلند کی اور اس ضمن میں ہم نے کبھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا ۔

انہوں نے کہاکہ یہ ریاست ہمیں کسی نے زکواة یا خیرات میں نہیں دی بلکہ اس کیلئے ہمارے آباء واجداد نے قربانیاں دی ہیں جنوبی پشتونخوا سے لیکر خیبر پختونخوا تک پشتونوں کی قربانیوں کی ایک داستان رقم ہے مادر وطن کے تحفظ اور آئین وجمہور کی حرمت کا سبق ہمیں کسی سے سیکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ ہمارے آباء واجداد کی تاریخ ہمیں اس حوالے سے ہر سبق دیتی ہے انہوں نے کہاکہ آج ظالم اور مظلوم کی تفریق کرنے کیلئے چند لوگ ڈنڈے لیکر نکل پڑے ہیں یہ لوگ اس وقت کہاں تھے جب ہمارے مادر وطن پر انگریزوں کا قبضہ تھا ان حالات میں پشتون نے اس ایک ایک انچ سرزمین کا تحفظ کیا اور کوئی ایسا علاقہ نہیں جہاں پشتونوں کے خون کے نشان نہ ہوں نئے پاکستان کی بات کرنیوالے درحقیقت مفادات کی تکمیل چاہتے ہیں یہ وقت نئے پاکستان کا نہیں بلکہ ایک جمہوری ریاست کی تشکیل کا ہے جہاں کسی بھی قوم کے حقوق غصب نہ ہوں اقوام کو اپنے حقوق کیلئے جنگ وجدل نہ کرنی پڑے ۔

یہاں دس سال تک ہمیں آئین تک نہیں دیا گیا ہمارے بنگال کے بھائی اپنی زبان کو قومی تحفظ دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے ہم سے جدا ہوگئے ہمیں ایک ایسی ریاست کی تشکیل دینا ہوگی جہاں قومیں اپنی ثقافت کے ہمراہ ملکر رہ سکیں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے خود بھی یہ کہا تھا کہ پاکستان میں آبا د اقوام اپنی ثقافت اور شناخت کی امین ہے انہوں نے کہاکہ حالیہ اٹھارویں آئینی ترمیم میں بھی بلوچوں سندھیوں اور دیگر اقوام کو تحفظات ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے تحفظات کا خاتمہ کرتے ہوئے ایسی آئینی ترجیحات رائج کریں جہاں ان اقوام کے حقوق کو آئینی تحفظ فراہم کیا جاسکیں اور اقوام کو یہ یقین دہانی کرائی جائے کہ یہ سرزمین ان کی ہے اور یہاں کے وسائل ان کی فلاح وبہبود کیلئے ہی خرچ ہونگے ۔

مگر اس کے برعکس یہاں ڈنڈا بردار لوگ پارلیمنٹ وزیراعظم ہاؤس سرکاری ٹی وی چینلز پر دھاوا بول رہے ہیں حکومتی مشینری کو اپنے قبضے میں لینا چاہتے ہیں پارلیمنٹ کے افسران کی تلاشی لیکر انہیں پارلیمنٹ میں چھوڑا جاتا ہے پولیس اہلکاروں ایف سی لیویز پر تشدد جبکہ اس کے برعکس پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگائے جاتے ہیں یہ امر بھی غداری کے زمرے میں آتا ہے پولیس ایف سی لیویز سمیت ریاست کے تمام ادارے قابل احترام ہیں اور ان سے انحراف کرنا بھی ملک سے غداری کے مترادف ہے محفوظ راستہ ان کو دیاجاتاہے جواپنی غلطی کوتسلیم کریں اس تمام صورتحال میں مولانا فضل الرحمان ،عوامی نیشنل پارٹی، آفتاب شیر پاؤ ،پیپلز پارٹی سمیت تمام جماعتوں کا مشکو رہوں کہ انہوں نے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آئین اور جمہور کے تحفظ کے نقطے پر یکجا ہوکر غیر جمہوری طرز فکر کی نفی کی ۔

انہوں نے کہاکہ کسی کو گالی دینا بہت آسان ہوتا ہے اور جو زبان سیاسی رہنماؤں سے متعلق استعمال کی جارہی ہے وہ قابل افسوس ہے ہم اس طرح کے رویوں کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھتے آج ہم پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم پاکستان زندہ باد نہیں کہتے ہم نے اور ہمارے آباء واجداد نے ہمیشہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا اور ہم چاہتے ہیں کہ ہم ایک ایسا پاکستان بنائیں جہاں انصاف کے تقاضوں کو سامنے رکھا جاسکیں ۔

انہوں نے کہاکہ درحقیقت یہاں کبھی سیاسی لوگوں کو آنے نہیں دیا گیا اگر سیاسی عمل کو پروان چڑھنے دیا جاتا تو آج ہمیں اس طرح کے حالات کا سامنا نہ کرنا پڑتا ۔مگر افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ من پسند لوگوں کو سامنے لانے کے رویوں نے آج حالات کو اس نہج تک پہنچادیا ہے پشتون بلوچ سندھی پنجابی ،سرائیکی تمام اقوام کسی نہ کسی طریقہ کار سے آج بھی اپنے حقوق کے حصول کے متقاضی ہے کہا جاتا ہے کہ آج بلوچ جھنڈا نہیں لہراتا مگر کبھی کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ ایسی صورتحال کیونکر پیدا ہوئی ناانصافیوں کے باعث نفرتیں جنم لیتی ہے نفرتوں کے خاتمے کیلئے ہمیں آج ان سب کو یہ آئینی گارنٹی دینی ہوگی کہ اس ریاست میں آباد اقوام یہاں کے وسائل کے مالک ہے اور انہیں مکمل اختیار ہے سوئی گیس آج ملک کے طول وعرض تک پھیل چکی ہے مگر مری بگٹی سمیت پشتون اور دیگر اقوام اس سے محروم ہیں اگر فیڈریشن کو قائم رکھنا ہے تو رویوں میں تبدیلی ناگزیر ہوچکی ہے ہم غریب فقیر لوگ ہے ہمارے ضروریات بہت کم ہے منفی رویے مشکلات کھڑی کرسکتے ہیں ۔

وسائل چھیننے کے بجائے اگر مانگے جائیں تو ہم پیار کرنے والے لوگ ہیں اپنی جان تک دینے کو تیار ہوجاتے ہیں مگر افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس ملک میں وہ تمام ڈرامے ہوئے ہیں جو کسی جمہوری ریاست میں نہیں ہونے چاہیے یہاں حکمران مسلط کئے گئے جنہوں نے عوام کی فلاح وبہبود کے بجائے اپنی ترجیحات کو سامنے رکھا انہوں نے کہاکہ پشتون بلوچ یہاں صدیوں سے ایک ساتھ ہے اور ہم جمہوریت کو بچانے کیلئے ایک مورچے کے سپاہی رہے ہیں اور میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اگر آج بھی یہ دونوں کسی ایک مکان میں بیٹھ کر جمہوری اتحاد کرلیں تو مسائل کا خاتمہ ممکن ہوسکیں گا انہوں نے کہاکہ افغانستان میں آج ایک مثبت تبدیلی آئی ہے جسے ہم خوش آئند قرار دیتے ہیں پاکستان کی طرف سے اس تبدیلی کو بھی کھلے دل سے خوش آمدید کہا گیا ہے جو صدر مملکت کی سربراہی میں افغانستان جانیوالے وفد کی شکل میں نظر آرہا ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ پاک افغان بہتر تعلقات کو فروغ دیا جائے کیونکہ افغانستان ہمیشہ سے ہمارے لئے پناہ گاہ رہا ہے ہمارے بزرگوں نے بھی سیاسی اختلافات کے بعد افغانستان کا ہی رخ کیا ایسی صورتحال میں ہمیں اپنے ہمسایہ ممالک سے تعلقات کی بہتری کو یقینی بنانا ہوگا آج افغانستان بھی ہم سے یہی مطالبہ کررہا ہے کہ ہم اسے ایک آزاد اور خود مختار ریاست تسلیم کرتے ہوئے وہاں ترقی اور خوشحالی کیلئے معاون کا کردار ادا کریں بلوچستان میں صحافیوں کے بہیمانہ قتل پر محمود خان اچکزئی نے افسوس کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ ہم نے ہمیشہ آزادی صحافت کیلئے اپنا کردار ادا کیا مگر افسوس کیساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ آج بلوچستان میں صحافی برادری کا قتل عام کیا جارہا ہے جو باعث تشویش ہے ہم آزادی صحافت کی اس جدوجہد میں صحافی برادری کیساتھ ہے اس ضمن میں انہیں جس قسم کے تعاون کی ضرورت ہوگی انہیں فراہم کیا جائیگا اس موقع پر شہید صحافیوں کیلئے فاتحہ خوانی بھی کی گئی ۔

متعلقہ عنوان :