جسٹس بابر ستار نے خود کو آڈیو لیکس کیس سے الگ کرنے کی درخواستیں خارج کردیں

عدالت عالیہ کا تینوں اداروں پر 5،5 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کردیا ،مذکورہ تمام فریقین کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا بھی عندیہ

پیر 29 اپریل 2024 17:57

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 اپریل2024ء) اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب کی مبینہ آڈیو لیک کے خلاف کیس پر سماعت کے دوران پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی ای) اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن (پی ٹی ای) کی جانب سے جسٹس بابر ستار سے آڈیو لیکس کیس سے علیحدہ ہونے کی متفرق درخواستیں خارج کردیں جبکہ عدالت عالیہ نے تینوں اداروں پر 5،5 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کردیا جبکہ مذکورہ تمام فریقین کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا بھی عندیہ دیا ہے۔

پیر کو جسٹس بار ستار نے کیس کی سماعت کی، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور عدالتی معاون چوہدری اعتزاز احسن عدالت میں پیش ہوئے۔

(جاری ہے)

سماعت کے آغاز پر عدالت نے اعتزاز احسن سے مکالمہ کیا کہ 4 متفرق درخواستیں آئی ہیں ہم وہ پہلے سن لیں آپ تشریف رکھیں۔جسٹس بابر ستار نے کہا کہ متفرق درخواستیں دائر ہوئی ہیں پہلے یہ سن لیتے ہیں، پہلے تو متفرق درخواستیں طے ہوں گی۔

اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے کہا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی ای) نے کیس دوسری عدالت منتقل کرنے کی استدعا کی ہے، اعتراض ہے کہ ہائی کورٹ کے 6 ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا ہے، جسٹس بابر ستار سمیت 6 ججز نے انٹیلی جنس ایجنسیز کی عدلیہ میں مداخلت کا خط لکھا ہے۔جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ ایف آئی اے کا آئی ایس آئی سے کیا تعلق ہی کیا وہ آئی ایس آئی کی پراکسی ہی آئی ایس آئی کے معاملے سے ایف آئی اے کا کیا تعلق ہی یہ خط ایف آئی اے سے کس طرح متعلقہ ہی کیا خط خفیہ اداروں کے حوالے سے ہے بعد ازاں عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل کو خط کا متعلقہ حصہ پڑھنے کی ہدایت دی۔

جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ جسٹس شوکت صدیقی کے جو الزامات ہیں اس عدالت کے ججز ان کو سپورٹ کر رہے ہیں ، اس عدالت کے ججز نے کہا کہ وہ جسٹس شوکت صدیقی کے الزامات کی تحقیقات کرنے کی حمایت کرتے ہیں، آپ نے خط کا جو حصہ پڑھا یہ آئی ایس آئی سے متعلق ہے ایف آئی اے سے متعلق نہیں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے جواب دیا کہ جی بالکل ایسا ہی ہے۔

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ آپ نے متفرق درخواست میں لکھا ہے کہ ہائی کورٹ کے ججز نے شکایت کی، یہ شکایت کس طرح ہی جسٹس ریٹائرڈ شوکت صدیقی نے الزامات لگائے، ہم تو حمایت کر رہے ہیں، ہائی کورٹ ججز کا خط آئی ایس آئی سے متعلق ہے ایف آئی اے سے متعلق نہیں۔انہوں نے دریافت کیا کہ کیا ایف آئی اے کا ججز کے گھروں میں خفیہ کیمرے لگانے سے کوئی تعلق ہے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ نہیں ان کا تعلق تو نہیں ہے، ایک پٹیشن میں ایجنسیز کے کردار کے حوالے سے بات کی گئی ہے اس لیے میں کہہ رہا ہوں۔

جج نے کہا کہ اگر ایگزیکٹو ججز کو بلیک میل کرے تو کیا ججز کا مفادات کا ٹکراؤ ہو جائے گا مفادات کے ٹکراؤ کی کیا آپ اس طرح تعریف کریں گے بعد ازاں عدالت نے ایف آئی اے کی بینچ پر اعتراض کی متفرق درخواست 5 لاکھ روپے جرمانے کے ساتھ خارج کردی۔عدالت نے دائریکٹر جنرل ایف آئی اے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا عندیہ بھی دے دیا۔جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ ہائی کورٹ ججز کے خط کے کسی ایک معاملے سے بھی ایف آئی اے کا کیا تعلق ہی ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے بتایا کہ بادی النظر میں تو ایف آئی اے کا کوئی تعلق نہیں بنتا، جسٹس بابر ستار نے کہا کہ پھر ایف آئی اے کیس نہ سننے کی متفرق درخواست کیسے دائر کر سکتی ہی بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے افسر سے متفرق درخواست کی منظوری کے حوالے سے جواب طلب کر لیا۔

جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ انٹیلی جنس بیورو کی متفرق درخواست کس کی منظوری سے دائر ہوئی ہی ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جوائنٹ ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو نے منظوری دی ہے، جسٹس بابر ستار نے دریافت کیا کہ اٴْن کا کوئی نام ہو گا، والدین نے کوئی نام رکھا ہو گا، ایدیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان کا طارق محمود نام ہے تاہم دوران سماعت آئی بی حکام عدالت کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے۔

اس کے بعد جسٹس بابر ستار نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ نے ایک درخواست دائر کی ہے کہ میں یہ کیس نہیں سنوں، یہ اعتراض کی کیا وجہ ہو سکتی ہے آپ اسی فیصلے کی بنا پر اپنے دلائل دے سکتے ہیں۔بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیمرا کی درخواست بھی 5 لاکھ روپے جرمانہ لگا کر خارج کردی۔اس موقع پر اعتزاز احسن نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم نامے نے میرا قد 20 فٹ اونچا کردیا، وکلا نے روسٹرم پر آکر جسٹس بابر ستار کی بہادری کو سراہا۔

جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ عدالت چیئرمین پی ٹی اے اور ممبران کو شوکاز نوٹس جاری کرنے سے متعلق بھی دیکھے گی۔ساتھ ہی عدالت نے تمام اداروں کی انتظامیہ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کا عندیہ بھی دے دیا۔بعد ازاں عدالتی معاون چوہدری اعتزاز احسن نے دلائل دینا شروع کردیے۔جسٹس بابر ستار نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل سے اہم مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیس دوسری عدالت منتقل کرنے کی متفرق درخواستیں دائر کرنے کا مقصد عدالتی کارروائی کو شرمندہ کرنا ہے، ہم اور آپ ایک ہی دنیا میں رہتے ہیں، بالکل سمجھ رہے ہیں، اگر ایگزیکٹو ججز کو دھمکائے اور ججز توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کریں تو وہ مفاد کا ٹکراؤ کیسے ہے کیا جج ذاتی مفاد کے لیے توہینِ عدالت کی کارروائی کرے گا کیا عدالت آئی بی اور ایف آئی اے کے سارے کیسز سننا چھوڑ دی جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ کی دلیل مان لی جائے تو پھر تو حکومت کے خلاف کوئی کیس ہی نہیں سننا چاہیے۔

بعد ازاں عدالتی معاون بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ بس بہت ہوگیا، مجھے خوشی ہے اب ججز کہہ رہے ہیں۔سماعت کے دوران عدالتی معاون بیرسٹر اعتزاز احسن نے محکمہ زراعت کا نام لیا جس پر جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ آپ کس کی بات کررہے ہیں یہاں بہت سارے ایگریکلچر ڈپارٹمنٹس ہیں جسٹس بابر ستار کے استفسار پر عدالت میں قہقہے لگ گئے، اعتزاز احسن نے کہا کہ میں پنجاب کے محکمہ زراعت کی بات کر رہا ہوں۔

عدالتی معاون بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ عدلیہ نے اسٹینڈ لینے کا فیصلہ کر لیا، عدلیہ کو الیکشن 90 دن کے اندر نہ ہونے پر اسٹینڈ لینا چاہیے تھا، اب بھی وقت ہے کہ ہم کھڑے ہو جائیں اور اپنا ہاؤس اِن آرڈر کریں، میں پارلیمان کی بالا دستی جبکہ آئین کی زیادہ بالادستی پر یقین رکھتا ہوں، عدالت کا کام جائز یا ناجائز قرار دینا ہے اور اس آرڈر پر عمل ہو گا.انہوںنے کہاکہ نواز شریف، مریم نواز، آصف زرداری کی آڈیوز سامنے آتی رہی ہیں، یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے، ایف آئی اے کو خود سے ایکشن لینا چاہیے۔

جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ اعتزاز صاحب آج یہیں رکتے ہیں، آپ آئندہ سماعت پر عدالت کی معاونت کریں، اگر آپ چاہیں تو تحریری طور پر بھی اپنا بریف جمع کروا سکتے ہیں۔بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی کر دی، آئندہ سماعت کی تاریخ تحریری حکم نامہ میں شامل ہوگی۔بعد ازاں عدالت نے چیف جسٹس پاکستان کے خلاف مہم پر بننے والی جے آئی ٹی کے ٹی او آرز طلب کر لیے، عدالت نے ریمارکس دیے کہ جو جے آئی ٹی چیف جسٹس پاکستان کے خلاف مہم پر بنی تھی وہ آڈیولیکس معاملے کو کیوں نہیں دیکھ سکتی بینظیر بھٹو کیس کے مطابق کسی کی بھی جاسوسی غیرقانونی ہے، کیا یہ عدالت صرف ایک ڈکلیئریشن دے دے اور فیڈریشن اس کی خلاف ورزی کرتی رہی کل کوئی درخواست آتی ہے اور فیڈریشن آ کر کہہ دیتی ہے کہ ہم نے نہیں کی تو کیا ہو گا جسٹس بابر ستار نے کہا کہ اعتزاز احسن صاحب اس نکتے پر عدالت کی معاونت کریں۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں