۳ آئین بنانے اور بالادستی کیلئے باچا خان اور ولی خان کا کردار فراموش نہیں کیا جا سکتا، امیر حیدر خان ہوتی

اتوار 26 جنوری 2020 22:00

Q"پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 26 جنوری2020ء) عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر امیرحیدرخان ہوتی نے کہا ہے کہ آئین بنانے اور بالادستی کیلئے باچا خان اور ولی خان کا کردار فراموش نہیں کیا جا سکتا، اسفندیار ولی خان کی قیادت میں پختونوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ پختون سرزمین کی خدمت سرخ جھنڈا کرے گی۔جو فیصلے پشاور میں ہوتے تھے،اے این پی کے دور حکومت میں وہ فیصلے ملاکنڈ دارالقضا میں لائے گئے اور ملاکنڈ کے لوگوں کو دارالقضا میں انصاف ملنا شروع ہوا۔

لوگوں میں عدم تحفظ کے احساس کی بنا پر اے این پی نے ایک سال میں ملاکنڈ ڈویژن میں پولیس کی تعداد میں دو گنا اضافہ کیا، اپنی حفاظت بھی یقینی بنائی اور سینکڑوں نوجوانوں کو روزگار بھی ملا۔ایک ایک تحصیل کیلئے لوگوں کو دس دس سال انتظار کرنا پڑتا تھا ہم نے ملاکنڈ کے لوگوں کو ایک سال کے اندر دس دس تحصیلیں دیں تاکہ لوگوں کیلئے انتظامی بہتری لائی جا سکے۔

(جاری ہے)

ملاکنڈ ڈویژن میں کمیونٹی پولیس، نئے تھانوں کا قیام بھی اے این پی دور کے کارنامے ہیں۔ سیلاب سے کالام تک تباہی ہوئی لیکن ایک روپیہ قرضہ نہیں لیا گیا۔صوبائی حکومت نے اپنے وسائل استعمال کئے۔ہفتہ باچا خان کے تحت بٹ خیلہ کے ظفر پارک میں ملاکنڈ ڈویژن کے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے امیر حیدرخان ہوتی نے کہا کہ جلسہ عام میں نوجوانوں سمیت خواتین کی شرکت لائق تحسین ہے، ہم اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ باچا خان اور رہبر تحریک عبدالولی خان کے کردار، سوچ، نظریئے اور قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرسکے جنہوں نے آزادی کی جنگ سے لے کر انگریز کے خلاف جدوجہد کی، اپنے وطن کی آزادی کیلئے جہاد کیا۔

جن لوگوں نے جہاد کیا ان تمام خدائی خدمتگاروں، شہیدوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ شرکا ء سے خطاب کرتے ہوئے امیرحیدرخان ہوتی نے کہا کہ اے این پی حکومت نے اپنے دور میں پلیں، سڑکیں، عمارتیں بنوائیں مجھے اسفندیار ولی خان نے کبھی آئی ایم ایف کے پیچھے نہیں بھیجا۔ ہم نے ہاتھ میں کشکول نہیں پھرایا۔ پختونوں کا مال اسلام آباد میں پڑا ہے، ہمارے حجرے محفوظ نہیں تھے۔

ہمارے سکولز، مسجدیں محفوظ نہیں تھیں۔ ہمارے بچے محفوظ نہیں تھے۔ آزاد مدرسوں کیلئے باچا خان کی جدوجہد تک تو ہم نہیں پہنچ سکتے لیکن پھر بھی اس کا تسلسل تھا کہ اسفندیار ولی خان کی سربراہی میں ملاکنڈ ڈویژن میں پرائمری سکولوں کے دروازے کھولے،اور اس کو ہم نے پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہوئے ملاکنڈ میں ہائی سکول، کیڈٹ کالج، اور یونیورسٹیاں بنائیں۔

مرکزسے 110 ارب روپے بجلی کی مد میں لائے گئے۔ صوبے کے ترقیاتی بجٹ میں اضافہ کیا گیا۔ امیر حیدر خان ہوتی نے کہا کہ ہماری حکومت میں لاکھوں مشکلات تھیں لیکن موجودہ حکمرانوں کی طرح در در پر کشکول لے کے نہیں پھرا۔ بطور وزیراعلی پانچ سالہ دور حکومت میں کسی اسمبلی رکن نے اعتراض نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سوات والے کہتے ہیں، مردان والا چور ہے،ملاکنڈ والا سوات والے کو اور سوات والا ملاکنڈ والے کو چور کہہ رہا ہے۔

شانگلہ والے اپنا راگ الاپ رہے ہیں۔ ہم کہتے ہیں سب نے چوری کی ہے اور سب چوریاں کر رہے ہیں۔تحریک انصاف کی موجودہ حکومت نے کتنے لوگوں کو روزگار دیا اور کتنوں کو بیروزگار کر دیا۔ کہاں گئے وہ 50لاکھ گھر بنانے کے دعوے، کہاں گئے وہ وعدے کہ قرضے نہیں لوں گا۔ موجودہ حکومت نے ملک کو قرضوں کے بوجھ تلے ڈبو دیا ہے۔ اے این پی کے مرکزی سینئر نائب صدر نے مزید کہا کہ وزیراعظم مرغی اور انڈوں سے ملک کی خدمت کر رہا ہے، کہاں گیا وہ خزانہ جو اے این پی نے بھرا چھوڑا تھا آج خالی پڑا ہے۔

حکومت کہتی ہے کہ ہم ایماندار ہیں، ایمانداری تو پشاور بی آر ٹی، بلین ٹری سونامی منصوبہ اور مالم جبہ سکینڈل میں سامنے آ چکی ہے۔ کہتے ہیں کہ گزشتہ حکمرانوں نے ملک کیلئے کبھی بات نہیں کی۔ وزیراعظم پہلے جاتے ہیں اور مہاتیر محمد کیساتھ اور طیب اردوان کے ساتھ صلاح کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے حل کیلئے ایک جرگہ کرنا چاہیے۔ وہ دونوں سادہ لوگ بھی عمران خان پر دھوکہ ہو گئے، جس سے قرضہ لایا تھا اس کی ٹیلیفون آئی کہ قرضہ ہم سے لیتے ہو اور جرگہ ترکی، ملائشیا کیساتھ کرتے ہو۔

جرگہ بلایا گیا لیکن عمران خان نے شرکت نہیں کی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وزیراعظم کتنا مضبوط ہے۔ہمیں بھی سوات سے پیغام ملا تھا کہ ہمیں اپنے حال پر چھوڑ دو، اپنے بچوں اور گھروں کی فکر کریں لیکن ہم نے حکومت کی رٹ قائم کر کے چھوڑی۔ہم نے اپنے بچوں پر قوم کے بچوں کو ترجیح دی۔ اسفندیار ولی خان نے برملا کہا تھا کہ اپنے گھر اور بچوں کی پرواہ نہیں لیکن پختون قوم کے بچوں کے سروں کا سودا نہیں کر سکتا۔

انہوں نے کہا کہ وفاق صوبے کو بجلی کی پوری آمدن کا حصہ دیں تاکہ پختون قوم کی خدمت ہو سکے۔ انہوں نے مطالبہ کیاکہ یونیورسٹیوں اور ہسپتالوں میں مالی او انتظامی بحران حل کیا جائے۔باجوڑ سے وزیرستان تک پختون قوم کے علاقے اکٹھے ہیں 100 ارب روپے منظوری کے بعد ریلیز کیے جائیں۔ملاکنڈ میں ٹیکسز کا نفاذ ظلم ہے، آج ملک میں معاشی، اقتصادی بحران ہے، ادارے متنازعہ ہو رہے ہیں۔ امیر حیدر خان ہوتی نے کہا کہ اتحادیوں کی ناراضگی کی باتیں گونج رہی ہیں، ہمیں شک ہے کہ اور کوئی بھی حکومت سے ناراض ہے، وہ لوگ خفا ہیں جنہوں نے ہم سے پختون قوم کی خدمت کرنے کا موقع چھینا۔ ہم نیا الیکشن چاہتے ہیں،نیا الیکشن نیا حوصلہ، نیا جذبہ مانگے گا نئی کوششیں مانگے گا ہم سب تیار ہیں۔

پشاور میں شائع ہونے والی مزید خبریں