ًملک کسی کی ڈکٹیشن پر نہیں چل سکتا ،فیصلے پارلیمنٹ کو کرنے دیئے جائیں ،محمودخان اچکزئی

انصاف کے بغیر ایک گھر نہیں چل سکتا تو ملک کیسے چلے گا آئین کے مطابق پاکستان کو چلانے کی بات کرنیوالے نہیں آئین توڑنے اور ان کا ساتھ دینے والے غدار ہیں، سربراہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی

ہفتہ 26 ستمبر 2020 23:03

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 26 ستمبر2020ء) پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ ملک کسی کی ڈکٹیشن پر نہیں چل سکتا ،تمام فیصلے عوام کی منتخب پارلیمنٹ کو کرنے دیئے جائیں ،انصاف کے بغیر ایک گھر نہیں چل سکتا تو ملک کیسے چلے گا آئین کے مطابق پاکستان کو چلانے کی بات کرنیوالے نہیں بلکہ آئین توڑنے اور ان کا ساتھ دینے والے غدار ہیں،،آئین پرعملدرآمد سے متعلق ہمارے اکابرین کے نعرے آج پنجاب اور سندھ سے لگ رہے ہیں جس کو ہم پاکستانی عوام کی کامیابی سمجھتے ہیں کیونکہ یہ آئین ہی ہے جومختلف زبانیں اور نسل کے لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑتاہے ،جمہوریت کیلئے شہادت دینے والوں کو شہداء جمہوریت قراردیاجائے اور پی ایس او کے تحت حلف لینے والے ججز سے تمام مراعات واپس لیکر آئین سے کھلواڑ کرنے والوں کی سخت مذمت کی جائے ۔

(جاری ہے)

صحافیوں کے حقوق کیلئے ان کی جدوجہد میں نہ صرف ان کے ساتھ ہیں بلکہ صحافت کی آزادی کیلئے ہر حد تک ان کے ساتھ جانے کو تیار ہیں ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی جانب سے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے اعزاز میں ظہرانہ کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے مرکزی و صوبائی ایگزیکٹیو اراکین عبدالقہار خان ودان، عبدالرحیم زیارتوال، سید لیاقت آغا، ڈاکٹر حامد اچکزئی، سردار رضا محمد بڑیچ، عبدالرئوف لالا، یوسف خان کاکڑ، سید شراف آغا، عیسی روشان،نصراللہ زیرے ، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر شہزادہ ذوالفقار، جنرل سیکرٹری ناصر زیدی ، بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر محمد ایوب ترین، لاہور پریس کلب کے صدر اشرف انصاری، سلیم شاہد و دیگر بھی موجود تھے۔

محمود خان اچکزئی نے کہا کہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی انسان سے رنگ ، نسل ، قوم ، زبان ، مسلک اور مذہب دیگر بنیادوں پر فاصلے گناہ کبیرہ سمجھتی ہے تمام انسان برابر ہے ۔ حدیث ہے کہ تقویٰ دار ، انصاف کرنے والا آدمی ہی دوسروں سے اللہ کے نزدیک ہے ۔ پاکستان ہمارا ملک اور ایک فیڈریشن ہے اس میں رہنے والے اقوام اپنی اپنی زبانیں بولتے ہیں سب کو آئین ایک دوسرے سے جڑے رکھا ہے جس کے تحت ہم پاکستان کے شہری ہے ۔

ہم نے اپنی مٹی سے محبت اور اس کی دفاع کا عہد کیا جب انگریز یہاں حکمرانی کررہے تھے جس صمد خان اچکزئی نے اپنی نویشت میں بیان کیا ہے وہ کہتے ہیںکہ وہ وہ خود یہ بات سوچنے پر مجبور ہوئے کہ یہاں جو کچھ ہورہا ہے اس بربادی کی وہ سے انگریز حکمرانی ہے ، خان عبدالصمد خان اچکزئی علامہ اقبال کے شہر میں بیان کئے گئے صفات کے مالک شخصیت بننا چاہتے تھے ۔

غازی مان اللہ خان مسلمانوں کا ہیروتھا ان کے آنے کی خبر سن وہ بھی اس کے استقبال کے لئے پہنچے تو وہاں انہیںسلامی کے لئے انگریز دستے کے اہلکاروں کی جوتیں بارش کی وجہ سے گندے ہونے پر یہاں کے خاکروبوں کو حکم دیا گیا کہ وہ ان کی جوتیں صاف کریں ۔ شہید صمد خان اچکزئی کے مطابق یہ چھوٹی سی بات ان کے لئے بہت بڑی بن گئی اور وہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ یہاں کے مقامی لوگ یا ہندوستان کے دستے نے کیوں انہیں سلامی نہیں دی اور جدوجہد کا آغاز کیا ۔

محمود خان اچکزئی نے کہا کہ 1879میں انگریز نے پشتون علاقوں کوقبضہ کیا تھا اور پھر گندمک میں معاہدہ کے وقت پشین ، ژوب ، لورالائی ، کوئٹہ کے علاوہ زیارت ، سنجاوی ، دکی ، ہرنائی سمیت چاغی ، مری و بگٹیوں اور جمالی کا علاقہ شامل کرکے اس علاقے کو برٹش افغانستان کی بجائے برٹش بلوچستان کا نام دیا حالانکہ یہ افغان علاقے تھے انہیں برٹش افغانستان کا نام دینا چاہیے تھا ۔

انہوں نے کہاکہ 1929ء میں خان عبدالصمد خان اچکزئی شہید ،ان کے بڑے بھائی اور ان کے چچازاد کو گرفتار کرکے کہاگیاکہ یہ انقلابی پارٹی بناناچاہتے ہیں خان شہید نے پشتونوں کیلئے جدوجہد کے علاوہ بلوچوں کی بھی مدد کی جب میں پانچ ماہ کا تھا اس وقت میرے والد کوگرفتارکیاگیا میں اور میرے بھائی والدہ کے ساتھ رہتے تھے میں چھ سال کا ہوا تو میرے والد رہا ہوکر گھر آئے جہاں پہلی مرتبہ میں نے اپنے والد کو دیکھا اس کے بعد بھی میرے والد کے ساتھ میری ملاقات اکثر جیل میں ہوا کرتی تھی میرے والد نے قید وبند کی صوبتیں برداشت کیں اس کے باوجود بھی ہم نے کبھی پاکستان مردہ باد کانعرہ نہیں لگایا جب میرے والد صاحب 10سال جیل میں گزار کررہا ہوئے توان کے ساتھیوں اس وقت کے سیاسی اکابرین نے ان کااستقبال کیا جس پر دو ہفتے بعد انہیں دوبارہ گرفتارکرکے 14سال قید بامشقت کی سزا دی گئی ،خدا کاشکر ادا کرتاہوں جو کچھ ہمارے اکابرین اسوقت کہا کرتے تھے آج پنجاب اور سندھ سے وہ نعرے اٹھ رہے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہماری نہیں بلکہ پاکستانی عوام کی کامیابی ہے ،ملک چلانے کا واحد راستہ ہر آدمی کی عزت کرنے ،تمام اقوام کی برابری میں ہے ،ہم چاہتے ہیں کہ ہماری فوج دنیا کی بہترین فوج ہو ہم انہیں بہترین ٹینک ،جہاز اور لوازمات دیں گے مگر انہیں آئین کے تحت اٹھائے گئے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے سیاست میں مداخلت سے گریز کرناہوگا،سینیٹ انتخابات میں ایک ووٹ کے بدلے 70کروڑ روپے دینے کی افواہیں گردش کرتی رہی ملک کسی ادارے کی ڈکٹیشن پر نہیں چل سکتا ملک کے فیصلے 22کروڑ عوام کی منتخب پارلیمنٹ کو کرنے دیاجائے ،ہمیں ملک کے تمام ادارے عزیز ہے اس پر کوئی بھی سمجھوتہ نہیں کرے گایہ ایجنڈا سب کاہونا چاہیے ،ملک کے تمام ادارے فوج ،عدلیہ ،پریس سمیت سب کو اپنے حدود میں رہتے ہوئے کام کرناہوگا انہوں نے کہاکہ قائداعظم نے خود کانگریس کے ممبر ہوتے ہوئے جدوجہد کرتے رہے لیکن پاکستان کو جن کے حوالے کیا گیا ان میں ایسا کوئی نہیں تھا جس نے آزادی کیلئے جدوجہد کی ہو ،پاکستان چلانے کیلئے اس وقت سیاسی لوگوں کی ضرورت تھی جن میں پشاور سے باچاخان ،سندھ ،پنجاب اور بلوچستان کے اکابرین موجود تھے مگر ان پر بیک جنبش قلم کٹ لگا کر انہیں آزادی کی مخالف قراردئیے گئے ۔

قائداعظم سے آئین کی پہلی خلاف ورزی پشاورکی آئینی اسمبلی کو ختم کروادی گئی ،محمد علی جناح اکیلے پاکستان نہیں چلا سکتے تھے انہیں کہاگیاکہ پنجاب کے فلاں چوہدری ،سندھ کے فلاں وڈیرہ ودیگر یہ ملک چلاسکتے ہیں مگر انہیں بدلے میں کچھ چاہیے اور ملک کیلئے مخصوص لوگوں کاانتخاب کیا گیا جو قائداعظم سے لیکر آج عمران خان کی حکومت میں شامل ہیںیہ وہ پرندے ہیں کہ جس عمارت پر بیٹھتے ہیں اس کوکھنڈرات میں تبدیل کردیتے ہیں ،محمود خان اچکزئی نے کہاکہ آج بھی ایسے لوگ حکومت میں شامل ہیں جو اپنی زندگی میں کبھی بغیر اقتدار نہیں رہے کبھی انگریز ،کبھی ڈکٹیٹر کے ساتھ رہے اورآج بھی عمران خان کے ساتھ ہیں انہوں نے کہاکہ آل پارٹیز کانفرنس میں نے اپنی تجویز دی کہ ایسے لوگوں کو کوئی بھی سیاسی پارٹی اپنی جماعت میں شامل نہیں کرینگے بلکہ ان کی سیاست پر تاحیات پابندی لگانی ہوگی اورجمہوریت کیلئے جن لوگوں اور کارکنوں نے قربانیاں ،قید وبند کی صوبتیں برداشت کی انہیں ہیرو قراردیکر ان کے خاندانوں کی مالی مدد کی جائیں اور شہادتیں دینے والوں کوشہداء جمہوریت قراردیا جائے کیونکہ ان لوگوں نے وزیراعظم ،وزیراعلیٰ شپ ،ایم پی اے شپ یا سینیٹرشپ کیلئے قربانیاں نہیں دی ،صحافت کی آزادی ،آئین کی بالادستی ،جمہوریت پر یقین رکھنے کا وعدہ سب کرنا ہوگا،پی ایس او کے تحت حلف اٹھانے والے ججز سے تمام مراعات واپس لئے جائیں اور جنہوں نے حلف نہیں اٹھایا انہیں خراج تحسین پیش کیاجائے ،انہوں نے کہاکہ میں نے پارلیمنٹ کے پہلے اجلاس میں کہاتھاکہ جنہوں نے آئین کے ساتھ کھلواڑ کی ہے ان کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی جائے ہم چاہتے ہیں کہ آئین کی پاسداری کی جائے اگر چہ آئین نے ابھی تک ہمیں اس انداز میں متحد نہیں کرسکا جب میں دوسری دفعہ پارلیمنٹ پہنچا تو میں نے یہ کہاکہ پارلیمنٹ میں لیاجانے والا حلف اگر صرف خانہ پوری ہے تو نہیں لیںگے اور اگر اس پرعملدرآمد کرناہے تو سب کو اس کی پاسداری کرناہوگی ،انہوں نے کہاکہ پشتون اور بلوچ میں راہ چلتے جو زبان دی جاتی ہے پھر دنیا کا کوئی طاقت انہیں توڑ نہیں سکتا ،ملک انصاف سے ہی چل سکتاہے انصاف کے بغیر تو گھر کا چلنا ممکن نہیں تو ایک ملک جہاں مختلف اقوام رہتے ہوں کیسے چل سکتاہے ،عوام کے ووٹ سے منتخب پارلیمنٹ طاقت کا سرچشمہ ہوناچاہیے ،انہوں نے کہاکہ آئین کی بات کرنے والا غدار نہیں بلکہ غدار کا تعین آئین کے آرٹیکل 6میں وضع کیاگیا ہے کہ جو بھی جرنیل اور کوئی اور آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرے گایا اس سے معطل کرے گاوہ اوراسکاساتھ دینے والے بھی غدار ہیں ،انہوں نے کہاکہ افغانستان نے ہرمشکل میں پاکستان کا ساتھ دیاہے 1965اور 71ء کی جنگوں کے دوران جب ملک مشکلات سے گزررہا تھا امریکہ امداد سے انکاری تھی تو افغانستان نے پاکستان کے ساتھ رنجشوں اور بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود پاکستان کا ساتھ دیا ،40سے 50سالوں سے افغانستان میں قتل عام جاری ہے اس کے تدارک کیلئے پاکستان کو کرداراداکرناچاہیے ورنہ اس کے خطرناک نتائج برآمدہونگے ،انہوں نے کہاکہ آج حالت یہ ہے کہ ڈراموں کے ذریعے نفرتیں پھیلائی جارہی ہے ایک ڈرامے میں پشتون اور پشتین کو الگ کرکے انہیں انتہاپسند قراردیا گیاہے حالانکہ پشتون اور پشتین کا مطلب ایک ہی ہے صرف پشتوزبان مختلف علاقوں میں الگ الگ لہجوں سے بولی جاتی ہے یہ وقت ملک بچانے کی ضرورت ہے انہوں نے کہاکہ فاٹا میں دہشتگردپہاڑوں اور غاروں میں تھے لیکن مقامی آبادی پر بمباری کی گئی ،قبائلی علاقوں کے لوگوں کے مکانات گرائے گئے جب کسی کے گھرکوگراکر ان کے بچوں کو قتل کیاجائیگاتوان سے خیر توقع نہیں کی جاسکتی ،بلوچ پشتون ،سندھی ،سرائیکی غرض کوئی بھی غلاموں کی طرح زندگی قبول نہیں کرے گا میری اے پی سی میں کہی گئی ایک بات کو لیکر کہاگیاکہ یہ ملک توڑنا چاہتے ہیں میں واضح کرناچاہتاہوں کہ ہرانقلاب انکارسے شروع ہوئی ہے جس قوم کے بچوں میں انکارنہ ہو تو انہیں جینے کا حق نہیں ہوتا ہمارے انکار کو بغاوت نہ سمجھاجائے جو ٹھیک نہ سمجھیں تو’’انکار‘‘ہی کرینگے ،اگر کسی کو میری شکل پسند نہیں تو میں وعدہ کرتاہوں کہ میں انتخابات میں حصہ نہیں لوں گامگر گارنٹی دینی ہوگی کہ یہاں آئین کا بول بالا ہوگا وسائل پر سب سے پہلا حق وہاں کے باشندوں کا ہوگا تمام زبانوں کا احترام ہوگا پشتون بلوچ غریب لوگ ہیں انہیں چھیڑنے سے بہت بڑا طوفان آئے گا،انہوں نے کہاکہ ہم نے جو کچھ کہاوہ نہیں مانا گیا ون یونٹ کو ہم نے بربادی قراردیا مگر ہماری نہیں سنی گئی بعد میں خود تسلیم کرکے اس سے ون یونٹ ختم کردیاگیا ہم نے کہاکہ اس ملک کو آئین کی ضرورت ہے مگر نہیں مانا گیا بعد میں 1973ء کاآئین بنایا گیا جسے تسلیم نہیں کیا جارہا یہ سماج دشمن پالیسیاں بربادی کاراستہ ہیں اس سے ملک خانہ جنگی کی طرف جارہاہے جو کسی کے مفاد میں نہیں طاقت کسی مسئلے کا حل نہیں ہٹلر سے کوئی بھی خود کو زیادہ خطرناک نہ سمجھیں ،بھارت ہم سے زیادہ غریب ہے لوگ فٹ پاتھ پرپیداہوکر فٹ پاتھ پر مر جاتے ہیں لیکن انہوں نے بھی جمہوریت کا راستہ اپنایا ،ملک میں مارشلائوں نے فوج کے صلاحیتوں کو بھی کند کردیا ایٹمی قوت رکھنے والی ملک آج قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہواہے ،پشتون بلوچ صوبہ کی پوری آبادی پنجاب کے ایک ضلع کے برابر بھی نہیں مگر یہاں کے لوگوں کو بمشکل ایک وقت کی روٹی بھی میسر نہیں اس صوبے کے وسائل دنیا کے کسی ممالک میں نہیں سوئی گیس ختم ہوگئی لیکن وہاں کے لوگوں کی حالت آج بھی تبدیل نہیں ہوئی ،انہوں نے کہاکہ صحافیوں کے حقوق کیلئے ان کی جدوجہد میں نہ صرف ان کے ساتھ ہیں بلکہ صحافت کی آزادی کیلئے ہر حد تک ان کے ساتھ جانے کو تیار ہیں

کوئٹہ میں شائع ہونے والی مزید خبریں