ایشیا کپ پاکستان کے ہاتھ سے نکل گیا، سری لنکا ایشین چیمپئن بن گیا

Asia Cup Pakistan K Hath Se Nikal Giya

نااہل کوچز نہ حکمت بناسکے نہ سری لنکا کی حکمت عملی توڑ سکے فواد عالم کی شاندار سنچری، پورے ٹورنامنٹ میں باؤلرز نے مایوس کھیل پیش کرکے مایوس کردیا

Ejaz Wasim Bakhri اعجاز وسیم باکھری منگل 3 فروری 2015

Asia Cup Pakistan K Hath Se Nikal Giya
اعجاز احمد: تمام توقعات کے برعکس پاکستان ایشیا کپ میں ٹائٹل کا دفاع کرنے میں ناکام ہوگیا۔قومی ٹیم نے پورے ٹورنامنٹ میں عمدہ کرکٹ کھیلی سری لنکا کیخلاف کھیلے گئے دونوں میچز میں قومی ٹیم مکمل طور پر آؤٹ کلاس ہوگئی۔ پہلے راؤنڈ میچ میں پاکستان سری لنکا کیخلاف 12رنز سے شکست کھاگئی اور اب فائنل میں ایک بار پھر قومی ٹیم سری لنکا کیخلاف نہ تو حکمت عملی کیساتھ کھیلی اور نہ ہی ان کی حکمت عملی کو توڑنے میں کامیاب ہوسکی۔

ایشیا کپ میں پاکستان کی شکست سب سے بڑی وجہ باؤلرز کی ناکامی ہے جبکہ بلے بازوں نے بھی اہم میچ میں ایک بارپھر دھوکو دیا۔ ایک ایسی وکٹ پر جس پر بنگلہ دیش نے صرف تین وکٹوں کے نقصان پر 325رنز بنائے اور وہ بھی پاکستان کیخلاف، مگرقومی ٹیم سری لنکا کیخلاف اُسی وکٹ پر مشکل سے 260رنز بناسکی۔

(جاری ہے)

فائنل میں ٹاپ آرڈرز نے ساری توقعات پر پانی پھیر دیا۔

احمد شہزاد، محمد حفیظ اور شرجیل خان ابتدا میں آؤٹ ہوئے تو ٹیم دیوار کے ساتھ لگ گئی اور پھر سنبھل ہی نہ سکی۔مصباح الحق اور فواد عالم نے ٹیم کو سہارا دیا اور کسی حد تک ٹیم کیلئے بہتر سکور کرنے میں کامیاب رہے تاہم شیربنگلہ سٹیڈیم کی جس طرح سیدھی اور فلیٹ وکٹ تھی اُس پر رن ریٹ کا اس قدر نیچے گر جانا اور سکور بورڈ پر کم ٹوٹل کسی بھی صورت میں قابل تعریف نہیں تھا۔

مصباح کے بعد عمراکمل نے جس انداز میں بیٹنگ کی بنیادی طور پر یہ وکٹ ایسی ہی بیٹنگ کیلئے بنائی گئی تھی جس پر فواد عالم جیسا کھلاڑی سنچری سکور کرگیا اس وکٹ پر آپ جے وردھنے جیسے بلے باز سے کم سکور کی توقع نہیں کرسکتے تھے۔ فواد عالم گوکہ ایک اوسط درجے کے بلے باز ہے لیکن اُس کی وہ کلاس نہیں جس کلاس میں شاہد آفریدی، مصباح ، حفیظ اور احمد شہزاد آتے ہیں اس لیے کہاکہ اُس وقت پر جس پر فواد عالم سنچری کرگیا حریف ٹیم کیلئے 260رنز کا ہدف 40 اوورز میں بھی آسان تھا۔

قومی ٹیم کے بلے بازوں نے تو دھوکہ دیا ہی ساتھ ساتھ باؤلرز نے پورے ایشیا کپ میں مایوس کیا اور فائنل میں تو توقعات ہی توڑ دیں۔ گوکہ شیر بنگلہ سٹیڈیم کی وکٹ ایک پھٹہ وکٹ تھی لیکن سری لنکن باؤلرز نے پاکستان کی بڑی بیٹنگ لائن اپ کو نکیل ڈال کر ثابت کردیا کہ باؤلرز اگر محنت کریں توحریف ٹیم کو زیادہ سکور سے روک سکتے ہیں۔ پاکستانی باؤلرز میں محمد طلحہ تو چلیں نئی انٹری تھی لیکن عمرگل اور جنید خان نے سب سے زیادہ مایوس کیا۔

سعید اجمل نے فائنل میں سنگاکارا کو جلدی واپسی کا ٹکٹ تھما کر باقی باؤلرز کو حریف بلے بازوں پر اٹیک کا پورا موقع دیا لیکن عمرگل اور جنید خان کچھ بھی نہ کرسکے۔ عمرگل کو اب یہ بات تسلیم کرلینی چاہئے کہ وہ اب محض ٹی ٹونٹی کا باؤلر رہ گیا ہے۔ عمرگل گھٹنے اور کمر کے آپریشن کروا چکا ہے اور اب اس میں وہ بات نہیں رہی جو آج سے چار سال پہلے تھی۔

عمرگل کو اب صرف اور صرف ٹی ٹونٹی کرکٹ کھیلنی چاہئے کیونکہ اس کی کوالٹی اور قوت اب صرف چاراوورز کی رہ گئی ہے۔ گل کو خود اس بات کا احساس ہونا چاہئے اس کی باؤلنگ میں وہ خاص بات نہیں رہی جو پہلے تھی۔ کرکٹ اب تو تیز ہوچکی ہے اور ایک آرٹ بن چکی ہے۔ گل کیخلاف اب تو حریف ٹیموں کے معمولی بلے باز بھی غیرمعمولی شاٹس کھیلتے ہیں، اس لیے اب خود گل کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا چاہیے ناکہ سلیکٹرز کوئی سخت اقدام کریں۔

جنید خان ابھی ینگ ہیں اور ان میں بہت کرکٹ باقی ہے اس لیے جنید خان کو مزید محنت کرنی چاہیے اور سینئر باؤلرز سے سیکھنا چاہئے اور یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان کو وقار یونس اوروسیم اکرم جیسے بڑے باؤلرز کی بطور کوچ ضرورت ہے۔ شعیب محمد کو فیلڈنگ کوچ بنایا گیا ہے وہ ماضی کے اوپنر بلے باز رہے ہیں، ظہیر عباس بھی ڈگ آؤٹ میں بیٹھے نظر آتے ہیں وہ بیٹنگ کنسلٹنٹ ہیں اور ماضی کے عظیم بلے باز رہ چکے ہیں اور معین خان وکٹ کیپر بلے باز تھے ، اس لیے باؤلرز کی کم ہوتی ہوئی قوت کو بڑھانے کیلئے باؤلر کوچ کی ضرورت ہے اور اس کیلئے وقاریونس سے بہتر کوئی چوائس نہیں ہے اور وقاریونس قومی ٹیم کی کوچنگ کیلئے آسٹریلیا سے لاہور آئے تھے اور ذکاء اشرف نے انہیں کوچ بنانے کاحتمی فیصلہ کربھی لیا تھا تاہم حکومت کی جانب سے ذکاء اشرف کی برطرفی کے بعد نجم سیٹھی نے آتے ہی وقاریونس کی فائل ہی گم کردی اور معین خان کو کوچ بنادیا جس کا خمیازیہ قومی ٹیم نے بھگت بھی لیا۔

ٹی ٹونٹی ورلڈکپ اب سرپہ آچکا ہے اور قومی ٹیم کو اب حکمت عملی تبدیل کرنا ہوگی۔ باؤلنگ کو مضبوط کرنا ہوگا اور باؤلنگ مضبوط کرنے کیلئے باؤلنگ کوچ کی اشد ضرورت ہے اور اس سے زیادہ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ کسی بڑے نام کو باؤلنگ کوچ بنایا جائے۔ عاقب جاوید طویل عرصہ باؤلنگ کوچ رہے اوروہ اپنی بے قدری کی وجہ سے پاکستان چھوڑ کر دبئی میں جاکر باؤلنگ اکیڈمی میں کام کررہے ہیں۔

پاکستان میں تو کرنٹ سٹار کی قدر کی جاتی ہے اور نہ ہی سابقہ سٹارز کو عزت دی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قومی ٹیم بڑا ٹائٹل نہیں جیت سکی۔ نجم سیٹھی کے پاس اس وقت اقتدار ہے اور وہ اقتدار میں آکر اپنے دوستوں کو ضرور نوازیں لیکن میرٹ کو ترجیح دیں اور ایسے لوگ ٹیم کے ساتھ تعینات کریں جو فائدہ پہنچا سکیں ۔توقع ہے کہ ایشیا کپ ہارنے کے بعد مینجمنٹ نے بہت کچھ نوٹ کرکے ان چیزوں کو ٹھیک کرنے کیلئے کوئی حکمت عملی بنائیں گے کیونکہ اگر باؤلر ز کی کارکردگی ایسی رہی اور بیٹسمین ایسی طرح دھوکہ دیتے رہے تو ٹی ٹونٹی ورلڈکپ کے سیمی فائنل تک رسائی بھی مشکل ہوجائے گی کیونکہ پاکستان کے پول میں بھارت ، آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کی ٹیمیں شامل ہیں جن کیخلاف فتح مشکل ہوجائے گی۔

مزید مضامین :