ہاکی ورلڈکپ کا مایوس کن آغاز،پاکستان بھارت سے ہارگیا

Pakistan Ka Hockey World Cup Ka Mayoos Kun Aghaaz

سہیل عباس نے چھ پنالٹی کارنرضائع کیے،دفاعی حکمت عملی لے ڈوبی فیڈریشن کی من مانیاں اور ذاتی پسند کی سلیکشن نے بھارت کے ہاتھوں رسوا ہونے پر مجبورکیا

پیر 1 مارچ 2010

Pakistan Ka Hockey World Cup Ka Mayoos Kun Aghaaz
اعجازوسیم باکھری: بارہویں ہاکی ورلڈکپ کا آغاز ہوگیا ہے لیکن پاکستان کا آغاز مایوس کن رہا۔اتوار کے روز دہلی میں بھارت کے خلاف کھیلے گئے اپنے پہلے میچ میں پاکستانی ٹیم نے ایک بارپھرتاریخ کی بدترین کارکردگی پیش کرتے ہوئے روایتی حریف کے شائقین کو جشن کا موقع فراہم کیا اور ایک عبرتناک شکست کا جھومر اپنے ماتھے پرسجا لیا۔بھارت نے پاکستان کو چار کے مقابلے میں ایک گول سے شکست دی،پاکستان کو پورے میچ میں سات پنالٹی کارنرملے جن میں سے سہیل عباس صرف ایک گول کرسکے جبکہ گول کیپرسلمان اکبرنے پہلے ہاف کے ابتدائی منٹوں میں اچھا کھیل پیش کیا اور بھارت کے تین کاؤنٹراٹیک ناکام بنائے لیکن بعدمیں وہ بھی اپنی ٹیم کے ناقص ڈیفنس کا حصہ بن گئے اورحریف کھلاڑیوں کو چار گول کرنے کا موقع دیا۔

(جاری ہے)

بھارت کے خلاف میچ میں اگرپاکستانی ٹیم کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے توصرف چند منٹ ایسے تھے جن میں پاکستان کی پوزیشن اٹیکنگ تھی اور کھلاڑیوں میں جذبہ نظرآیا ورنہ پورے میچ میں بھارتی ٹیم چھائی رہی اورحریف ٹیم نے پہلے منٹ سے لیکر آخرتک پاکستانی گول پوسٹ پر پے درپے اٹیک کیے لیکن ٹیم مینجر آصف باجوہ اور شاہد علی خان کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے پاکستانی ٹیم پہلے ہاف میں نہ تو دفاعی پوزیشن پر کھیلی اور نہ ہی کھلاڑیوں نے بھارتی پوسٹ پر جوابی حملے کیے۔

یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے پاکستانی کھلاڑی گھبرائے ہوئے ہوں اور خوف کے عالم میں کھیل رہے تھے ،حالانکہ پاکستانی ٹیم بھارت کے مقابلے میں ایک مضبوط ٹیم ہے اور کوئی بھی چار ایک کی شکست کی توقع نہیں کررہا تھا۔گوکہ بھارت کو ہوم گراؤنڈ اور کراؤڈ کا ایڈوانٹیج حاصل تھا لیکن ماضی میں بھی یہ ایڈوانٹیج بھارت کو ہی حاصل ہوتا تھا لیکن پاکستان نے بھارت کو اُس کی سرزمین پر لاتعداد شکستیں دیں مگر اس بار تو بھارت نے ہی پاکستان کو آؤٹ کلاس کردیا۔

پاکستان کو بھارت کے خلاف سات پنالٹی کارنرملے جن پرسہیل عباس صرف ایک گول کرسکے ، ابتدائی دوٹرائیاں گول پوسٹ پر لگ کرواپس آگئیں لیکن ساتھی کھلاڑی دوبارہ کوشش کرنے میں ناکام رہے۔سہیل عباس گوکہ ایک سینئر کھلاڑی ہیں لیکن وہ مسلسل پنالٹی کارنر ضائع کرتے چلے آرہے ہیں اور اب ان پر انحصار کرنے کی پالیسی کو ترک کرنا ہوگا۔بھارت کے خلاف میچ میں یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے پاکستانی ٹیم کے کھلاڑی سستی کا شکار تھے اورپریشان دکھائی دے رہے تھے ، شاید کراؤڈ کی وجہ سے کنفیوز تھے اور اگر ایسا تھا تو آصف باجوہ اور شاہد علی خان وہاں کیا کررہے تھے؟سہیل عباس جب باربارپنالٹی کارنرضائع کررہا تھا تو یہ کوچ کا کام ہوتا ہے کہ وہ حکمت عملی تبدیل کرائے لیکن ہماری ٹیم کے ساتھ یہ بھی مسئلہ رہتا ہے کہ ٹیم شاہد علی خان کی بات مانے یا آصف باجوہ کی۔

آصف باجوہ چونکہ پی ایچ ایف کے سیکرٹری بھی ہیں لہذا کوچنگ سٹاف سے لیکر کھلاڑی بھی اُن سے ڈرتے ہیں کیونکہ وہ اُن کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کرتے ہیں جو انہیں ذاتی طور پر پسند ہوتے ہیں۔حسن سردار جیسے لیجنڈ کھلاڑی کو سلیکشن کمیٹی کا سربراہ تو بنایاہوا ہے لیکن ٹیم آصف باجوہ سلیکٹ کرتے ہیں۔اگر ورلڈکپ کے سکواڈ پر نظردوڑائی جائے تواس ٹیم میں شفقت رسول جیسا جوشیلہ کھلاڑی اس لیے ٹیم کا حصہ نہیں ہے کہ وہ آصف باجوہ کو پسند نہیں ہے حالانکہ موجودہ ٹیم میں اُس کا شمار سپرفٹ کھلاڑیوں میں ہوتا ہے اور بھارت کے خلاف ہمیشہ شفقت نے شاندار کھیل پیش کیا اور اس میں جذبہ بھی ہے ،شفقت کی جگہ عمربھٹہ نامی جس کھلاڑی کو شامل کیا گیاہے گزشتہ رات اُسی عمربھٹہ کی وجہ سے بھارت کو دو پنالٹی کارنرملے اور سب سے زیادہ غلطیاں عمربھٹہ نے کیں۔

بھارت نے پاکستان کے گول پوسٹ پر سب سے زیادہ اٹیک اس لیے کیے کیونکہ پاکستان کا سنٹرہاف بالکل خالی تھا، محمد ثقلین سنٹرہاف پوزیشن میں دنیا کے بہترین کھلاڑی سمجھے جاتے ہیں لیکن آصف باجوہ کی ذاتی عناد کی وجہ سے انہیں زبردستی ریٹائرڈ کردیا گیا ہے حالانکہ وہ آج بھی ٹیم میں کھیلنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور ثقلین کی پوزیشن پر تاحال پی ایچ ایف اُن کا متبادل نہیں ڈھونڈ سکی ورنہ جس طرح سنٹرہاف کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے پاکستانی ڈی پر حملے کیے اُن کی تعداد بہت کم ہوتی۔

مگر وہی بات ہے کہ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس ، اس وقت ہاکی فیڈریشن آصف باجوہ کے ہاتھوں میں ہے اور وہی سیاہ و سفید کے مالک ہیں ، کھلاڑی گراؤنڈ میں کھیلیں تو اُن کی حکمت عملی ہوتی ہے،ٹیم سلیکٹ کی جائے تو اُن کی پسند کو اولیت حاصل ہوتی ہے لیکن جب ٹیم شکست کھاتی ہے تو وہ اپنی کرسی بچانے کی خاطریا تو ذمہ داری سابقہ مینجمنٹ پر ڈال دیتے ہیں یا پھر کہتے ہیں کہ ہمارا یہ ٹارگٹ نہیں اس سے اگلے والا ٹورنامنٹ ٹارگٹ ہے۔

اب جیسے ورلڈکپ میں ناکامیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور یہ سب کچھ متوقع تھا کیونکہ جس طرح ٹیم کی سلیکشن میں غلطیاں کی گئیں یہ واضع نظرآرہا تھا کہ بھارت سے ٹیم پھولوں کے ہارنہیں بلکہ ناکامیوں کے جھومر سجائے واپس لوٹے گی ۔اب تو پی ایچ ایف کے صدر قاسم ضیاء اور آصف باجوہ نے فوراً سے پہلے اپنی حکمت عملی اور پروگرام سمیت بیان بھی تبدیل کرلیے ہیں،اب کہا جارہا ہے کہ ہمارا اصل ٹارگٹ تو ایشین گیمز ہیں ،جب ایشین گیمزقریب ہونگی تب کوئی اور پروگرام دیدیا جائیگا۔

یہی وہ غلط بیانیاں ہیں، یہی وہ غلطیاں ہیں جنہیں بارباردہرایا جاتا ہے اور ہاکی جوہمارا قومی کھیل ہے اس میں پاکستان کو سب سے زیادہ ذلت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ بہرحال:ٹیم اس وقت بھارت میں ہے ، سلیکشن میں تو تبدیلی نہیں ہوسکتی لیکن حکمت عملی میں تبدیلی ضرور ہوسکتی ہے ۔پاکستان کو ورلڈکپ کے پہلے میچ میں شکست ہوچکی ہے لیکن آگے اب سپین اور آسٹریلیا کے خلاف مقابلہ ہے کم از کم ایک بہترحکمت عملی کے تحت کھیلا جائے تاکہ بھارت کے خلاف ہونیوالے بدترین شکست کی کارکردگی دوبارہ نہیں دہرائی جائے ۔

مزید مضامین :