بیٹسمینوں نے باؤلرز کی محنت پر پانی پھیر دیا ،پاکستان کو تیسرے میچ میں شکست

Pakistan Loose 3rd Odi

آسٹریلیا کی سیریز میں دو ایک سے برتری ،دفاعی انداز میں بیٹنگ کرنا پاکستان کو لے ڈوبا ہار جیت کی پرواہ نہیں ،آسٹریلیا سے سیکھنے کا موقع مل رہا ہے ، یونس خان کا شکست کے بعد غیر سنجیدہ موقف

منگل 28 اپریل 2009

Pakistan Loose 3rd Odi
اعجازوسیم باکھری : ابوظہبی میں کھیلے گئے تیسرے میچ میں آسٹریلیا نے پاکستانی بساط الٹاکر سیریز میں دو ایک سے برتری حاصل کرلی ہے۔شیخ زائد سٹیڈیم میں کھیلے گئے میچ میں پاکستانی ٹیم 199رنز کے ہدف کے تعاقب میں 171رنز بناکر آؤٹ ہوگئی۔ہدف کے تعاقب کے دوران قومی بیٹسمینوں نے انتہائی غیرذمہ داری سے بیٹنگ کی اور تمام سینئرکھلاڑی انتہائی فضول شارٹ کھیل کر آؤٹ ہوئے اور اس حدتک غیرذمہ داری کا ثبوت پیش کیا کہ آخری وکٹ تک کسی ایک نے بھی اس بات کا احساس نہیں کیا کہ وہ انتہائی کم ٹارگٹ کا تعاقب کررہے ہیں اوراُن کے پاس ہدف پورا کرنے کیلئے کافی اوورز بھی موجود ہیں لیکن اس کے باوجود کپتان سے لیکر شعیب ملک کے آؤٹ ہونے تک کسی نے بھی میچ جیتنے کی کوشش نہیں کی اور آسٹریلیا کی جھولی میں ایک آسان جیت ڈال دی اور خود کو ایک میچ کے خسارے لاکھڑا کردیا ۔

(جاری ہے)

میں ہمیشہ اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ ہار جیت کھیل کا حصہ ہے اور ہمیشہ میں ایسی ہار کا حامی رہا ہوں جو سخت مقابلے کے بعد ملے اورمیرے لیے وہ ہار قابل قبول ہوتی ہے جس میں جیت کیلئے اپنی تمام ترصلاحیتیں بروئے کار لائی جائیں اور اگر اس کے باوجود آپ ہار جاتے ہیں تو ایسی ہار کو ہار کہتے ہوئے بھی دکھ نہیں ہوتا لیکن اگر آپ بغیر فائیٹ کیے اور مزاحمت کیے بغیر ہار جائیں تو نہ صرف کئی روز تک ایسی ہار دکھ رہتا ہے بلکہ اس سے کھیل کے ساتھ محبت بھی کم ہوتی ہے۔

پاکستان میں اگر آج شائقین کرکٹ کی تعداد کم ہوچکی ہے اور لوگ کرکٹ سے بیزار آچکے ہیں تو اس کی سب سے بڑی بنیاد ی وجہ قومی کرکٹ ٹیم کی مزاحمت کیے بغیر ہار کو گلے لگانے کی عادت ہے جس نے نہ صرف پاکستانی کرکٹ کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا ہے بلکہ اس عادت نے لوگوں کو کرکٹ سے دور کرنے میں بھی اپنا کلیدی کردار ادا کیا ۔یہ کہنا درست نہیں ہے کہ پاکستانی ٹیم سامنے نظر آتی شکست سے بچنے کی صلاحیت نہیں رکھتی یا مشکل حالات میں یہ ٹیم بے حوصلہ ہوجاتی ہے ۔

نہیں ۔ایسا نہیں ہے ،اس ٹیم نے کئی بار مشکل حالات میں کم بیک کیا اور ایسے میچز میں حریف ٹیم کے منہ سے فتوحات چھین لی جن کے بارے میں تصور بھی نہیں کیا سکتا تھا کہ پاکستان کامیابی حاصل کریگا لیکن قومی کرکٹرز نے کئی بار ثابت کیا کہ وہ کسی بھی وقت حریف ٹیم کیلئے مشکلات پیدا کرکے اپنی موجودگی کا احساس دلا سکتے ہیں لیکن بیشتر مرتبہ ہمارے کرکٹرز نے مایوس کیا اور انتہائی نکمے انداز میں بغیر مزاحمت کیے ہتھیار ڈال دیئے جس سے لوگوں میں مایوسی پھیلی اوراُس کا نقصان آج ملکی کرکٹ اٹھارہی ہے ۔

آسٹریلیا کے خلاف پہلے ون ڈے میں پاکستان نے کامیابی حاصل کی تھی تو میں نے اپنے آرٹیکل میں واضح لکھا تھا کہ پاکستانی باؤلرز بہتر کھیل پیش کررہے ہیں لیکن بیٹنگ میں بے شمار خامیاں ہیں اور کوچ انتخاب عالم کو چاہئے کہ وہ جیت کے نشے کو سر سے اتار پھینکیں اور اپنی خامیوں کو درست کرنے کی کوشش کریں لیکن پہلے میچ کے بعد آنے والے اگلے دونوں میچز میں نہ صرف پاکستان کو کمزور بیٹنگ پلاننگ کی وجہ سے شکست کھانا پڑی بلکہ یہ بھی ثابت ہوگیا کہ قومی کرکٹرز تاحال جیت کے نشے میں مست ہیں ورنہ اگر پہلے میچ کی جیت کو پس پشت ڈال کر قومی کرکٹرز میدان میں اترتے تو شاید آسٹریلیا ہمیں لگاتار دو میچز میں شکست نہ دیتا ۔

لیکن اب یہ حقیقت میں بدل چکا ہے کہ آسٹریلیا نے سیریز میں دو ایک کی برتری حاصل کرلی ہے اور اگلا میچ جیتنے کی صورت میں وہ سیریز اپنے نام کرلیں گے ۔سیریز کے تیسرے میچ میں پاکستانی اوپنر ز سلمان بٹ اور احمد شہزاد نے اپنی ٹیم کو بہترین آغاز فراہم کیا اور ان دونوں نے چندعمدہ شارٹس کھیل کر یہ امید پیدا کردی تھی کہ پاکستان اس میچ میں کامیابی حاصل کرسکتا ہے لیکن سلمان بٹ کے آؤٹ ہوتے ہی پاکستانی بیٹنگ آرڈر ریت کی دیوار ثابت ہوا اور دوبار ایسا موقع آیا جب آسٹریلوی باؤلرز ہیٹ ٹرک کے قریب آئے لیکن انہیں ہیٹ ٹرک کرنے میں کامیابی تو نہیں ملی البتہ وہ اپنی ٹیم کو سیریز میں برتری دلانے میں کامیاب ضرور ہوگئے ۔

سلمان بٹ اور احمد شہزاد نے بھی اپنی غلطی سے وکٹ گنوائی لیکن انہوں نے کچھ سکور تو کیا ،مصباح الحق ، یونس خان ،شاہد آفریدی اور کامران اکمل نے انتہائی غیردمہ داری سے اپنی وکٹیں گنوائیں اورسب سے زیادہ دکھ شعیب ملک اور سہیل تنویر کی غلطیوں پر ہوا جو میچ کو بالکل جیت کے قریب لے آئے تھے لیکن ہمیشہ کی طرح شعیب ملک نے لاپراوہی سے رن آؤٹ ہوکر لاکھوں لوگوں کو اد اس اورمایوس کیا ۔

جس طرح 199رنز کے آسان ہدف کے تعاقب میں پاکستانی وکٹیں گررہی تھیں تو اُس وقت یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے آسٹریلیا ایک بار کی عالمی چیمپئن پاکستان کے خلاف نہیں بنگلہ دیش یا زمبابوے کے خلاف کھیل رہی ہے ۔میچ پر کمنٹری کرتے ہوئے سابق انگلش کپتان جیفری بائیکاٹ اور رمیض راجہ نے بھی پاکستانی بیٹسمنیوں کی لاپراہی پر حیرانی ظاہر کی۔ قارئین: اگرٹیم فائیٹ کرتے ہوئے ہار جائے تو زیادہ دکھ نہیں ہوتا لیکن پاکستانی بیٹسمینوں نے گزشتہ کئی ماہ سے اس روش کو اختیار کیا ہوا ہے کہ اگر تھوڑی سی بھی مشکل آئے تو بجائے اچھا کھیل پیش کرکے ٹیم کو نقصان سے بچایا جائے الٹا مصیبت میں ڈال دیا جاتا ہے ۔

آسٹریلیا کے خلاف میچ سے قبل پاکستانی ٹیم سری لنکا کے خلاف قذافی سٹیڈیم میں بھی 75رنز پر آؤٹ ہوگئی تھی۔اُ س و قت بھی کسی بیٹسمین نے ذمہ داری سے کھیلنے کی جسارت نہیں کی اور میچ کے بعد اُس وقت کے کپتان شعیب ملک کا کہنا تھا کہ ہمیں طویل عرصے سے کرکٹ نہیں ملی اور پاکستان میں کرکٹ نہیں ہورہی ہے لہذا ہم اس شکست کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے ۔کل آسٹریلیا کے خلاف شکست پر کپتان یونس خان کا کہنا تھا کہ وہ آسٹریلوی ٹیم سے سیکھنے آئے ہیں ،ہمارے لیے ہار جیت کوئی معنی نہیں رکھتی ۔

مجھے یونس خان کی یہ بات سن کر دلی دکھ ہوا کہ کیسا احمق کپتان ہے کہ لاکھوں لوگ اپنی نیند خراب کرکے میچ دیکھ رہے ہیں اور لوگ اس حد تک پاکستانی ٹیم سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں میچ کیو جہ سے کھانا تک نہیں کھاتے اور اپنی ٹیم کی کامیابی کیلئے خوب دعائیں کرتے ہیں اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض دیوانے قران مجید ٹی وی پر رکھ دیتے ہیں کہ میچ میں برکت پڑے اور پاکستان سرخرو ہو ۔

لیکن ہماری ٹیم کبھی کبھار ایسی لاپراہ سی ہوجاتی ہے کہ بچوں کی طرح غلطیاں کرکے آؤٹ ہوتے چلے جاتے ہیں اور لوگوں کے جذبات کے ساتھ کھیلتے ہیں اور جب ناقابل برداشت شکست کھالیتے ہیں تو ایسے بیانات مزید صدمہ پہنچاتے ہیں کہ ہمارا مقصدجیت نہیں کچھ اور تھا ۔جیسے کل یونس خان نے کہاکہ ہم تو آسٹریلیا کے خلاف سیکھنے آئے ہیں اور ہمیں اس ہار سے کافی کچھ سیکھنے کوملا ۔

بھئی! آپ نے پچھلے میچ میں بھی شکست کھائی تھی اُس سے کیا سبق حاصل کیا ؟اورسری لنکا کے خلاف 75رنز پر آؤٹ ہوکر آپ نے کیا سیکھا تھا۔ہربار بری کارکردگی پیش کرکے قوم کے جذبات کے ساتھ کھیل کر آپ ایک ہی بہانہ تراشنے سے گریز کریں اور کوئی نئی بات کیا کریں ۔پاکستانی انتہائی جذباتی قوم ہے اور یہ قوم کسی بھی صورت میں شکست برداشت نہیں کرتی۔ شائقین یہ ہرگز نہیں چاہتے کہ ٹیم ہر جگہ کامیابی حاصل کرے کم از کم حریف ٹیم کا مقابلہ تو کیا جائے اور شکست کے بعد یہ کہنے سے گریز کیا جائے کہ ہمارا ہار جیت سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ آپ کیلئے شکست معمولی بات ہوسکتی ہے عام پاکستانیوں کیلئے نہیں ۔

مزید مضامین :