پاکستان لارڈز ٹیسٹ کا تاریخی فاتح

Pakistan Lords Test Ka Tareekhi Fateh

پاکستان نے اس سیریز میں 4 ٹیسٹ میچ ،5وَن ڈیز زاور صر ف1 ٹونٹی20 کھیلنا ہے۔ اسکا نتیجہ کیا نکلے گا وہ تو سیریز کے آخر میں ہی واضح ہو گا لیکن چیف سلیکٹر سلیکشن کی وجہ سے ،کوچ اپنی گزشتہ 2سالہ کارکردگی کی بنا پر اور

Arif Jameel عارف‌جمیل پیر 18 جولائی 2016

Pakistan Lords Test Ka Tareekhi Fateh
پہلا ٹیسٹ کی جیت " ایدھی صاحب " کے نام: لندن کے ڈسٹرکٹ سینٹ جانز ووڈمیں واقع تاریخی " لارڈز کرکٹ گراؤنڈ" میں پاکستان بمقابلہ انگلینڈ پہلا پانچ روزہ ٹیسٹ میچ 14ِتا 18ِ جولائی 2016ء تک ہونے والا 4روز بعد ہی پاکستان کرکٹ ٹیم کی شاندار تاریخی فتح کے ساتھ ختم ہو گیا۔پاکستان کے کپتان مصباح الحق اور ٹیم نے یہ فتح "ایدھی"کے نام کردی۔ کرکٹ ٹیم کو مبارک باد: پاکستان کے وزیر ِاعظم نواز شریف اور دیگر پاکستانی رہنماؤں بمعہ ہر پاکستانی نے ٹیم کو مبارک باد دی اور اَرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کپتان مصباح الحق کو ٹیلی فون کر کے مبارک باد پیش کی۔

مشہور بزنس میں ملک ریاض نے قومی کرکٹ ٹیم کیلئے50ہزار پاؤنڈ کی رقم کے انعام کا اعلان کیا۔ اس ٹیسٹ کی کامیابی کا سہرا اور نئے ریکارڈز کے متعلق جاننے سے پہلے پاکستان کی کرکٹ میں چند ماہ سے پیش رفت اور غیروں کے تاثرات بمعہ پہلے ٹیسٹ میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں کے ناموں کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان کی کرکٹ ٹیم کا جون تا اگست 2016ء میں انگلینڈ میں جا کر اُنکے خلاف کرکٹ سیریز کھیلنے کا اعلان ہو تے ہی گزشتہ کئی ماہ پاکستان کرکٹ بورڈ اور کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی خبروں ،تبصروں و تجزیات کی زد میں رہے۔

ٹیم کی ماضی کی کارکردگی کو مدِنظر رکھتے ہوئے پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان انضمام الحق کو چیف سلیکٹر مقرر کر دیا گیا اور ہیڈکوچ کیلئے ساؤتھ افریقہ کے 1986ء تا2001ء تک ڈومسٹیک کرکٹ کھیلنے والے میکی آرتھر کو بلایا گیا۔ کھلا ڑیوں کی پریکٹس و مزید بہترتربیت کیلئے فوجی اسٹائل اپنا یا گیا۔ سیریز کیلئے کھلاڑیوں کا چُناؤ پر خصوصی نظر رکھی گئی اور نئے چیف سلیکٹر نے اپنی ذمہداری بخوبی نبھاتے ہوئے تین اہم کھلاڑی شاہد آفریدی، احمد شہزاد اور عمر اکمل کو ماضی کی خراب پرفارمنس کی بنا پر کرکٹ ٹیم سے الگ کر دیا۔

گو کہ اس پر مختلف زاویوں سے مثبت تنقید بھی کی گئی لیکن فیصلہ ایک اتھارٹی کا تھا ثابت کر کے دکھایا گیا۔ پاکستان نے اس سیریز میں 4 ٹیسٹ میچ ،5وَن ڈیز زاور صر ف1 ٹونٹی20 کھیلنا ہے۔ اسکا نتیجہ کیا نکلے گا وہ تو سیریز کے آخر میں ہی واضح ہو گا لیکن چیف سلیکٹر سلیکشن کی وجہ سے ،کوچ اپنی گزشتہ 2سالہ کارکردگی کی بنا پر اور ٹیسٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق کو اپنی 42سال کی عمر کے باوجود ریٹائر نہ ہونے کا اعلان کرنے پر نٹ میڈیا تا الیکٹرونک میڈیا تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

پاکستان کرکٹ ٹیم انگلینڈ میں: بہرحال پاکستان کرکٹ ٹیم مصباح الحق کی سربراہی میں انگلینڈ پہنچی اور ٹیسٹ سیریز کے آغاز سے پہلے دو سائڈ میچوں میں پاکستانی کھلاڑیوں نے بہترین کارکردگی دکھائی تو اب وہاں انگلینڈ کے تجزیہ نگاروں اور میڈیا نے پاکستان کرکٹ ٹیم کے خلاف ایک بھرپورمہم کا آغاز کر دیااور فاسٹ باؤلر محمد عامر کے بارے میں دِل توڑ دینے والے الفاظ بھی بیان کر دیئے۔

14ِجولائی 2016ء ایسے لگ رہا تھا کہ شاید وہ ایک اہم تاریخ ہے جس میں پاکستان کرکٹ ٹیم کو کوئی بہت بڑا معرکہ سر کرنا ہے۔کھیلنے والے کھلاڑی 11تھے اور تبصروں میں مشورے دینے والے اَن گنت۔ کپتان مصبا ح الحق اور کپتان ا یلسٹرکک: پہلے ٹیسٹ کیلئے لارڈز کے میدان میں پاکستان کے کپتان مصبا ح الحق اور انگلینڈ کے کپتان ا یلسٹرکک نے ٹاس کیا اور پاکستان نے جب وہ ٹاس جیت لیا تو مصباح الحق نے بیٹنگ کیلئے وکٹ کو ساز گا ر سمجھتے ہوئے پہلے اپنے بلے بازوں کو آزمانے کا فیصلہ کیا۔

پاکستان کی طرف سے جو11کھلاڑی شامل کیئے گئے تھے اُن میں (کپتان) مصباح الحق سمیت محمد حفیظ،شان مسعود،اظہر علی،یونس خان،اسد شفیق،سرفراز احمد،وہاب ریاض،محمد عامر ،یاسر شاہ ، راحت علی اور عمران خان۔ انگلینڈ کی ٹیم میں ایلسٹر کک (کپتان) ، ایلکس ہیلز،جوروٹ،جمیز وینس،گرے بالانس،جونی بیئر سٹو،معین علی،کرس ووکس ویگن،سٹورٹ براڈ،جیک بال ، سٹیفن فِن اور ٹوبی رولینڈ۔

انگلینڈ کے فاسٹ باؤلر جیمز اینڈریسن انجیری کی وجہ سے ٹیم میں شامل نہ ہوسکے اور بین اسٹوکس اور جوز بٹلر پہلے سے ہی انجیری کا شکار تھے۔ کرس ووکس کو ٹیم میں شامل کرنا ایک اہم پیش رفت تھی۔ پہلے ٹیسٹ کا آغاز: پہلا دِن آغاز میں پاکستان کیلئے کچھ مایوس کُن تھا لیکن پھر کپتان مصباح الحق اور اسد شفیق جن کی ٹیم میں سلیکشن ہمیشہ ایک معمہ رہی ہے نے کھیل کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیا اور اپنے شاندار کھیل سے ٹیم کی پوزیشن مضبوط کر دی۔

اسد شفیق تو اُس دِن ہی73رنز بنا کر آؤٹ ہو گئے لیکن مصباح الحق جنہوں نے بحیثیت کپتان ذمہداری نبھاتے ہوئے پہلے دِن سنچر ی بنائی تھی ۔ دوسرے دِن کے آغاز میں 114 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئے اور پاکستان کی پوری ٹیم مجموعی اسکور 339پر آؤٹ ہو گئی۔ انگلینڈ کی طرف سے کرس ووکس نے6آؤٹ کیئے ،بررڈ نے3اوربال نے 1 وکٹ لی۔ انگلینڈ کی ٹیم کے کھلاڑی بیٹنگ کے آغاز میں ہی پاکستانی فاسٹ باؤلز محمد عامر اور راحت علی سے گھبرائے ہو ئے نظر آئے لیکن محمد عامر کی گیندوں پر کپتان ایلسٹر کک کا ایک کیچ محمد حفیظ سے اور دوسرا وکٹ کیپر سرفراز کے ہاتھوں سے گرنے کی وجہ سے صورت ِحال انگلینڈ کے حق میں ہو تی ہو ئی نظر آئی لیکن پھر لیگ سپینر یاسر شاہ نے 5وکٹیں لیکر کھیل کا پانسہ ہی پلٹ دیا اور دوسرے دِ ن کھیل کے اختتام پر انگلینڈ کے 253رنز پر 7کھلاڑی آؤٹ ہو گئے۔

ایلسٹر کک محمد عامر نے ہی بولڈ کیا اور اوپنر کو راحت علی نے۔ تیسرے دِن کے آغا زمیں ہی پاکستانی باؤلز کو کامیابی حاصل ہو گئی اور انگلینڈ کی پور ی ٹیم کو 272کے مجموعی اسکور پر آؤٹ کر دیا۔اسطرح پاکستان کو 67رنز کی برتری حاصل ہو گئی۔ اُنکی طرف سے نمایاں اسکور کرنے والے کک 81 اور جوروٹ48بنا کر آؤٹ ہو ئے اور پاکستان کی طرف سے یاسر شاہ نے 6،محمد عامر نے 2اور1وکٹ راحت علی نے لی۔

ایک کھلاڑی جیک بال رن آؤٹ ہوا۔ پاکستان کی دوسری اننگز کا آغاز کچھ اچھا نہ ہوا اور محمد حفیظ جنہوں نے پہلی اننگ میں40رنز بنائے تھے صفر پر آؤٹ ہو گئے اور پھر ہرنئے آنے والے کھلاڑی نے رنز مجموعی اسکور بھی بڑھانے کی کوشش کی اور اپنی وکٹ بھی کھوتا رہا۔ بلکہ اس دوران کپتان مصباح الحق بھی صفر پر ہی آؤٹ ہو گئے اور دِن کا کھیل ختم ہو نے تک پاکستان مجموعی اسکور214پر 8وکٹیں گنوا چکا تھا۔

چوتھے دِن کے شروع میں صرف 1رنز کے اضافے کے بعد ہی پاکستان کی کرکٹ ٹیم 215کے مجموعی اسکور پر پویلین واپس چلی گئی۔جسکے بعد انگلینڈ کی ٹیم کو 67رنز کی برتری ڈال کر کُل 282اسکور کر کے میچ اپنے نام کرنا تھا۔پاکستان کی طرف سے دوسری اننگز کے نمایاں بلے باز اسد شفیق 49،سرفراز احمد45اور یاسر شاہ 30 رنز کے ساتھ رہے۔انگلینڈ کی طرف سے کرس ووکس نے 5، بررڈ نے 3 اور معین علی نے 2کھلاڑی آؤٹ کیئے۔

انگلینڈ کی ٹیم کیلئے چوتھی اننگز میں اتنا اسکور کرنا آسان نہیں تھا لہذا اُنکے ابتدائی کھلاڑی آغاز میں ہی دم توڑ گئے اور اُنکا شکاری بنا راحت علی جس نے 3کھلاڑی آؤٹ کر دیئے۔ اس دوران ایک دو کھلاڑیوں نے میچ کا آگے بڑھانے کی کوشش کی۔جن میں جمیز وینس42،گرے بالانس43اورجونی بیئر سٹو نے48رنز بنائے بلکہ کرس ووکس نے بھی 23رنز بنائے لیکن یاسر شاہ نے 4 ،محمدعامر نے 2اور وہاب ریاض نے مزید1 وکٹ لیکر لارڈز کے گراؤنڈ میں75رنز کی برتری سے شاندار تاریخی فتح حاصل کرلی۔

کامیابی کا سہرا: پاکستان کیلئے انگلینڈ میں ٹیسٹ سیریز کے دوران پہلا ٹیسٹ ہی جیت لینا ایک بہت بڑی اور ناممکن کو ممکن دکھا دینے والی کامیابی ہے۔جس کا سہراسلیکٹرز کے بعد سب سے پہلے ہیڈ کوچ مکی آرتھر کو جاتا ہے جس نے ٹیم کی فوجی تربیت کے دوران صاف کہا تھا کہ کھلاڑیوں کا جیت کے سفر کی طرف قدم بڑھانے کیلئے اُنکے ذہن سے شکست کا خوف نکالنا ہو گا اور ڈسپلن اُسکی پہلی منزل ہو گی۔

تیسرا اہم کردار کپتان مصباح الحق کا ہے جنہوں اپنی زیادہ عمر کو نہ اپنے اُوپر حاوی ہو نے دیا اور نہ ہی اپنے اسکوڈ پر کسی قسم کا ایسا دباؤ ڈالا جسکی وجہ سے وہ گھبرائے ہو ئے نظر آتے۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں پہلے ٹیسٹ میں ایک بھر پور جوڑ نظر آیا اور ہر کھلاڑی نے انتہائی ذمہداری سے پورے میچ میں اپنا حصہ ڈالا جسکی وجہ سے ٹیم موریل بہت بلند نظر آیا۔

انگلینڈ کی ٹیم کے اگر بلے باز ناکام نظر آئے تو اُنکے باؤلز کی کارگردگی قابل ِتعریف رہی۔ خصوصی طور پر کرس ووکس کی جس نے میچ میں کُل11کھلاڑی آؤٹ کیئے اور بررڈ کی اِن و آؤٹ سوئنگ اپنی جگہ کمال رہی۔ساتھ میں اُنھوں نے ٹیسٹ میچوں میں اپنی350وکٹیں بھی مکمل کر لیں۔ سوال یہ نہیں کہ اسکو ر نہ کرنا ،آؤٹ نہ کرنا یا کوئی کیچ چھوٹ جانا میچ کی ہار جیت کا باعث بن جاتا ہے سوال یہ ہے کہ یہ کمی بیشی کھیل کا حصہ ہوتی ہے اور اس ہی میں ٹیم ورک ایک کی جیت اور ایک کی ہار بن جاتی ہے۔

لیکن اس سے بھی انکار نہیں کہ مقابلہ جوڑ کا ہونا چاہیئے۔جو پہلے ٹیسٹ میں واضح نظرآیا ۔ اُمید رکھتے ہیں کہ تجزیہ کار پاکستان ٹیم کی صلاحیت بڑھانے کیلئے مشورے دیں گے نہ کہ دِل بیٹھانے کے۔ اہم واقعا ت ۱و ریکارڈز: ۱) لیگ سپینئریاسر شاہ1967ء کے بعد لارڈز میں پہلی اننگز میں 5شکار کرنے والے اولین لیگ سپنر بن گئے۔ساتھ میں 13 ٹیسٹ میچوں میں86شکارکر کے بھی نیا ریکارڈ بنا دیا ۔

اس سے پہلے یہ ریکارڈ آسٹریلیا کے سابق میڈیم فاسٹ باؤلر چارلی ٹرنر کے پاس تھا جنہوں نے 13میچوں میں 81وکٹیں لی تھیں۔ اُنکا ٹیسٹ کیرئیر جنوری1887ء تافروری1895ء تک رہا اور اُنھوں نے 17ٹیسٹ میچوں میں کُل 101وکٹیں لیں۔ یاسر شاہ اگر اگلی4اننگز میں مزید 14کھلاڑی آؤٹ کر لیتے ہیں تو وہ انگلش باؤلر جارج لوہمن جنہوں نے 1886ء تا 1896ء تک18 ٹیسٹ میچ کھیل کر 112وکٹیں حاصل کی تھیں کا 120سالہ پرانا 15ٹیسٹ میں تیز ترین100وکٹیں حاصل کرنے کا ریکارڈ توڑ سکتے ہیں۔

اسکے علاوہ وہ پہلے ایشیاکے باؤلر بن گئے ہیں جنہوں نے لارڈزمیں ٹیسٹ میں 10وکٹیں لی ہیں ۔ ۲) کپتان مصباح الحق جو اپنی زندگی میں پہلی دفعہ انگلینڈ میں اُنکی ٹیم کے خلاف کھیل رہے تھے سیریز کے پہلے ٹیسٹ میں ہی سنچری بنا کربحیثیت کپتان ریکارڈ بنا دیا اور دوسری اننگز میں اُنکا صفر پر آؤٹ ہونا بھی لارڈز کے میدان میں سنچری بنانے کے بعد ایک ریکارڈ بن گیا۔

ساتھ میں بحیثیت کپتان ہی سب سے زیادہ 42سال کی عمر میں سنچری بنانے کا ریکارڈ بھی قائم کر دیا۔وہ اب تک 10ٹیسٹ سنچریاں بنا چکے ہیں اور سنچری بنانے والے میچوں میں قومی ٹیم کو شکست کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔جو ایک اور ریکارڈ ہے۔ ۳) لارڈز ٹیسٹ سے ایک روز پہلے دونوں ٹیموں کے کپتانوں نے ٹیسٹ سیر یز ٹرافی کی رونمائی کی۔ ۴) پاکستان نے 20سال بعد لارڈز کے میدان میں کرکٹ ٹیسٹ میچ جیتا۔

آخری دفعہ1996ء میں وسیم اکرم کی قیادت میں 164رنز سے فتح حاصل کی تھی۔ ۵)لارڈز میں 4ٹیسٹ پاکستان و 4 انگلینڈ جیت چکا ہے اور6برابر ہوچکے ہیں۔ ۶) لارڈز میں جیت کے بعد پاکستانی ٹیم سب سے زیادہ ٹیسٹ جیتنے والی ایشین ٹیم بن گئی۔ ۷) یاسر شاہ اس میچ کے بعدٹیسٹ کیر ئیر میں پہلی دفعہ میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پا ئے ہیں۔ ۸) اسد شفیق اس میچ کے بعد نمبر6کی پوزیشن پر ٹیسٹ میچوں میں 2500 رنز بنانے والے دُنیا کے 9 ویں بلے باز بن گئے۔

۹) لارڈز میں ٹیسٹ شروع ہو نے سے پہلے وہاں پر لگی ہوئی بیل بجانے کا اعزاز اس دفعہ پاکستان کے باؤلنگ کوچ و سابق لیگ سپن باؤلر مشتاق احمد کا حاصل ہوا ۔ اس سے پہلے یہ اعزاز پاکستان کی طرف سے علیم االدین،مشتا ق محمد،وسیم اکرم اوررمیض راجہ کو حاصل ہو چکا ہے۔ ۶) پاکستان کرکٹ ٹیم نے یہ ٹیسٹ جیت کر انگریزوں کی طرف سے اُنکے خلاف منفی پروپیگنڈاکا بہترین جواب دیا۔

جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ۱۰) کپتان مصباح الحق نے سنچری بنانے کے بعد خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اُس ہی وقت گراؤنڈ میں دس پش اَپس نکال کر بتایا کہ وہ ابھی بہترین کھیل پیش کر سکتے ہیں ۔ بعدازاں ٹیسٹ جیت کر پویلین میں واپس آنے سے پہلے بھی پوری ٹیم نے ایک نئے انداز میں کھڑے ہو کر پہلے اپنے ٹرینرز کو سلوٹ کیا اور پاک فوج و پاکستان ملٹری اکیڈمی انسڑکٹرز کو خصوصی طور پر خراجِ تحسین پیش کیا۔

پھر سب نے مِل کر کامیابی کا جشن مناتے ہوئے گراؤنڈ میں پش اَپز نکالیں جس پر وہاں پر موجود شائقین نے اُنکو داد دی۔ ۱۱) کپتان مصباح الحق کا کامیابی کے بعد کہنا تھا کہ اُنھوں نے 2010ء میں پاکستان پر لگے ہوئے سپاٹ فکسنگ کے داغ کو میدان میں بہترین ڈسپلن کی بنا پر دھو ڈالا ہے اور یہی پاکستان کرکٹ ٹیم کی بڑی کامیابی ہے۔ پاکستان4ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں0-1سے آگے ہو گیا۔

مزید مضامین :