کورونا وبائی بیماری کہاں سے آئی ؟ کھیلوں کی دُنیا سے بھی چند خبریں

Sports Update

کورونا وائراس کی وجہ سے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے ٹی20 عالمی کپ ٹرافی ٹور ملتوی کر دیا، برٹش اوپن سکواش کے4 بار چیمپئن رہنے والے 95 سالہ اعظم خان لندن میں کورونا کے باعث انتقال کر گئے،سابق افریقی فٹبالر عبدالقادر فرخ بھی کورونا وائرس سے وفات پا گئے

Arif Jameel عارف‌جمیل منگل 31 مارچ 2020

Sports Update
کورونا وبائی بیماری کہاں سے آئی ؟ کھیلوں کی دُنیا سے کچھ اہم خبریں: # کورونا وائراس کی وجہ سے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے ٹی20 کرکٹ عالمی کپ ٹرافی ٹور ملتوی کر دیا۔ # برٹش اوپن اسکوائش کے4 بار چیمپئین رہنے والے 95 سالہ اعظم خان لندن میں کورونا کے باعث انتقال کر گئے۔ # سابق افریقی فُٹ باؤلر عبدالقادر فرخ بھی کورونا وائرس سے وفات پا گئے۔ # کورونا وائرس کی آگہی اور تعاون میں بھی دُنیا بھر سے کھیلوں سے تعلق رکھنے والوں کے بہت سے نام سامنے آنے شروع ہو گئے۔

اِن حالات میں جہاں دُنیا بھر میں ایک پریشانی کا عالم ہے وہاں شاید ابھی عام سطح پر کم ہی سوچا جا رہا ہے کہ اس وباء کے بعد کیا ہونے والا ہے۔لہذا کھیل کو ہی موضوع رکھتے ہوئے کورونا کی وباء سے آگے کیا ہو سکتا ہے پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں: کورونا کی وباء سے آگے: کورونا وائرس نما دُنیاوی سطح پر پھیلی ہوئی وباء پر اور اس سے بچنے کی احتیاطی تدابیر پر تو اتنا کچھ دیکھنے ،پڑھنے اور سننے میں سامنے آگیا ہے کہ اب اسکے متعلق مزید اظہار ِرائے صرف بوریت سے زیادہ کچھ نہیں ۔

(جاری ہے)

بس احتیاط کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگیں کہ وہ سب کو اپنی پناہ میں رکھے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق تمام مذاہب کے افراد ایک ایسی کشتی میں سوار ہیں جو گہرے پانی میں ہچکولے کھا رہی ہے اور سب کو صرف اللہ تعالیٰ سے ہی اُمید ہے کہ وہ اس کشتی کو خیریت سے پار لگا دے۔عام الفاظ میں کشتی والے کہہ رہے ہیں سب اُوپر والے سے دُعا مانگوہم سب ساحل پر پہنچ کر تیرے حُکم کے مطابق زندگی گزاریں گے ایک موقع اور۔

کیا ایسا ہی ہو گا ؟ نہیں ۔ کیوں ؟ بالکل ! دُنیا بھر میں اتنی بڑی آفت آنے کے باوجود اس دفعہ بھی میڈیا کا منفی کردار صرف دُنیاوی مقاصد حاصل کرنے کیلئے دُنیاوی نقصانات کوزیر ِبحث لا رہا ہے۔اُسکو اشتہار ت مل رہے ہیں اور اُنکا کاروبار عروج پر ہے ۔میڈیا کے اس رویئے پر مادیت پرست طبقہ اس بیماری کے حوالے سے ہر روز نئے انکشافات کر رہا ہے اور جہاں لاکھوں افراد اس بیماری سے بچنے کیلئے خود ساختہ ڈاکٹر بن کر اپنے مشورے سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلا رہے ہیں وہاں بین الاقوامی ڈاکٹرائن پر انتہائی دلچسپ اور حیرت انگیز تبصرے بھی سامنے آرہے ہیں۔

یہ بے راہ روی کی اعلیٰ ترین یا گھٹیاترین مثال ہے۔اعلیٰ ترین اس لیئے کہ کمال سوچ ہے اگر حقیقت ہے اور گھٹیا ترین اس لیئے کہ کئی مضامین و تبصروں میں قدرت سے زیادہ سائنسی بنادوں کو اہمیت دے کر اس وباء کو دُنیاوی معاملے سے زیادہ حیثیت نہیں دی جارہی۔ شاید یہاں سے ہی کورونا وباء کے بعد کیا ہونے والا ہے ایک مستقبل کی جھلک پیش کر رہا ہے ۔

کیونکہ امریکہ و چین اس بیماری کے دوران ایک دوسرے پر الزام ترشی کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ وباء دونوں میں سے کسی ایک ملک نے وائرس چھوڑ کر پھیلائی ہے۔مقصد دُنیاوی برتری۔طاقت میں بھی اور معیشت میں بھی۔ اسکے لیئے بہت سے ٹھوس ثبوت بھی پیش کیئے گئے ہیں ۔ چلیں کچھ دیر کیئے سب مذاہب والے یہ مان لیتے ہیں۔یا پھر سوال ہے کیوں ؟ جی! لہذا دُنیاوی طور پرپہلی بات تو یہاں ہی ثابت ہو جاتی ہے کہ اس بیماری کے بعد یا کشتی ساحل پر لگنے کے بعد کیا ہو نے جارہا ہے۔

کیونکہ ایک سوال کیا جارہا ہے کہ کیا کوئی ایسا وائرس تیار کر کے ایسا ہولناک کھیل کھیلا جاسکتا ہے؟ جواب!جی بالکل۔ اگر ہیکرز کمپیوٹر ز کا مواد اُٹھا سکتے ہیں،شرارتی کمپیوٹر وائرس چھوڑ کر سارے لنک ڈاؤن کر سکتے ہیں بلکہ اس دور میں تو کمپیوٹر کے ذریعے عام انتخابات ہائی جیک کروا کر نتائج بدلے جاسکتے ہیں تو پھر قوموں کی برتری کیلئے چند ایسے وائرس تیار کروا کر دُنیا بھر میں بے چینی کیوں نہیں پیدا کی جاسکتی۔

جنگ کیلئے باؤنڈری کبھی نہیں کھینچی گئی اور آج کے دور میں بھی کسی ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے کچھ بھی بنانے کیلئے کوئی حد مقرر نہیں کی گئی۔ اس وقت پوری دُنیا میں ایک بڑی طاقت نے جنگی سماں پیدا کیا ہوا ہے اور دوسری نے معاشی سامان۔لیکن جدید دور میں اسطرح کے حملے میں اموات اُن ممالک میں بھی ہو رہی ہیں جن پر شُبہ ہے کہ وائرس اُنکی طرف سے چھوڑا گیا ہے۔

جی ! جنگ جیتنے کیلئے اپنے سپاہی بھی قربان کرنے پڑتے ہیں چاہے وردی میں ہوں یا اپنے قلعے کے باسی۔ کھیل ختم ہو نے کے بعد کیاہونے جارہا ہے؟ یہی تو غور طلب ہے۔چین نے اس وباء کے دوران اپنی پیداوار بند نہیں کی کیونکہ اُنکے زیادہ تر ملازمین کی رہائش انڈسٹریز میں ہی رہتی اور آٹومیٹک انڈسٹریز میں اکیلے فاصلے پر کھڑے ہو کر کام کیا جا سکتاہے ۔

لہذا اُنکی پیداوار بھی تیار ہے اور وائرس سے لڑ کر بھی فارغ ہو نے والے ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ جونہی یہ وباء ختم ہونی ہے دُنیا بھر کے کاروباری حضرات نے چین کی طرف رُخ کرنا ہے کیونکہ وباء سے بچاؤ کی پابندیوں کے دوران اُنکے ممالک میں اشیاء کمیاب ہو جائیں گی اور طلب بڑھ چکی ہو گی۔ویسے اس وقت میڈیکل سامان کی ترسیل بھی وہاں سے ہی دُنیابھر میں جاری ہے۔

امریکہ کو کیا فائدہ ہو نے جارہا ہے؟ ڈالر ۔دُنیا بھر میں ڈالر کی ضرورت۔چین سے اشیاء خریدنے کیلئے متاثرہ ممالک کو ڈالر کی ضرورت ہو گی ۔پہلے موجود زر ِمبادلہ کے ذخائر سے وباء کیلئے میڈیکل ادویات و علاج سے متعلقہ اشیاء خریدی جارہی ہیں بعد ازاں جب ممالک کو ضروریات ِزندگی کی اشیاء خریدنے کیلئے ڈالر کی ضرورت پڑے گی تو امریکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے ساتھ مل کر دُنیا بھر میں قرضے دے گا اور جس کا تخمینہ ڈالر کی صورت میں لگایا جایا گا۔

جس کی پہلی کڑی اس وقت ممالک میں ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر اور باقی تقریبً تمام ممالک کی کرنسیوں کی گرتی ہوئی قدر۔ بس اس ہی کڑی سے دُنیا کا معاشی نظام سنبھالا جائے گانئے قرصوں کے دباؤ میں ۔ آسان الفاظ میں ایک طاقت کا نام ڈالر اور دوسری کا سامان ہوگا۔جنگ کہاں ہوئی جیتا کون یہ ڈاکٹرائن تو مختلف انداز و الفاظ میں ماضی کا تجزیہ اور مستقبل کی پیشن گوئی کا حصہ بنا کر پیش کیا جاتا رہے گا لیکن یقین کر لیں " ہار" کمزور ممالک اور اُنکی عوام کی ضرور ہو جائے گی۔

جدیدٹیکنالوجی جدید دُنیا کو بے انتہاء فوائدضرور دے رہی ہے لیکن انسانیت کا سبق صدیوں پرانے نظاموں و ذہنوں پر ہی مشتمل ہے۔سورما بن کر مارو اور حکمرانی کرو۔ سائنسی بنیاد وں پر تو ثابت کرنے کی کوشش کی کہ دُنیاوی سطح پر بنایا گیا وائرس گلیمر ورلڈ پر حملہ آور ہوا ہے لیکن اس یقین کے ساتھ کہ یہ وبائی بیماری ا للہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے کیونکہ اُس کا فرمان ہے اللہ تعالیٰ تمھارے حق میں مہربان ورحیم ہے ۔

یہ مال و اولادمحض وقتی آرائش ِزندگی ہے۔جس میں کھو کر دُنیاوی زندگی کو ترجیح دینے لگ پڑتے ہوپھر یہی تمھارے اعمال تمھارے لیئے وبال بن جاتے ہیں ۔حالانکہ اللہ تعالیٰ کے پاس تمھاری پہنچنے والی نیکیاں زیادہ اہم ہیں جو وقت ِمیزان تمھارے پلڑے کو جُھکا کر تمھیں پُل صراط سے با آسانی گزار دیں گی۔بصورت ِدیگر وہاں بھی ناکامی تمھارا انتظار کر رہی ہو گی۔

کیا کسی پر کوئی اثر ہو گا یا پھر 3 دہائیوں بعد ایک نیا ورلڈ آرڈ جاری کیا جانے والا ہے جس میں فرد ِواحد کو زمین کی پاتال کی اُس گہرائی تک گرا دیا جائے گا کہ وہ معاشرے کی اخلاقی قدرین چھوڑ کر صرف معاش کے چکر میں کسی دوسرے کو نہیں بخشے گا۔لہذا فی الوقت کہیں دُور تک نظر نہیں آرہا کہ اس دُنیاوی سطح کی وبائی بیماری کے بعد بھی کچھ ٹھیک ہو نے والاہے ۔

کیاکشمیر آزاد ہو جائے گا فلسطین کو اُنکی زمین مل جائے گی یا مسلم اُمہ میں اتحاد ہو جائے گا۔کیا شرم وحیا کا لباس اُوڑھ لیا جائے گا؟ اللہ تعالیٰ تنبیہ کو طور پر فرماتا ہے کہ تمھارے رنگ ڈھنگ اگر نہیں بدلتے تو ایسا تو پہلی قومیں بھی کرچکیں جو تم سے زیادہ طاقت ور تھیں۔ویسی ہی بحثوں میں تم پڑے ہو جیسی وہ ماضی میں کر چکے سو اُن کا انجام یہ ہو اکہ دُنیا و آخرت میں اُن کا سب کیا دھرا ضائع ہو گیا اور وہی خسارہ جو اُنکے حصے میں آیا تمھارے حصے میں آئے گا۔

دُعا کریں سب سے پہلے ہمارے دِل نرم ہوں۔ یہاں مشہور شاعر شہزاد تابش صاحب کی نظم کے آخری دومصرعے اہم ہیں: اس طرز پر جینا ہی مقدم ہے جہاں میں ٹوٹے نہ کوئی شیشہ ِدل حرف ِاَنا سے "آگے کھیلتے ہیں دیکھتے ہیں اور ملتے ہیں "۔

مزید مضامین :