”وقار“بحال ہوگا؟

Waqar Bahal Ho Ga

وقار یونس کی بحالی سے بڑھ کرپاکستان کرکٹ کا وقار بحال ہونا ضروری ہے!!فرحان نثار کا خصوصی تجزیہ

Farhan Nisar فرحان نثار اتوار 3 اپریل 2016

Waqar Bahal Ho Ga

وقار یونس کی سادگی پر حیرت ہے کہ جو یہ ابھی تک یہ نہیں جان سکے کہ ورلڈ ٹی20کے حوالے سے اُن کی رپورٹ کس نے پاکستان کرکٹ بورڈ سے ”لیک“ کرتے ہوئے صحافیوں تک پہنچائی حالانکہ یہ بات نہایت آسان اور سادہ ہے کہ جس کرکٹ بورڈ کی پوری طاقت ایک کہنہ مشق صحافی کے ہاتھوں میں ہو اور ٹیم کی خراب کارکردگی کی جانچ پڑتال کرنے کیلئے جو کمیٹی بنائی گئی ہو اس کا سربراہ بھی ایک صحافی ہو تو وہاں یہ جاننے کیلئے زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ وقار یونس کی رپورٹ کیسے میڈیا کی ”زینت“ بنی لیکن یہ بھی یاد رہے کہ ایک اور صحافی پی سی بی کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ میں اہم عہدے پر فائز ہے اور پی سی بی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پہلے ہیڈ کوچ وقار یونس اور پھر مینجر انتخاب عالم کی رپورٹس کا منظر عام پر آنا انہی صاحب کا ”کارنامہ“ ہے۔

(جاری ہے)

رپورٹ لیک ہوتے ہی وقار یونس کا ”جارحانہ پن“عود آیا جو گزشتہ کئی مہینوں میں کوچنگ کے دوران دکھائی نہیں دیا جبکہ کرکٹ بورڈ کے بڑوں کے پیروں تلے زمین نکل گئی ہے جو بوکھلاہٹ کے عالم میں اس ”گندی“مچھلی کو ڈھونڈنے پر جُت گئے ہیں جو پورے تالاب کو گندا کررہی ہے۔
یقینا یہ بات اہم ہے کہ وقار یونس کی خفیہ رپورٹ کون منظر عام پر لایا کیونکہ ماضی قریب میں ایسی رپورٹس فوری طور پر میڈیا پر نہیں آئیں مگر چند گھنٹوں میں وقار یونس کی رپورٹ کا میڈیا پر آجانا بہت سے سوالات کو جنم دے رہا ہے کہ اس رپورٹ کو ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے ذریعے سامنے لایا گیا ہے تاکہ اصل مسئلے سے دھیان بٹ جائے۔ وقار یونس کا خیال ہے کہ یہ رپورٹ شہریار خان اور نجم سیٹھی نے میڈیا کے حوالے کی ہے اور حوالے سے وقار یونس ڈھکے چھپے لفظوں میں نجم سیٹھی پر یہ الزام بھی عائد کرچکے ہیں کہ اُن کی خفیہ رپورٹ سب سے پہلے اُس چینل نے دکھائی جہاں نجم سیٹھی ایک ٹی وی پروگرام کرتے ہیں جبکہ پی سی بی کو شک ہے کہ میڈیا مینجر کی حیثیت سے قومی ٹیم کے ہمراہ بھارت جانے والے آغا اکبر نے یہ رپورٹ لیک کی ہے جن پر ورلڈ ٹی20کے دوران دو غیر ملکی اخبارات کیلئے محمد عامر اور بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور کا انٹرویو کروانے کا الزام بھی عائد ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وقار یونس نے جان بوجھ کر یہ رپورٹ لیک کروائی ہے اور اس کے بعد وفاقی وزیر کھیل سے مل کر اپنی نوکری بچانے کی کوشش کی ہے جو پاکستان کرکٹ بورڈ سے ماہانہ 15لاکھ روپے سے زائد وصول کررہے ہیں۔
وقار یونس کی رپورٹ لیک ہونے کے بارے میں تحقیقات ہونی چاہیے کیونکہ ایسا کرنا اخلاقیات کے زمرے میں نہیں آتا اور جس نے ایسا کیااسے سزا بھی ملنا چاہیے کیونکہ کوچ اور مینجر کی رپورٹ ایسی خفیہ دستاویز ہوتی ہے جسے عوام کے سامنے نہیں لایا جاسکتا بلکہ ان رپورٹس کی روشنی میں کرکٹ بورڈ ٹیم کے معاملات کو بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔جو نہیں ہونا چاہیے تھا وہ ہوچکا ہے یعنی قومی کرکٹ ٹیم کے کوچ اور مینجر کی خفیہ رپورٹس منظر عام پر آچکی ہیں اور ان رپورٹس کو سامنے رکھتے ہوئے اگر پاکستان کرکٹ بورڈ قومی ٹیم کی حالت کو درست کرنے کا بیڑہ اٹھا لے تو حالات میں بہتری آسکتی ہے کیونکہ مینجر اور کوچ کی رپورٹس میں مسائل کا حل بھی موجود ہے ۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وقار یونس نے جذباتی انداز میں بیانات دے کر اور حکومتی حلقوں تک رسائی حاصل کرکے اپنے عہدے کو بچانے کی کوشش کی ہے میں انہیں غلط نہیں کہتا جبکہ دوسری جانب فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ میں اگر کپتان ،کوچ اور سلیکشن کمیٹی کو فارغ کرنے کی سفارش کی جاتی ہے تو اسے بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا مگر پاکستانی ٹیم کی بہتری کا حل کا چہروں کی تبدیلی یا پھر وقار یونس کااپنے عہدے پر قائم رہنے کیساتھ ساتھ مشروط نہیں ہے بلکہ پاکستان کرکٹ کے مسائل کو حل کیے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں ۔ جو ٹیم عالمی رینکنگ میں بنگلہ دیش کے ہم پلہ کھڑی ہے اسے ٹاپ ٹیم بنانا پاکستان کرکٹ بورڈ کا ہدف ہونا چاہیے ۔ پاکستانی ٹیم یا پھر پاکستانی شائقین کا مسئلہ وقار یونس کا عہدے پر رہنا یا نہ رہنا نہیں ہے بلکہ سب سے زیادہ تشویش کی بات پاکستان کرکٹ کا ”وقار“ ہے جسے ہر صورت میں ”بحال“ ہونا چاہیے!!

مزید مضامین :